دلنواز پاشا :
پندرہ سولہ جون کی درمیانی شب انڈیا چین سرحد پر پُرتشدد تصادم نے انڈیا اور چین کو جنگ کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے۔
لائن آف ایکچوئل کنٹرول یعنی ایل اے سی کے دونوں جانب ایشیا کے دو طاقتور ممالک کی فوجیں کھڑی ہیں۔ پیچھے ہٹنے کے لیے کمانڈر سطح کی بات چیت ہو رہی ہے لیکن ابھی حالات معمول پر نہیں آئے ہیں۔
چین اور انڈیا کے مابین اس کشیدگی کی کئی طرح سے تشریح کی گئی ہے۔ کچھ تجزیہ کار چین کے ون بیلٹ ون روڈ انیشی ایٹو یا بی آر آئی میں اس کی جڑیں تلاش کر رہے ہیں جو دنیا بھر میں اپنی سرمایہ کاری کو وسعت دینے کا چین کا ایک بڑا منصوبہ ہے۔
اس منصوبے کے تحت چین ایشیا اور یورپ میں سڑکوں اور بندرگاہوں کا جال بچھانا چاہتا ہے تاکہ چین کے سامان کو عالمی منڈیوں تک پہنچا جا سکے۔
اس منصوبے میں دنیا کے بہت سے ممالک چین کے ساتھ آئے ہیں لیکن انڈیا شروع سے ہی اس کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ چین نے انڈیا کو شامل کرنے کے لیے سفارتی کوششیں کی ہیں جو ناکام رہیں۔
امریکہ کی ڈیلاویئر یونیورسٹی کے پروفیسر مقتدر خان کا خیال ہے کہ چین کا یہ بڑا منصوبہ انڈیا اور چین کے مابین تازہ ترین کشیدگی کی وجہ بھی ہوسکتا ہے۔
انھوں نے کہا: ”یہ ممکن ہے کہ انڈیا اور چین کے مابین وادی گلوان میں کشیدگی کے پیچھے ایک وجہ چین کا ون بیلٹ ون روڈ انیشی ایٹو ہو“۔
ان کا کہنا ہے ”انڈیا نے لداخ میں چین کو للکارا ہے۔ انڈیا جس سڑک کی تعمیر کررہا ہے وہ لائن آف ایکچول کنٹرول پر براہ راست چین کی سرحد کی طرف جاتی ہے۔ بھارت کی یہ اسٹریٹجک سڑک چین کے توسیع پسندانہ ایجنڈے کے لیے چیلنج ہے۔ چین سمجھتا ہے کہ انڈیا نے اس کے ون بیلٹ ون روڈ انیشی ایٹو کو چیلنج کرنے کے لیے یہ سڑک تعمیر کی ہے۔“
اسی دوران دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پروفیسر اور چین کے امور کے ماہر سورن سنگھ کا خیال ہے کہ چین کسی بھی قیمت پر اپنی سرمایہ کاری کا تحفظ کرنا چاہتا ہے لیکن انڈیا چین کے ون بیلٹ اینڈ ون روڈ انیشی ایٹو کے لیے ایک چیلنج کی طرح کھڑا ہے۔
چین کا مقصد پوری دنیا میں بڑے بڑے پروجیکٹ شروع کر کے سرمایا کاری کرنا ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے اقتدار میں رہنے کے لیے گزشتہ چار دہائیوں میں سرمایہ کاری پر زور دیا ہے اور اسی کے زور پر کمیونسٹ پارٹی اقتدار میں قائم رہ سکتی ہے اور ایسے میں اگر کوئی اس کی سرمایہ کاری کے درمیان کھڑا ہوتا ہے تو چین اسے برداشت نہیں کرے گا۔
پروفیسر مقتدر خان کا کہنا ہے کہ ڈوکلام میں بھی سنہ 2017 میں انڈیا اور چین کے مابین اسی طرح کا سرحدی تنازعہ ہوا تھا۔
چین ون بیلٹ ون روڈ کے تحت اپنا ایک ہائی وے بھوٹان کے راستے تعمیر کر رہا تھا لیکن اس وقت انڈیا نے بھوٹان کے ساتھ اپنے تاریخی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے بھوٹان میں اس منصوبے کو روک دیا تھا۔
چین کے لیے بی آر آئی اہم کیوں ہے؟
پروفیسر خان کہتے ہیں کہ چین کا بی آر آئی افریقہ میں یورپ کے سوئز نہر بنانے جیسا ہے۔ سوئز نہر سے پہلے جب لوگ ایشیا آتے تھے تو انھیں افریقہ کا چکر لگا کر جانا پڑتا تھا۔ سوئز نہر نے تجارتی اور فوجی نقل و حرکت بہت آسان کر دی تھی اور وقت بھی کم لگتا تھا۔ چین کے بی آر آئی کا مقصد ایشیا کو یورپ سے جوڑنا ہے۔
