محمود الحسن، اردو کالم نگار

اثبات اور انکار کا اشارہ، پاکستان، ایران اور حیدرآباد دکن

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمود الحسن :

ہمارے یہاں کسی معاملے میں رضا مندی ظاہر کرنا مقصود ہو یا کسی سوال کے جواب میں ہاں کہنا ،یا کسی معاملے میں صاد کرنا ہو تو اشاروں کی زبان میں، سر کو اوپر نیچے جنبش دی جاتی ہے۔اسے اثبات میں سر ہلانا کہتے ہیں ۔ایران میں مگر اس کے الٹ ہوتا ہے۔

1977 میں ممتاز فکشن نگار نیر مسعود ایران گئے تو ٹیکسی کے ایک سفر میں ڈرائیور نے راستے میں نہایت دلچسپ گفتگو کی۔ بابا عریاں ، ابو سعید ابی الخیر وغیرہ کی بہت سی رباعیاں سنائیں جو زیادہ تر مدحِ پنجتن میں تھیں۔اس کے بعد اسے خیال ہوا کہ مسافروں کے ذوق کا بھی امتحان لیا جائے تو اس نے کہا:
”اب آپ کچھ سنائیے۔“

اس پر نیر مسعود کے ایک ساتھی نے غالب کا یہ شعر پڑھا:
اگر بہ دل نہ خلد آں چہ در نظر گزرد
زہے روانیِ عمرے کے در سفر گزرد

اس شعر کے ترجمے کے لیے معین نظامی صاحب سے رابطے کا سوچا جو فارسی اشعار کے حوالے سے مجھ کم علم کی علمی اعانت کرتے رہتے ہیں لیکن پھر خیال ہوا کہ نظامی صاحب کی خدمات کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہے اور صوفی تبسم نے غالب کی فارسی غزلوں کے دو جلدوں میں تراجم کیے ہیں ان سے مدد لیتے ہیں۔

حالی نے ’یادگارِ غالب ‘ میں شعرِ مذکورہ کا جو ترجمہ کر رکھا ہے ،صوفی صاحب نے اسی سے کام چلایا ہے:

”عمر کا سفر میں گزرنا نہایت عمدہ ہے ،بشرطیکہ جو کچھ نظر سے گزرے ،اس پر انسان فریفتہ نہ ہو جائے۔“

ہاں تو بات ہورہی تھی ایرانی ٹیکسی ڈرائیور کی تو جناب وہ غالب کا شعر سن کر ٹس سے مس نہ ہوا۔
اس سے پوچھا گیا کہ شعر اس کے پلّے پڑا یا نہیں۔
اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔

اس سے پوچھا گیا کہ کیسا شعر ہے ، تو کہنے لگا سمجھ میں نہیں آیا۔
مسافروں نے پوچھا:”کچھ توسمجھ میں آیا؟“

اس نے ایک بار پھر اثبات میں سر کو حرکت دی اور کہا:
”ہیچ نہ فہمیدم۔“(میری سمجھ میں قطعاً نہیں آیا۔)

نیر مسعود صاحب نے لکھاہے :
” یہ معاملہ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ زبان سے انکار کررہا ہے اور سر کی جنبش سے اقرار کی ادا نکل رہی ہے لیکن اسی وقت مجھے یاد آگیا کہ یہاں نفی کے لیے سر کو اثباتی جنبش دی جاتی ہے اور اس ڈرائیور کے یہاں بھی اثبات سے نفی تراوش کررہی ہے۔“

نیر مسعود کی طرح معروف فکشن نگار ، شاعر اور مترجم سید کاشف رضا کو بھی ایران میں نفی کو اثبات سمجھنے پر الجھن کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے” ایران میں کچھ روز “ میں لکھا ہے کہ ایک کتاب فروش سے کسی کتاب کے بارے میں پوچھا تو اس نے اقرار میں سر ہلایا۔
” تو پھر نکال کر دکھاﺅ۔“
”نا۔“
” کیا مطلب نا؟کتاب ہے تو دکھاتے کیوں نہیں؟“
” میں نے کہا ہے ، نا!“
” تو اقرار میں سر کیوں ہلایا؟“

اس مکالمے کے بعد کاشف رضا نے جانا کہ پاکستان کا اثبات ایران کے اثبات سے مختلف ہے۔

نیر مسعود اور کاشف رضا کے سفر ناموں میں اثبات سے متعلق واقعات پڑھ کر سبط حسن کی حیدر آباد دکن کے بارے میں کتاب ” شہرِ نگاراں “ کی طرف ذہن منتقل ہوا جس میں مصنف نے اس سے ملتی جلتی صورت حال کے بارے میں بتایا ہے:

” ہماری طرف لوگ انکار کی صورت میں سر کو شانوں کی سمت گھماتے اور اقرار کرنا منظور ہوتا تو سر کو سینے کی طرف جھکاتے ہیں۔ حیدرآباد میں یہ حرکتیں الٹی تھیں۔“

سبط حسن نے ایک دن پھاٹک کے پاس کھڑے لڑکے سے پوچھا کہ وہ اس دفتر میں کام کرتاہے ؟اس نے دائیں بائیں گردن ہلادی۔

تھوڑی دیر بعد وہی لڑکا چائے بناکر لایا تو سبط حسن نے اس سے کہاکہ ابھی تو تم کہہ رہے تھے میں یہاں ملازم نہیں۔ اس نے پھر سے دائیں بائیں گردن کو جنبش دی ،جس کے بعد ان پر یہ کھلا کہ دکن میں اقرار کے وقت دائیں بائیں گردن ہلاتے ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں