عبیداللہ عابد :
جناب سہیل وڑائچ ممتازاخبار نویس اور تجزیہ نگار ہی نہیں ہیں بلکہ بہت سے معاملات میں اندر کی خبر بھی رکھتے ہیں۔ انھیں چھن چھن کے خبریں مل رہی ہوتی ہیں کہ اقتدار کی غلام گردشوں میں کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے؟
سہیل وڑائچ نے مہینوں پہلے بتایا تھا اور مسلسل بتایا تھا کہ جولائی کے بعد عمران خان کے لئے حالات پہلے جیسے نہیں رہیں گے، انھوں نے اشاروں ہی اشاروں میں بتایا تھا کہ اگر عمران خان معاملات میں بہتری نہ لاسکے تو انھیں جانا پڑے گا۔
جولائی کا ایک عشرہ گزرنے کو ہے، ملکی حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں، کہا جارہا ہے کہ اب عمران خان سے پوچھا گیا ہے کہ انھوں نے ان تقریبآ دو برسوں میں کیا کارکردگی دکھائی ہے، جواب دیں؟ اس پر عمران خان نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے جواب دیا کہ ”مجھ سے جواب مانگا جارہا ہے، جواب ان سے مانگا جائے جنہوں نے ملک کو اس حالت میں پہنچایا۔“
اس کا مطلب ہے کہ عمران خان کو بھی ادراک ہوچکا ہے کہ اب انھیں بھیج دیا جائے گا۔ اگر ایسا ہے تو متبادل کیا ہوگا؟ اس کا جواب جناب سہیل وڑائچ نے اپنے حالیہ کالم میں دیا جو’متبادل مل گیا“ کے عنوان سے لکھا گیا، باقی باتیں بعد میں پہلے اسے پڑھتے ہیں:
”مائنس ون، مائنس ٹو اور مائنس تھری جیسی آوازوں نے بےکلی پیدا کر رکھی تھی، بستر پر لیٹے ہوئے پہلو بدل رہا تھا، پراگندہ خیالی نے گھیر رکھا تھا، اسی صورتحال میں پتا نہیں کب نیند آ گئی۔
صبح اُٹھا تو رات دیکھا جانے والا خواب پوری طرح یاد تھا۔ خواب میں دیکھتا کیا ہوں کہ روحانیت کے ہالے میں چند نورانی صورت بزرگ بیٹھے پاکستان کے نئے متبادل کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں، کن رس ہونے کے سبب فوراً باتیں سننے کی کوشش شروع کر دی۔
خاکی لباس میں ملبوس بزرگ نے تجویز پیش کی کہ اُن کا بھتیجا سب سے اچھا ہے۔ اس سفید ریش تجربہ کار نے کہا کہ کیا جرنیل، کیا جج اور کیا سیاستدان، سو افراد نے اُن کی کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کے سو دنوں کی کارکردگی کو باقاعدہ اپنے دستخطوں کیساتھ سراہا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ پوری ملّتِ پاکستان کے متفقہ امیدوار ہیں، خانِ اعظم کا بھی اُن پر مکمل اعتماد ہے۔
اُن کا خاندان اصلی اور پکا محبِ وطن ہے اس لئے اُس سے باقی غداروں کی طرح کے طرزِ عمل کی توقع نہیں۔ اونچی کرسی پر بیٹھے سیاہ پوش بزرگ نے کہا کہ یہ ٹیکنو ریٹ ٹائپ ہے۔ غیرسیاسی ذہن ہے۔ متبادل کو لازماً سیاسی ہونا چاہئے تاکہ سیاسی معاملات کو حل کر سکے۔ سیاہ پوش بزرگ کی بات پر سب نے سر ہلایا اور یوں بات آگے بڑھ گئی۔