پروفیسر خان کہتے ہیں کہ چین کا ایک اور مقصد اس کی آبادی کے 1.30 بلین افراد کو روزگار فراہم کرنا بھی ہے۔ چین کے متوسط طبقے نے تیزی سے ترقی کی ہے جو اعلیٰ سطح کی زندگی گزارنے کی خواہش رکھتا ہے۔ چین کا مقصد بی آر آئی اور اس کے ذریعے کاروبار میں فائدہ اٹھانا اور اپنی آبادی کو بھی خوش رکھنا ہوگا۔
پروفیسر سورن سنگھ کا کہنا ہے کہ چین اس سکیم کے ذریعے بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کی آبادی میں عدم اطمینان پیدا نہ ہو۔
وہ کہتے ہیں ”تجارت کے علاوہ چین کی سرمایہ کاری کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے ملک کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے، اس کی فیکٹریوں میں ہونے والی پیداوار کے لے بازار پیدا ہوں، اور چین میں جمع پیسے کے لیے سرمایا کاری کے مواقع پیدا ہوں۔
چین کے جال میں پھنسا انڈیا
پروفیسر خان کا کہنا ہے کہ بی آرآئی جیسے بڑے منصوبے شروع کرنا چین کی مجبوری ہے کیونکہ اسے اپنی معاشی ترقی کی شرح کو برقرار رکھنا ہے۔
وہ کہتے ہیں اگر آپ جنوبی ایشیا کو دیکھیں تو ون بیلٹ ون روڈ کے تحت تعمیر ہونے والی چین کی سڑکیں اور بندرگاہیں ایک طرح سے انڈیا کو گھیر رہی ہیں۔ چین نے سری لنکا میں ہمبنٹوٹا نام کی ایک بندرگاہ بنائی ہے جس پر اب چین کا مالکانہ حق ہو چکا ہے۔ بھوٹان اور بنگلہ دیش میں بھی بی آر آئی میں اضافہ ہوا ہے۔ چین سی پیک کے ذریعے پاکستان میں بھی بڑی تعمیرات کررہا ہے۔
”ایک طرح سے اگر آپ دیکھیں تو چین کی یہ بی آر آئی ایمپائر پوری طرح سے انڈیا کو گھیررہی ہے۔“
پروفیسر خان کہتے ہیں: ”انڈیا کےلیے حکمت عملی بنانے والوں نے اسے مصیبت کے طور پر دیکھا ہوگا لیکن میں یہ دعوے کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ انڈیا کے لیے حکمت عملی بنانے والوں نے چین کو اس نقطہ نظر سے دیکھا ہوگا کہ چین نے آہستہ آہستہ اپنی معاشی سرگرمیوں کے ذریعے بھارت کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔
اگر انڈیا چین کی یہ حکمتِ عملی سمجھ چکا ہے تو پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ گلوان کی جدوجہد چین کے جال سے نکلنے کی انڈیا کی ایک کوشش ہے۔ انڈیا چین کے جال میں پھنسا ہوا نظر آ رہا ہے۔
کیا بی آر آئی کی کامیابی کے لیے انڈیا ضروری ہے؟
اس کے متعلق پروفیسر سورن سنگھ کا خیال ہے کہ چین کی بی آر آئی کی کامیابی کے لیے انڈیا ضروری ہے کیونکہ ہمبنٹوٹا کی بندرگاہ پر اترنے والا 70 فیصد سامان انڈیا کے لیے آتا ہے۔ اسی کے ساتھ سی پیک کےتحت تعمیر کی جانے والی گوادر بندرگاہ کی نظر بھی انڈیا کی تجارت پر ہے۔
وہ کہتے ہیں ”انڈیا چین کے لیے سب سے بڑی منڈی ہے جہاں وہ بڑی سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔ چین پاکستان میں ساٹھ ارب ڈالر کی سرمایا کاری کی کوشش کر رہا ہے جبکہ انڈیا میں دو سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا امکان ہے۔ چین نے اس سے پہلے بھی انڈیا میں سرمایہ کاری کی ہے اور وہ مزید سرمایہ کاری کے امکانات کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے لیکن انڈیا کی اس پرکڑی نظر ہے۔“
