ابن فاضل :
گمان فاضل تھا کہ یہ وہی پہلی بس تھی جو فورڈ نے ایجاد کی تھی. اور ابتدائی ایام کے سارے تجربات کیے جانے کے بعد اسے کسی کباڑیے کو فروخت کرنے کی بجائے امداد میں دوگنی قیمت پر وطن عزیز کو فروخت کر دی گئی ہوگی. کنڈکٹر صاحب نے حکم صادر فرمایا کہ اپنا سامان چھت پرچڑھائیں. اور اس وقت حکم کنڈکٹر، حکم اولی الامر لگا کہ ہم اپنا تن من اور دھن سب اسے تفویض کرنے کا معاہدہ بصورت ٹکٹ پہلے سے کرچکے تھے. سو جی جان سے تعمیل کرتے ہوئے سامان چھت پر پہنچایا گیا.
ازاں بعد بہرحال انہوں نے کمال شفقت فرماتے ہوئے سارے سامان کو رسیوں سے باندھ کر ترپال سے ڈھانپ دیا. ادھر بس میں سیٹوں کے نمبر وغیرہ کے تکلفات نہیں ہوا کرتے تھے. بس پوری بس میں جہاں بس چلے بیٹھ جائیں کا نظام نافذالعمل عمل تھا. سو ہم نے ڈرائیور بھائی کے عین پیچھے والی سیٹوں کا انتخاب کیا کہ لمبے سفر کیلئے ٹانگیں لمبی کرنے کی سہولت اس سے زیادہ اور کسی سیٹ پر میسر نہیں.
اور اس بس میں سیٹیں بھی کیا تھیں، یوں سمجھ لیں کہ کسی دورافتادہ گاؤں میں ٹاہلی کے نیچے محو خدمت فیقے نائی کے بنچ کی طرح کی تھیں. یعنی لکڑی کے پھٹوں پر میلی سی پھسی ہوئی گدیاں رکھ انہیں ایک سرکاری حکم نامے کے تحت سیٹیں قرار دیدیا گیا تھا. بالکل وسطی پنجاب کے کسی چھوٹے سے تھانے کی طرح جہاں وسائل کی قلت کے باعث حوالدار کو ہی تھانیدار مقرر کردیا جاتا ہے. یا اندرون سندھ کے کسی سکول کی طرح جہاں چپراسی ہی ہیڈماسٹر ہوتا ہے.
اللہ اللہ کرکے وقت روانگی آیا اور ہم محو سفر ہوئے. کچھ دیر تو فرط جذبات میں سفر کی نفسیاتی کیفیات سے لطف اندوز ہوتے رہے، مگر جیسے ہی حواس بحال ہوئے ہم نے محسوس کیا بس میں بیشتر خصوصیات مشرقی خواتین والی ہیں.
مثال کے طور اسے راہ راست پر رکھنے کیلئے ڈرائیور بیچارے کو مستقل محنت کرنا پڑرہی تھی. شاید اگلے پہیوں کی تستقیم میں کوئی مسئلہ تھا. جونہی سٹیرنگ کو ہلکا سا آزاد چھوڑتا یہ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ دینا شروع کردیتی. لہذا وہ منحنی سا ڈرائیور سٹیرنگ کے دائیں طرف تقریبا لٹکا ہوا بس چلا رہا تھا.
دوسری بات جو ہم نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ بس جس قدر کارکردگی دکھا رہی تھی اس سے کہیں زیادہ شور مچارہی تھی. مطلب آواز سے ایسے لگ رہا تھا کہ دوسو میل فی گھنٹہ سے اڑی چلی جارہی ہے مگر حقیقت اس کے ایک چوتھائی بھی نہ تھی.
پیرانہ سالی پر لال رنگ کا تذکرہ تو ہم پہلے ہی کرچکے البتہ نقص امن کے خطرہ کے پیشِ نظر مزید مماثلاتی خصوصیات نہیں بتائی جارہیں.
ہری پور سے گزرتے ہوئے جب ہم ایبٹ آباد کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو ہمارے جمالیاتی وپہاڑیاتی حسن کی بھوک کی تسکین ہونا شروع ہوجاتی ہے. ناٹکو کی بسوں میں اس وقت دو خوبیاں زبردست ہوتی تھیں اب کا پتہ نہیں ۔ایک تو یہ کہ ہر نماز کیلئے کسی مناسب جگہ پر قیام ضرور کرتے اور دوسرا کوئی بھی خاتون بس میں کھڑے ہوکر سفر نہیں کرتی. کوئی نہ کوئی مسافر رضاکارانہ طور پر اپنی سیٹ دےدیتا. ورنہ بزرگ بزور سیٹ خالی کروالیتے.
ایبٹ آباد سے آگے مانسہرہ سے گزرتے ہوئے اب قراقرم ہائے وے پر زبردست نظاروں کے ساتھ محو سفر تھے. بےپناہ سبزہ اور درجنوں اقسام کے پھلدار درخت اس علاقے کی خصوصیات ہیں.
مانسہرہ سے کچھ آگے سڑک کے دونوں اطراف وہ بستی شنکیاری ہے جہاں چائے اگانے کے کامیاب تجربات کیے گئے ہیں. نہیں معلوم اس کامیاب تجربہ سے بڑے پیمانے پر فائدہ کیوں نہیں اٹھایا جاسکا. حالانکہ نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کروپ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی 2017 میں شائع کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ہم نے 2017 کے پہلے چھ ماہ میں بائیس ارپ روپے کی چائے درآمد کی. یعنی چوالیس ارب کی سالانہ چائے درآمد کی جاتی ہے جس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے.
اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ضلع مانسہرہ، بٹگرام اور سوات میں ڈیڑھ لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ چائے کی کاشت کے لیے موزوں ہے. اسی طرح آزاد کشمیر کے بہت سے رقبہ پر بھی چائے کاشت کی جاسکتی ہے. جبکہ صرف دولاکھ ایکڑ اراضی پر اگر چائے کاشت کر دی جائے تو ہماری تمام ملکی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں.
دوسری طرف حال یہ ہے کہ ان علاقوں میں فی الحال اگایا جانے والے آڑو اور جاپانی پھل کثرت پیداوار کی وجہ سے تین سے چھ روپے فی کلو فروخت کرنا پڑتے ہیں. نہیں معلوم ہم کب خواب غفلت سے بیدار ہوں گے.
سونا اور سوئے رہنا چونکہ ہمارا قومی مشغلہ ہے سو جیسے شام کا ملگجا اندھیرا شروع ہوتے ہی ہم بھی انہیں تختہ نما سیٹوں پر نیم دراز ہورہے . پچھلی رات کا سفرہم نے ادھ جاگتے ہوئے کیا تھا سو اب یہ سفر ہم ادھ سوئے کررہے تھے.
جانے کتنی گھڑیاں یا کتنی صدیاں سوئے ہوئے بیت گئیں کہ ایک دم غیرمعمولی شور سے ادھ لگی آنکھ کھل گئی. بس کی سواریاں بالکل اسی اندازورفتار سے بس سے نیچے اتر رہی تھیں جیسے گاؤں کی شادی پر باراتی
” روٹی کھل گئی جے “ کہ نعرہ مستانہ وخوشکن سننے کے بعد ” روٹی “ پر حملہ آور ہوتے ہیں.
ہوش وخرد بحال ہوئے تو جانا کہ رات کے کھانے کا وقت ہوچکا ہے اور بس کسی بستی میں چھوٹے سے ہوٹل پر روک دی گئی ہے. وطن عزیز میں گھر سے باہر کہیں بھی محو سفر ہوں تو تمام چھوٹے بڑے ہوٹلوں میں آپ کو کھانے میں ایک چیز لازماً ملے گی ہے. اور وہ ہے ماش کی دال. گمان فاضل ہے کہ ماش کی دال سب لب سڑک ہوٹلوں میں بالکل ایسے ہی فرض کردی گئی ہے جیسے رمضان المبارک میں پکوڑے.
وطن عزیز کے طول وعرض میں ماش کی دال اتنی متنوع پکائی جاتی ہے کہ حیرت ہوتی ہے. کئی لوگ بالکل ’ دیہاتی باپ ‘ کی طرح سخت اور کھڑی کھڑی پکاتے ہیں. اور کئی بالکل ’ شہری ماؤں ‘ کی طرح نرم، خوبصورت رس بھری. کئی اس قدر گلا کر ملیدہ سا تیار کردیتے ہیں کہ نجی یونیورسٹی کے طلباء کی طرح پہچان میں ہی نہیں آتی کہ یہ آخر ہے کیا.