اب محفل کی سب نظریں سبز پوش بزرگ پر تھیں وہ گویا ہوئے کہ بہاء الدین زکریا اور شاہ رکن عالم کی گدی کے وارث کو اقتدار دینے کا وقت آ گیا ہے۔ وہ معاملہ فہم ہے، منجھا ہوا سیاست کا کھلاڑی ہے۔
کرپشن کا ایک بھی داغ اس کی سفید چادر پر نہیں ہے۔ حب الوطنی اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر اس نے وزارتِ خارجہ سے استعفیٰ دے کر اپنا نام محبِ وطن سیاستدانوں میں لکھوا لیا ہے۔ اب بھی وہ اپنی وزارت کو اس احسن طریقے سے چلا رہا ہے کہ سب اہلِ اقتدار اُن سے خوش ہیں۔
سبز پوش نے بات کرتے کرتے تھوڑا سا توقف کیا تو کمبل پوش نے دخل اندازی کرتے ہوئے کہا خود پسندی بہت سی برائیوں کی جڑ ہے، اس شخص میں خود پسندی بہت ہے۔ خاکی پوش نے جس کا نام تجویز کیا ہے، اس میں بھی خود پسندی ہے اور اس سے بڑھ کر وہ خود کو ہر فن مولا سمجھتا ہے۔ کمبل پوش نے کہا کہ ملتانی پیر اہل تو ہیں لیکن مملکتِ خداداد کو سیاسی پیچیدگیاں درپیش ہیں اسلئے فی الحال مخدوم کو امتحان میں نہ ڈالا جائے۔
سرخ اجرک پہنے پیچھے بیٹھے بزرگ نے کہا، سندھی کو نہ بھول جانا وہ ذات کا سومرو ہے لیکن کھلا ڈلا ہے، دوستوں کا دوست اور پیپلز پارٹی کا ڈٹ کر مخالف ہے۔ اجرک والے بزرگ نے کہا کہ اسے پی ٹی آئی میں لاتے وقت یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ یا تو اسے اسپیکر یا پھر صدر ِپاکستان بنایا جائے گا مگر جب حکومت بن گئی تو سب وعدے بھول گئے۔
سومرو پہلے بھی کئی عہدوں پر رہ چکا ہے، ہر بار وہ طاقتوروں کے اعتماد پر پورا اُترا ہے، اس بار اسے اقتدار دلائیں، وہ پورا زور لگائے گا اور سیاسی منظر نامہ بدل دے گا۔
کمبل پوش نے پھر مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ متبادل ایسا ہونا چاہئے جس کی نہ پیپلز پارٹی مخالف ہو اور نہ (ن) لیگ۔ پیپلز پارٹی سندھ سے تعلق رکھنے والے سومرو کو متبادل بنانے کی شدید مخالفت کرے گی اسی طرح (ن) لیگ کسی بھی پنجابی کو متبادل بنانے کی مخالفت کرے گی اور سومرو کے معاملے میں تو پیر پگاڑا بھی کھل کر سامنے آئیں گے اور مخالفت کر کے اس اسکیم کو ناکام بنائیں گے۔
سرخ اجرک والے بزرگ پیچھے ہو کر بیٹھ گئے جیسے اپنی بات نہ مانے جانے پر تھوڑے خفا ہوں، اس پر سیاہ پوش نے جو سب سے اونچی پیڑھی پر بیٹھے تھے، انہیں مخاطب کرکے کہا کہ یہ مشاورتی اجلاس ہے آپ کا امیدوار بہت اچھا ہے مگر متبادل کا فیصلہ متفقہ رائے سے ہو گا۔
سبز پوش نے سیاہ پوش کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا کہ تین متبادل سندھی، پنجابی اور اسلام آبادی تو مسترد ہو گئے تو کیا کوئی ڈارک ہارس (Dark Horse)برآمد ہوگا؟ سیاہ پوش نے زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ کہا نئے گھوڑے والا تجربہ تو پہلے ہی ناکام جا رہا ہے، اس لئے آزمودہ گھوڑا ہی بہتر طور پر کام کر سکتا ہے۔
