ڈاکٹر جویریہ سعید :
یہ بچپن کے ان دنوں کا تذکرہ ہے جب امی ہمیں گرما کی چھٹیوں میں صدر کراچی میں قائم ایک مکتبہ لے جایا کرتیں جو صدی پرانی ایک عمارت کی دوسری منزل پر واقع تھا۔
صدر کا علاقہ انگریز کے زمانے کی بنی پرانی عمارتوں، ٹیڑھی میڑھی گنجان آباد سڑکوں پر مشتمل ہے جہاں موٹروں اور انسانوں کے ہجوم کے بیچ آپ کو کہیں کہیں گھوڑا گاڑیاں بھی نظر آجاتی تھیں ۔ گزرے زمانوں کے آثار سمیٹے اس علاقے کی ایک قدیم عمارت میں واقع یہ مکتبہ جس کا نام "البدر” تھا ہماری پسندیدہ ترین جگہوں میں شامل تھا۔
زرد رنگ کی عمارت میں پرانے طرز کی ٹائلیں لگی تھیں اور لکڑی سے بنا ایک تنگ سا زینہ اوپر کو جاتا تھا۔ اس زینے کے نیچے ایک گوشے میں ایک درزی صاحب کی میز تھی جس پر وہ مردانہ لباس سیتے اور استری کرتے نظر آتے تھے۔ زینہ چڑھ کر بائیں طرف کو مڑ جائیں تو وہ چھوٹا سا دروازہ آتا جس میں داخل ہوتے ہی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں اور دل تیزی سے دھڑکنے لگتا۔
یہ چھوٹی سے جگہ ہمیں قدیم اور پراسرار مگر بہت ہی دلچسپ دنیا میں واقع علی بابا کا وہ غار معلوم ہوتی تھی جس کے اندر خزانے کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔
اندر میزوں ، طاقچوں اور دیوار گیر الماریوں میں بے شمار کتابیں سجی ہوتیں۔ امی جان ہمیں تو اشارہ کر دیتیں اور خود مکتبہ کے دوسرے حصے کی طرف چلی جاتیں جہاں یقیناً ان کے مطلب کی کتابیں ہوتی ہوں گی۔ ہم تو اس داخلی حصے کے فسوں میں ہی ایسے گم ہوتے کہ کبھی دوسرے حصے میں جانے کا خیال بھی نہیں آیا۔
البتہ اس پراسرار عمارت کے خزانے سے بھرے اس غار کے پچھلے حصے میں جھانکتے تاریک سی گلی میں کیا تھا، اس کا تجسس ہمیں ضرور رہتا تھا۔ لہذا ایک مرتبہ چپکے سے اس ہال کے بغلی دروازے میں گھس گئے۔
باہر جلتی دھوپ تھی مگر وہ چھوٹا سا کمرا بالکل تاریک اور ٹھنڈا تھا۔ جب آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ لکڑی کے ستونوں کے درمیان کتابوں سے بھرے ڈبے دھرے ہیں۔ یقیناً وہ اسٹور ہوگا جہاں اضافی کتابیں محفوظ رکھی جاتی ہوں گی۔
ہم سوچتے تھے کہ شاید کسی ڈبے کے پیچھے سے لمبی داڑھی والا کوئی بونا پھدک کر باہر نکل آئے یا لکڑی کے ستونوں کے اوپر چھت کے کسی رخنے سے کوئی ننھی پری جھانک لے تو کتنا مزہ آئے۔
ایسی قدیم، تاریک اور پراسرار جگہ پر بچوں کی کتابوں کے پاس ایسی مخلوق کا پایا جانا اچھنبھے سے خالی تو نہ ہوگا۔ بونے اور پریاں تو نہیں نظر آئے مگر کتابوں کا شوق دل میں لیے ہم خود کو یہ تسلی دیتے باہر نکل آئے کہ یہ بونے بہت چالاک ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کسی کونے کھدرے میں چھپے ہمیں دیکھ رہے ہوں اور ڈر کے مارے باہر نہ آتے ہوں۔
اپنے خیالوں کی یہ دنیا ہمیں ایسی ہی عزیز تھی اور ہر وہ جگہ جس کی فضاؤں میں خواب ، اسرار اور جادو کا اثر ہو ایسی ہی محبوب ہوجایا کرتی۔
مکتبے کی ایک میز پر سفید کرتا پاجامہ پہنے سفید ہی داڑھی والے ایک پراسرار سے چچا جان موجود ہوتے جنہیں رقم تھما دینے کے بعد ہم بہت استحقاق سے وہ کتابیں سنبھال کر اپنے گھر کو جا سکتے تھے۔ ہم نے ان سے کبھی کوئی بات تو نہ کی مگر وہ ہمیں بہت پیارے تھے۔
ہم سوچا کرتے کہ یہ چچا جان کتنے خوش قسمت ہیں کہ اس سارے خزانے کی مالک ہیں۔ جب چاہیں جو کتاب پڑھیں۔ وہ بھی جو ہماری قیمت خرید سے باہر ہیں ،اور وہ بھی جنہیں خرید کر دینے سے امی ہمیں منع کردیا کرتیں۔
اب بھی جب سر کی آنکھیں بند کرکے تصور کی آنکھیں کھولتے ہیں تو زینے کے نیچے کپڑوں پر استری کرتے دبلے سے درزی صاحب اور سفید کرتے پاجامے میں مکتبے والے سفید ریش چچاجان خود بھی قدیم زمانے کی کسی کہانی کا بڑے پیارے اور پراسرار کردار معلوم ہوتے ہیں۔
