عشق

عشق مجازی سے عشق حقیقی کی طرف سفر، کیسے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جویریہ ریاض :

کچھ محبتیں ہمیں توڑ کر اللہ سے جوڑتی ہیں۔ ان محبتوں کو پانے کےلئے ہم کتنی ہی کوششیں کرتے ہیں ، کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں، کتنے ہی رشتوں سے منہ موڑ لیتے ہیں لیکن جب ہم اس انسان کے ہاتھوں ٹوٹ جاتے ہیں ناں! جس سے ہم عشق کرتے ہیں تو پھر سب سے پہلے خدا یاد آتا ہے اور بس پھر وہی یاد رہ جاتا ہے۔

ہم اپنا روتا ، بلکتا وجود لے کر اپنے رب کے حضور جھکتے ہیں اور وہ ہمیں اپنی آغوش میں لے لیتا ہے ، وہ ہمارے ٹوٹے بکھرے وجود کو سمیٹ لیتا ہے، وہ بن کہے ہمیں سنتا ہے اور اکتاتا بھی نہیں۔ وہ ہمیں سہارا دیتا ہے اور دھتکارتا بھی نہیں۔ ہاں! وہ انسانوں کی طرح یہ نہیں کہتا کہ
بس کرو! میں تنگ آگیا۔ ہاں! یہ اللہ ہی کی وفا ہوتی ہے جو ہمیں تھام لیتی ہے۔

یہ اللہ تو اس وقت بھی موجود تھا ناں؟ جب ہم سرابوں میں تھے، اس وقت تو ہم نے اسے محسوس نہیں کیا تھا۔ بہرحال یہ ٹوٹنا اور ٹوٹ کے بکھرنا کسی کام تو آیا۔

عقل اور عشق
یہ جو عقل ہے ناں ! یہ عشق کا انکار کرتی ہے
مگر جب عشق بلا خوف و خطر آتش نمرود میں کود پڑتا ہے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

ابو لہب اورابو جہل کی عقل ان کو حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی پہچان نہ کرا پائی لیکن اویس قرنی کا عشق تھا جس نے ان کو آقائے دو جہان کی عظمت پہچاننے کے قابل بنایا۔

محبت میں انسان کو پالینے کی طلب اور پھر کھو دینے کا ڈر بھی ہوتا ہے جبکہ عشق تو کھونے اور پانے سے ماوراء ہوتا ہے۔

محبت تو خود غرض ہوتی ہے لیکن عشق بے لوث ہوتا ہے۔ عشق تو لکڑی کو بھی صندل کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔

محبت عشق میں تب بدلتی ہے جب وہ لا حاصلی کے پہلے زینے پہ قدم رکھتی ہے۔

یہ عشق ہی تھا جس نے حضرت ابراہیم سے ان کی سب سے قیمتی شے ان کی اولاد حضرت اسماعیل (علیہ السلام ) کی قربانی مانگی۔ عشق قربانی سکھا تاہے۔ یہ حسین رضی اللہ عنہ کا عشق ہی تھا جو انھیں کربلا تک لے گیا۔

عشق انسان کو پاگل ہی نہیں کرتا بلکہ پاگل کرکے ولی بنا دیتا ہے، عشق انسان سے خدا نہیں چھڑواتا بلکہ اس کے قریب لے جاتا ہے ۔

مجازی کو نہ پا کر انسان حقیقی تک پہنچتا ہے۔ ہاں! ایک بات یہ بھی ہے کہ ہر مجازی محبت حقیقی تک نہیں لے جا سکتی ، جو دل بار بار اپنا قبلہ بدلے ، در در کی خاک چھانے ، وہ کبھی حقیقی تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔

وہی لوگ عشق حقیقی کے اہل ہوتے ہیں جنھیں ایک در کا ہو کر رہنا آتا ہو، جو اپنی انا اپنے محبوب پہ وار دیتے ہوں ، جو عشق کی خاطر اپنے نفس سے منہ موڑ لینا جانتے ہوں ، جو دھتکارے جانے کے باوجود اپنے معشوق کی چوکھٹ سے سر نہ اٹھائیں۔

یہ جو مجازی محبت ہوتی ہے ناں، یہ ایک آزمائش ہوتی ہے ، انسان کی مستقل مزاجی کی آزمائش، اس کے دل کی آزمائش، اللہ انسان کو انسان کے ذریعے آزماتا ہے اور جو اس میں کامیاب ہو جاتا ہے، اللہ اس کے دل کو اپنی محبت کےلئے منتخب کر لیتا ہے۔

خاموشی سے ہمارے رگ و پےمیں سرایت کر جانے والا یہ مجازی عشق ہی حقیقی عشق تک کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔

عشق مجازی ، عشق حقیقی کی منزل آسان کر دیتا ہے اور عشق مجازی کے دریا میں اترنے والا کبھی نہ کبھی عشق حقیقی کے سمندر میں اتر جاتا ہے ۔

لا حاصل عشق ہی انسان کو نمازی بناتا ہے ، اللہ کی محبت عطا کرتا ہے اور پھر یہ محبت ہر دنیاوی محبت پہ غالب آجاتی ہے اور جس طرح بارش کا پہلا قطرہ مٹی میں ناجانے کہاں جذب ہو جاتا ہے، اسی طرح ہمارا عشق مجازی بھی عشق حقیقی میں جذب ہو جاتا ہے اور پتہ ہی نہیں چلتا اور بس پھر باقی رہ جاتی ہے تو اللہ کی لافانی محبت۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں