ترکی کی اعلیٰ عدالت نےمتفقہ طور پر 1935میں اتاترک کابینہ کا آیا صوفیہ کو میوزیم میں تبدیل کرنےکا فیصلہ منسوخ کردیا ہے۔
اعلیٰ عدالت کے فیصلے کے مطابق”آیا صوفیہ“ اب سلطان فاتح کےفرمان کےمطابق مسجد ہوگی۔
آیا صوفیہ ترکی کے شہر استنبول میں واقع ہے اور بلاشک و شبہ دنیا کی تاریخ کی عظیم ترین عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
آیا صوفیہ، سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں فتح قسطنطنیہ ہونے تک مسیحیوں ، آرتھوڈوکس کلیسا کا دوسرا بڑا مذہبی مرکز بنا رہا ہے، اس چرچ کا سربراہ جو بطریرک یا ” پیٹریارک “ کہلاتا تھا، اسی میں مقیم تھا، لہذا نصف مسیحی دنیا اس کو کلیسا کو اپنی مقدس ترین عبادت گاہ سمجھا کرتی تھی۔
آیا صوفیہ اس لحاظ سے بھی اہم تھا کہ وہ روم کے کیتھولک کلیسیا کے مقابلے میں زیادہ قدیم تھا۔ اس کی بنیاد تیسری صدی عیسوی میں اسی رومی بادشاہ قسطنطین نے ڈالی تھی جو روم کا پہلا عیسائی بادشاہ تھا اور جس کے نام پر اس شہر کا نام بیزنطیہ سے قسطنطنیہ رکھا گیا تھا۔
تقریباً ایک ہزار سال تک یہ عمارت اور کلیسا پورے عالم عیسائیت کے مذہبی اور روحانی مرکز کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ مسیحیوں کا عقیدہ بن چکا تھا کہ یہ کلیسا کبھی ان کے قبضے سے نہیں نکلے گا۔
قسطنطین نے اس جگہ 360ء میں ایک لکڑی کا بنا ہوا کلیسا تعمیر کیا تھا۔ چھٹی صدی میں یہ کلیسا جل گیا تو اسی جگہ قیصر جسٹینین اول نے 532ء میں اسے پختہ تعمیر کرنا شروع کیا اور اس کی تعمیر پانچ سال دس مہینے میں مکمل ہوئی۔ روایت ہے کہ جب جسٹینین اول اس کی تکمیل کے بعد پہلی بار اس میں داخل ہوا تو اس نے کہا: ” سلیمان میں تم پر سبقت لے گیا “۔ (یہ نبی سلیمان علیہ السلام کے ذریعہ بیت المقدس کی تعمیر پر تکبرانہ اور گستاخانہ جملہ تھا )۔
جب 1453ء نے عثمانی سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کیا، اور بازنطینیوں کو شکست ہو گئی تو اس شہر کے مذہبی رہنماؤں اور راسخ العقیدہ عیسائیوں نے اسی کلیسا میں اس خیال سے پناہ لے لی تھی کہ کم از کم اس عمارت پر دشمن کا قبضہ نہیں ہو سکے گا۔ مشہور انگریز مؤرخ ایڈورڈ گبن منظر کشی کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”گرجا کی تمام زمینی اور بالائی گیلریاں باپوں، شوہروں، عورتوں، بچوں، پادریوں، راہبوں اور کنواری ننوں کی بھیڑ سے بھر گئی تھی، کلیسا کے دروازوں کے اندر اتنا ہجوم تھا کہ ان میں داخلہ ممکن نہ رہا تھا۔ یہ سب لوگ اس مقدس گنبد کے سائے میں تحفظ تلاش کر رہے تھے جسے وہ زمانہ دراز سے ایک ملأ اعلی کی لاہوتی عمارت سمجھتے آئے تھے۔
یہ سب ایک افترا پرداز الہام کی وجہ سے تھا جس میں یہ جھوٹی بشارت تھی کہ جب ترک دشمن اس ستون (قسطنطین ستون) کے قریب پہنچ جائیں گے تو آسمان سے ایک فرشتہ ہاتھ میں تلوار لیے نازل ہوگا اور اس آسمانی ہتھیار کے ذریعے سلطنت ایک ایسے غریب آدمی کے حوالے کر دے گا جو اس وقت اس ستون کے پاس بیٹھا ہوگا۔“
لیکن ترک عثمانی فوج اس ستون سے بھی آگے بڑھ کر صوفیہ کلیسا کے دروازے تک پہنچ گئے، نہ کوئی فرشتہ آسمان سے نازل ہوا اور نہ رومیوں کی شکست فتح میں تبدیل ہوئی۔ کلیسا میں جمع عیسائیوں کا ہجوم آخر وقت تک کسی غیبی امداد کا منتظر رہا۔ بالآخر سلطان محمد فاتح اندر داخل ہوگئے، اور سب کے جان مال اور مذہبی آزادی کی ضمانت دی۔
فتح کے دن فجر کی نماز کے بعد سلطان محمد فاتح نے یہ اعلان کیا تھا کہ ” ان شاءاللہ ہم ظہر کی نماز آیا صوفیہ میں ادا کریں گے“ ۔ چنانچہ اسی دن فتح ہوا اور اس سر زمین پر پہلی نماز ظہر ادا کی گئی، اس کے بعد پہلا جمعہ بھی اسی میں پڑھا گیا۔
قسطنطنیہ چونکہ سلطان کی طرف سے صلح کی پیشکش کے بعد بزور شمشیر فتح ہوا تھا، اس لیے مسلمان ان کلیساؤں کو باقی رکھنے کے پابند اور مشروط نہ تھے، اور اس بڑے چرچ کے ساتھ جو توہمات اور باطل عقیدے وابستہ تھے انھیں بھی ختم کرنا تھا۔ اس لیے سلطان محمد فاتح نے اس چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا ارادہ کیا،
چنانچہ اسے مال کے ذریعہ خریدا گیا، اس میں موجود رسموں اور تصاویر کو مٹا دیا گیا یا چھپا دیا گیا اور محراب قبلہ رخ کر دی گئی، سلطان نے اس کے میناروں میں بھی اضافہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد یہ مسجد ” جامع آیا صوفیہ “ کے نام سے مشہور ہو گئی اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ تک تقریباً پانچ سو سال تک پنج وقتہ نماز ہوتی رہی۔
سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کے بعد جب مصطفی کمال اتاترک ترکی کا سربراہ بنا، تو اس نے اس مسجد میں نماز بند کر کے اسے میوزیم (عجائب گھر، نمائش گاہ) بنا دیا۔ اور تا حال یہ نمائش گاہ ہے۔
31 مئی 2014ء کو ترکی کی ”نوجوانان اناطولیہ“ نامی ایک تنظیم نے مسجد کے میدان میں فجر کی نماز کی مہم چلائی جو آیا صوفیہ کو مسجد بحالی کے مطالبے پر مبنی تھی۔ اس تنظیم کا کہنا تھا کہ انھوں نے دیڑھ کروڑ لوگوں کی تائیدی دستخطوں کو جمع کیا ہے لیکن اس وقت کے وزیر اعظم کے مشیر نے بیان دیا کہ ابھی آیا صوفیہ کو مسجد میں بحال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
تاہم ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب ایردوان نےکہا تھا کہ آیا صوفیہ مسجد ہے، حیثیت کی بحالی کےلیے قانونی کارروائی ہوگی۔