کیا دیکھتے ہیں کہ وہ چچاجان وہیں کتابوں سے بھری الماریوں کے سامنے ایک چھوٹی سے کتابوں سے سجی میز پر ذرا سی جگہ بنائے سر جھکائے پیسوں کا حساب کررہے ہیں۔ ان کو شاید محسوس بھی نہ ہوتا ہوگا کہ یہ بچی ان کو کتنے رشک اور پیار سے دیکھا اور سوچا کرتی ہے۔
اس مکتبے سے وقتاً فوقتاً لائی گئی بہت سی کتابیں تو ہمارے بچپن کی رفیق تھیں ہی مگر اس پراسرار مکتبے کی یادیں بھی جو گزرے ہوئے زمانوں کا ایک داخلی دروازہ معلوم ہوتا تھا آج بھی دل کے نہاں خانوں میں عجیب سی ہلچل مچا دیتی ہیں۔
ہمارے گھر میں ٹی وی بہت تاخیر سے آیا شاید اس وقت جب ہم میٹرک میں پہنچ گئےالبتہ کتابوں کی فراوانی تھی۔ کمپیوٹر عام نہ ہوا تھا اور موبائل فونز شروع نہیں ہوئے تھے۔ کہانیوں کو سکرین پر متحرک دیکھنے کے زیادہ مواقع میسر نہ تھے
لہذا ہمارا تخیل ہی کتابوں میں پڑھی ہوئی کہانیوں، مناظر اور کرداروں کی تصویر کشی کرتا رہا ۔ راستوں میں آتے جاتے لوگوں کو غور سے دیکھا کرتے، دور عمارتوں کی بلند کھڑکیوں سے جھانکتے گھروں کے ادھورے مناظر کو دیکھتی آنکھیں ذہن میں کہانیاں بننے لگتیں۔
اس طرح ہر کہانی، ہر کردار، ہر ماحول اور ہر منظر سے ذاتی اور خفیہ سا تعلق بن جاتا۔ یہ وابستگی اتنی شدید تھی کہ ایک عرصے تک ہم اپنی پسندیدہ کہانیوں اور کرداروں کو کسی سے ڈسکس کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔
کہانیاں اور کتابیں ایک عرصے تک ساز و آواز کے بغیر محض اپنی تخیلاتی قوتوں کے ساتھ لاشعور کی صورت گری کرتی رہیں۔ اور کتابیں پڑھنے والی لڑکی اپنے گرد اپنی پسند کی دنیا تعمیر کر کے مزے سے اس میں رہنے لگی۔
گھنٹوں شیشے سے باتیں کرنا، ہوا سے جھکولے کھا کر بار بار نیچے گر جانے والے کیلنڈر کو ڈانٹیں لگانا، آنکھیں بند کر کے اپنی مرضی کی دنیا میں پہنچ کر اپنی مرضی کی کہانیاں بننا، راتوں کو گھروں سے جاگتی پیلی سفید روشنیوں کو تجسس سے تکتے ان کمروں میں موجود ممکنہ منظر تراشنا اور ہر سگنل، ہر گلی ، ہر بازار میں پھرتے کسی بھی طرح مختلف نظر آتے ہر شخص کا خیالوں ہی خیالوں میں انٹرویو لینا ۔
حد یہ تھی رات کو انکھیں بند کر کے اپنی مرضی کی کوئی فلم بھی تصور میں دیکھ لی جاتی۔ اور ابو سے پوچھا جاتا :” ابو ہم اپنی مرضی کی پوری پوری کہانیاں خواب میں کیسے دیکھ لیتے ہیں؟ “ ابو مسکرا کر کہتے، ” اور کیا ہے ، بس یہی کہ دماغ رات کو بھی چلتا رہتا ہے۔“
اس وقت کی بہت سی کہانیاں شعور کا حسین ترین حصہ ہیں۔ اس بچے کی کہانی جو ساحل سے ایک سیپی اٹھا لاتا ہے جس میں گزرے زمانوں کا شور مقید ہوگیا تھا۔
ناروے کے اس یتیم بچے کی کہانی جو ٹھوکریں کھاتا ایک برفانی کوہستان میں پہنچ جاتا ہے اور پھر ایک مہربان جن اس کا دوست بن کر اس کے ساتھ ایک غار میں رہنے لگتا ہے۔ اپنی والدہ کی وفات کے بعد لندن میں اپنی بظاہر سخت گیر خالہ کے پاس آکر رہنے والے تین بہن بھائیوں کی کہانی جنہیں اپنی ان نیک دل خالہ کے مہمان خانے میں کرائے پر رہتے کچھ عجیب و غریب انسانوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے۔ ہر انسان ایک کردار تھا جس کی اپنی منفرد کہانی تھی۔
داستان امیر حمزہ، الف لیلی، طلسم ہوشربا، ارژنگ (سپرمین) کے کارنامے، اے حمید کی خلائی سیریز، مائل خیر آبادی اور سعید لخت کی کہانیوں کے کردار، بیگم ثاقبہ رحیم الدین کی میٹھی میٹھی کہانیاں، ڈریکولا، نارنیہ، پہاڑی مہم، ریل کے بچے، الیور ٹوئسٹ ،شرلاک ہومز، مقبول جہانگیر کی کتابیں، ہمدرد کتابستان کی کہانیاں اور بہت کچھ۔ ( جاری ہے )