صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان ڈاکٹرعارف علوی نے کہا ہے کہ ”میری ذات میں کوئی خیرہےتواس کی وجہ سید منورحسن ہیں“۔
سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سیدمنورحسن کے لئے تعزیتی ریفرنس میں ویڈیو خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ساٹھ کی دہائی سے میں انھیں جانتا تھا، مختلف مواقع پر ملاقات ہوتی تھی، کبھی کبھی وہ ہمارے گھر تشریف لاتے تھے، میرے والد صاحب سے بھی ان کا قریبی تعلق رہا۔
”سیدابوالاعلیٰ مودودی جب کراچی آتے تھے یا میرے والد صاحب کسی انداز سے انھیں ملنے جاتے تھے تو سید منورحسن سے کوئی نہ کوئی ملاقات کا اہتمام ہوا کرتا تھا۔ اپنی ذات کے اعتبار سے میں ہمیشہ سیدمنورحسن کا مشکور رہوں گا کہ میری کردار سازی کے اندر ان کا کردار رہا اور نصیحتوں کے اعتبار سے بھی وہ ہمیشہ اچھی باتیں کرتے رہتے تھے، ان کی نصیحتوں کی وجہ سے میں نے اپنی زندگی میں کچھ چیزیں اپنائیں۔“
صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ میں نے 1977 میں سیدمنورحسن کے الیکشن میں بڑے زور دار طریقے سے محنت کی، تقریر کرکے جب ان کی آواز بیٹھ جاتی تھی تو وہ مجھے کہتے تھے کہ اب مجھے تقریر کرنے کو نہیں کہنا، خود ہی گفتگو کرلینا لیکن ہم جہاں بھی جاتے تو لوگ اصرار کرتے تھے کہ سیدمنورحسن سے تقریر ضرور کروائی جائے۔ اس کے بعد جب ہم گاڑی میں بیٹھتے تو سیدمنورحسن مجھے جھاڑتے تھے کہ میں نے آپ کو منع کیا تھا، اس کے باوجود آپ نے مجھے تقریر کرنے کو کہا۔
صدر عارف علوی نے بتایا کہ سید منورحسن اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے دفتر نارتھ ناظم آباد، کراچی میں بیٹھا کرتے تھے، میں ان کے ہاں جاتا، بین الاقوامی امور پر، خاص طور پر امت کے مسائل پر بات ہوتی۔ جب بھی سیاسی حالات میں اونچ نیچ آتا تھا تو میں اور میرے دوست ظہیر الاسلام ، سیف الدین جو کونسلر بھی رہے ہیں، ہم تینوں ان کے پاس چلے جاتے تھے ، گفتگو کرتے تھے۔
”سیدمنورحسن بڑے باعلم شخصیت تھے، بڑی اچھی ان کی نظر تھی مسلمانوں کے ارتقا پر، مسلمانوں کے زوال کی تاریخ پر۔وہ بتاتے تھے کہ اسلامی ریاست کے قیام کے لئے کیا ہونا چاہئے۔ وہ بہت زبردست مدبر، اچھا لکھنے والے تھے، بڑے لیڈر تھے، میرا ان کے ساتھ دلی تعلق تھا۔“
”پچھلے دنوں میں کراچی گیا، کسی شادی میں سید منورحسن سے ملاقات ہوئی، انھوں نے اپنی بیماری کا ذکر کیا۔ انھوں نے جس بیماری کا ذکر کیا، اس میں انسان آہستہ آہستہ کمزور ہی ہوتا چلاجاتا ہے۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے بیٹے طلحہ نے میرے ساتھ ان کی بیماری کے حوالے سے بھی گفتگو کی۔“
صدر مملکت نے کہا کہ جماعت اسلامی اور تحریک اسلامی کے حوالے سے سیدمنورحسن ایک ہیرا تھے، ان کے کردار کے بڑے پہلو ہیں جن سے میں بھی واقف ہوں اور ان کے بہت سے رفقا بھی واقف ہیں۔ کبھی کبھی وہ مجھ سے تلخ باتیں بھی کہتے تھے، سختی سے کہتے تھے کہ ایسا نہیں، ایسا ہونا چاہئے لیکن میرا ان سے محبت کا رشتہ کبھی کمزور نہیں ہوا۔
صدر عارف علوی نے بتایا کہ جب میں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تو میں نے انھیں خط بھی لکھا اور وجوہات بتائیں۔ میں کبھی جماعت اسلامی کا رکن نہیں رہا، تحریک انصاف میں جانے سے پہلے میری اورجماعت اسلامی کے لوگوں کی سوچ میں یگانگت تھی، میری ہمدردیاں تھیں جماعت اسلامی کے ساتھ ۔
”جب میں 60 کی دہائی میں دائیں بازو کی طرف گیا، میں نے مولاناابوالاعلیٰ مودودی کی تنقیہات، تفہیمات، اسلامک لا اینڈ کانسٹی ٹیوشن سمیت کئی کتابوں کا مطاالعہ کیا۔ میری والدہ نے دائیں اور بائیں بازو والوں کا مجھے بہت سا لٹریچر دیا، میرا دائیں بازو کی طرف رحجان ہوا۔“
”کالج میں سٹوڈنٹس یونینز کے انتخابات میں رائٹ اور لیفٹ نہیں تھا لیکن اس زمانے میں یعنی ساٹھ کی دہائی میں دائیں اور بائیں بازو کی بڑی سیاسی، نظریاتی اور تجزیاتی جنگ تھی۔ اس میں مجھے بہت اچھے دوست بھی ملے، سیدمنورحسن کو میں دوست بھی کہوں گا، اگر میرے اخلاق کے اندر کچھ اچھی چیزیں آئی ہیں تو انہی کی وجہ سے آئی ہیں۔“