وہ کہتے ہیں: ”چین کو آج دنیا میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور اس کے لیے سب سے بڑی منڈی انڈیا ہے۔ لیکن سرحد پرکشیدگی کی وجہ سے انڈیا بہت ناراض ہے لہذا صرف چینی سرمایہ کاری پر روک نہیں لگے گی بلکہ دنیا میں انڈیا کی جو ساکھ ہے اس سے چین کے ون بیلٹ روڈ انیشی ایٹو پر بھی اثر پڑے گا۔“
ان کا کہنا ہے کہ ‘اس منصوبے کے کچھ حصے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں بھی ہیں اور انڈیا انھیں اپنی خودمختاری پر ضرب سمجھتا ہے۔ اگر انڈیا چین کے ان منصوبوں میں شامل نہیں ہوتا ہے تو پھر ان منصوبوں کا مالی فائدہ اٹھانا مشکل ہوگا۔“
چین مقروض ممالک میں عدم اطمینان سے بے چین ہے؟
بی آرآئی کے تحت چین کے مقروض ہونے والے ممالک میں چین کے خلاف پہلے ہی کچھ ناراضگی تھی اور اب کورونا وائرس کی وجہ سے یہ غصہ مزید بڑھ گیا ہے۔
پروفیسر سورن سنگھ کا کہنا ہے کہ چین کو ڈرہے کہ ون بیلٹ ون روڈ انیشی ایٹو کا کام بند ہوسکتا ہے لیکن چین کسی بھی قیمت پر اپنے منصوبے کو بچانا چاہتا ہے کیونکہ دنیا میں طاقتور بننے کے لیے یہ چین کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
لیکن اب دنیا کے ممالک چین کی سرمایہ کاری اور قرض سے بھی ہوشیار ہو چکے ہیں اور ان ممالک میں ایک نئی سوچ کا آغاز ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ”چین کو شاید یہ احساس ہو گیا ہے کہ اس کا یہ اہم منصوبہ خطرے میں پڑ سکتا ہے کیونکہ جب چین میں پارلیمنٹ کا حالیہ اجلاس ہوا اس میں چینی وزیراعظم نے اپنی سالانہ رپورٹ میں واضح طور پر کہا کہ چین اپنی معاشی ترقی کی شرح کو بڑھانے کے لیے دو کام کرے۔
پہلا وہ اپنی اندرونی کھپت میں اضافہ کریں گے تاکہ جب بیرون ملک تجارت رک جائے تو معیشت نہ رکے۔ دوسرے انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب چین صرف اعلیٰ سطح کے پراجیکٹوں پر توجہ دے۔ یعنی اب تک چین، جو دوسرے ممالک میں جا کر منصوبے بنا رہا ہے شاید انھوں نے ان کی مخالفت کو نوٹ کیا ہے۔“
کیا انڈیا کی اسٹریٹجک سڑکیں بی آر آئی کے لیے خطرہ ہیں؟
پروفیسر سورن سنگھ کا کہنا ہے کہ انڈیا نے حالیہ برسوں میں لداخ میں جنگی حکمتِ عملی کی اہمیت کی حامل سڑکیں تعمیر کیں جن کو چین اپنے بی آر آئی منصوبے کے لیے خطرہ سمجھ سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے ”چین نے گذشتہ تیس چالیس سالوں میں سرحد کے اطراف میں بہت سارے پل اور سڑکیں تعمیر کیں اور چین سمجھتا ہے کہ اس قسم کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی سے فوج کو فائدہ ہوتا ہے۔ چین بھی اس بات سے پریشان ہے کہ انڈیا بھی اپنی طرف سڑکیں تعمیرکر رہا ہے۔“
چین انڈیا کی ائیر فیلڈ ”دولت بیگ اولڈی“ سے بھی بے چین ہے۔ چین کو لگتا ہے کہ انڈیا کی اس ائیر فیلڈ کو اسٹرٹیجک چوکی کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس سے چین کی تبت اور پاکستان جانے والی مستقبل کی شاہراہوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔(بشکریہ بی بی سی )