اور کئی تو اتنا لمبا شوربہ کرتے ہیں کہ دیگچے سے میز تک آتے آتے دال بالکل نشئی آدمی کی ڈری سہمی بیوی کی طرح پلیٹ کے کناروں کے ساتھ دبکی ہوتی ہے اور شوربہ وسط پلیٹ میں دندنا رہا ہوتا ہے. ان سب ستم ظریفیوں کے باوجود ہماری کوشش ہوتی ہے زیادہ تر یہی کھائیں کیونکہ اس میں ملاوٹ یا دھوکہ دہی کا امکان کم سے کم ہوتا ہے.
سو ہم نے خالی میز تلاش کرتے یہی سوچ رکھا تھا کہ دال ماش سے ہی رسم پیٹ بھرائی کی جائے گی. لیکن اس کھانے کے دوران ایک یادگار دلچسپ واقعہ پیش آگیا.
اس واقعہ سے لطف اندوز ہونے کیلئے ضروری ہے کہ آپ یہ جان لیں کہ ہم عام طور پر بھی ہلکے پھلکے موڈ میں رہتے ہیں. دوران گفتگو چھوٹے موٹے چٹکلے اور پھلجھڑیاں چھوڑتے رہتے ہیں. یہاں تک کہ عطاء الحق قاسمی صاحب کی مشہور زمانہ فلاسفی کے مطابق اگر کوئی فقرہ سوجھ جائے تو فقرہ ضائع نہیں کرتے بندہ ضائع کر دیتے ہیں.
لیکن بوقت سفر ہمارا موڈ کچھ اور بھی لائٹ ہوجاتا ہے. بلکہ یوں سمجھ لیں کہ ایک چھوٹے سے شیطان کو ہم اجازت دے دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ سفر کرتا رہے. یوں وہ وقفے وقفے سے بےضرر شیطانی خیالات سے ہمیں نوازتا رہتا ہے اور ہم ان کے پرچار سے حظ اتھاتے رہتے ہیں. سو بیشتر سفر قہقہوں کے ساتھ ہی طے ہوتا ہے.
ایسے ہی ایک شیطانی خیال کے زیراثر ایک عرصہ سے ہمارا وتیرہ رہا کہ جب بھی ہم کسی ڈھابہ پر کھانے کا آرڈر دیتے تو ایک میکانیکی انداز میں بنا سوچے سمجھے چھوٹے سے کہتے ” ایک دال ماش اور پنجی تیہہ روٹیاں لے آ “.( ایک دال ماش اور پچیس تیس روٹیاں لے آؤ).
درجنوں بار کے سفر میں بیسیوں چھوٹے ہماری اس بات پر مسکرا کر چلے جاتے اور واپسی پر معمول کے مطابق دال. کی. پلٹ اور دوروٹیاں لاکر ہمارے سامنے رکھ دیتے.
آج بھی ہم نے حسب عادت بنا سوچے سمجھے چھوٹے سے کہا :
” چار دال ماش اور پنجی تیہہ روٹیاں لے آؤ.“
چھوٹے کے چہرے پر بالکل بھی مسکراہٹ نہیں آئی. اور کچھ دیر بعد جب وہ لوٹا تو ٹرے میں چار دال ماش اور چنگیر میں تیس روٹیاں تھیں. اور ہم چاروں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ. وہ دن اور آج کا دن کبھی کسی چھوٹے سے پنجی تیہہ روٹیوں کی فرمائش نہیں کی.
رات کے کھانے کے بعد سفر دوبارہ شروع ہوا اور ہم دوبا رہ فیقے نائی کے بنچ پر آڑھے ترچھے سو رہے. علی الصبح ہمیں جگلوٹ اتار دیا گیا. تازہ دم ہوکر ناشتہ ماشتہ کرنے کے بعد ہم نے استور کیلئے سواری کی تلاش شروع کردی۔ تھوڑی سی تگ ودو کے بعد ایک جیپ دستیاب ہوگئی. سامانِ حرب اس میں پھینک کر ہم سب اس میں سوار ہوگئے. جیپ پر سب سواریاں بٹھانے کے بعد بھی ڈرائیو ابھی مائل بہ سفر نہ ہورہا تھا. ہمارے ہلکے ہلکے احتجاج پر دیگر سواریوں نے بتایا کہ…
’ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے‘.
( جاری ہے )