اب سب نظریں تخت نشین سیاہ پوش پر تھیں کہ وہ کیا فیصلہ سناتے ہیں۔ سیاہ پوش نے گلا صاف کرتے ہوئے کہا کہ پہلے متبادل کی بنیادی شرائط کو منطقی طور پر سمجھ لیں، ساتھ ہی کہا متبادل اگر متنازع ہوا تو پہلے سے تقسیم شدہ معاشرے کو اور تقسیم کر دے گا۔
متبادل ایسا ہو جو نہ منتقم ہو اور نہ لڑاکا۔ تجربہ کار ہو ماضی میں انتظامیہ کو چلانے کا تجربہ رکھتا ہو۔ پنجاب سے نہ ہو کہ (ن) لیگ کو اس سے خطرہ ہو سندھ سے بھی نہ ہو کیونکہ اس پر پیپلز پارٹی کو لگے گا کہ سندھی وزیراعظم لا کر پیپلز پارٹی کو کارنر کیا جائے گا۔ متبادل کا تعلق نہ حکومت کی اتحادی پارٹی سے ہو اور نہ ہی اپوزیشن سے بلکہ پی ٹی آئی کے اندر سے ہو کیونکہ اس سے مینڈیٹ کا فوکس بدل جائے گا۔
سب بزرگ منہ کھولے حیرت سے سیاہ پوش کی طرف دیکھ رہے تھے سسپنس کو توڑتے ہوئے دخل انداز کمبل پوش نے کہا آپ کی سب باتیں درست مگر ان سب خوبیوں والا ہے کون؟ تینوں بڑے متبادل تو مسترد کئے جا چکے اب چوتھا کون ہے؟
سیاہ پوش نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو کھول کر سب حاضرین محفل کی طرف دیکھا۔ جھرجھری لی اور آسمان کی طرف دیکھا۔ سب منتظر تھے۔ سیاہ پوش نے کہا کہ مجھے تو متبادل خیبر پختونخوا سے نظر آتا ہے وہ اسمارٹ موجودہ سے بھی کہیں زیادہ ہے، وزیر رہا ہے۔ وزیراعلیٰ رہا ہے، ضلع ناظم بھی رہ چکا ہے۔ اتحادی حکومت چلا چکا ہے۔
سیاست کے دائو پیچ جانتا ہے۔ پیپلز پارٹی میں رہا ہے، اس لئے انہیں بھی پختونخوا سے متبادل لائے جانے پر اتفاق ہو گا۔ ن لیگ کا بھی براہِ راست اس سے کوئی تصادم نہیں۔ مجھے تو یہ متبادل بہتر لگتا ہے۔ خاکی پوش بابا نے فوراً سر ہلایا اور کہا وہ دھیما ہے، کام اچھا چلا لے گا۔
کمبل پوش نے پھر دخل اندازی کرتے ہوئے کہا یہ انتظام اگلے الیکشن تک ہے، اس کے بعد تو اصلی منتخب آنا چاہئے۔ سیاہ پوش اور خاکی پوش دونوں نے اقرار میں سر ہلایا۔ ابھی خواب چل ہی رہا تھا کہ اچانک ٹیکسٹ میسج کی کلک نے اٹھا دیا وگرنہ مستقبل کے بارے میں مزید پیش گوئیاں سن لیتا۔
علم نفسیات کا بانی سگمنڈ فرائیڈ کہتا ہے کہ خواب آپ کی نہ پوری ہونے والی خواہشوں کے ترجمان ہوتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ یہ خواب بھی پورا نہ ہو سکنے والا ہی ہو۔ ویسے بھی سچے خواب تو صرف ہماری برادری کے اوریا مقبول جان ہی کو نظر آتے ہیں، اسی لئے سب نے مان لیا جب انہوں نے سنایا کہ جنرل باجوہ کو بادشاہی سرور کائناتؐ سے ملی ہے۔
میں تو گناہ گار ہوں اسلئے میرے خوابوں میں شیطانی وسوسوں کا زیادہ امکان ہے مگر شیطان کے کام چونکہ مزیدار ہوتے ہیں، اس لئے جھوٹا خواب سنا رہا ہوں تاکہ مستقبل میں سند رہے۔“