ڈاکٹر جویریہ سعید :
یہ ہزاروں سال قبل کا ایک منظر ہے،
تاروں بھرے آسمان کے نیچے آگ روشن کیے کچھ انسان ایک دوسرے کے قریب قریب بیٹھے ہیں۔ ان میں سے ایک کچھ کہہ رہا ہے اور باقی سب توجہ سے سن رہے ہیں۔
شعلوں کی روشنی میں چہروں پر بدلتے تاثرات صاف دیکھے جاسکتے ہیں۔ تجسس، اضطراب، خوشی، اطمینان، غصہ، غم اور کتنے ہی جذبے اس مختصر سی مدت میں چہروں کی اسکرین پر آکر گزر جاتے ہیں۔
ان سطروں کو پڑھنے والے بغیر بتائے بوجھ چکے ہیں کہ کہانی کہی اور سنی جارہی ہے۔
منظر بدلتے رہے۔ افریقہ کے جنگلات سے امریکا کے سرد صحراؤں تک، یورپ کے قصبوں سے عرب کے بادیہ نشینوں کے خیموں تک، چین کے دیہاتوں سے دریائے دجلہ و فرات کے کنارے بسے شہروں تک اور روس کے برف زاروں سے ہندو پاک کے میدانوں تک۔ کہانیاں جنم لیتی رہیں۔ اور سفر کرتی رہیں۔
کبھی کسی تخلیق کار کے ذہن میں پھوٹتیں، کہیں کسی ماں کو اپنے مچلتے بچے کے لیے گھڑنی پڑتیں اور نانیوں دادیوں کا تو سمجھو ایک کام تھا۔
کہانیاں زبان اور ثقافت کی ترسیل کا کام کرتی ہیں۔
الفاظ، محاورے ، روایات، رہن سہن، کھانے، کھیل، تاریخ، ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرتی جاتی ہیں۔
کہانیاں خانہ بدوش ہیں۔ ذرا سوچیے تو ۔۔ مغرب کے کسی یخ بستہ گھر میں جنم لینے والی سنووہائٹ کی کہانی ہندوستان کے ٹیکنالوجی سے قبل کے زمانے میں سانس لینے والی بوڑھی دادی اماں اپنے نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں کو کیونکر سنا سکتی ہیں۔ مگر سناتی ہیں نا۔
کہانی کا انسان پر اتنا گہرا اثر ہے کہ مذہبی کتابیں پیچیدہ احکامات و عقائد کو سمجھانے اور منوانے کے لیے قصص سناتی ہیں۔
مگر اب ایسا لگتا ہے کہ صبح سے شام تک زندگی ہمیں دوڑاتی رہتی ہے۔ ایسے میں کہانی کہنے اور سننے کی وہ روایت دم توڑتی جارہی ہے۔
ہم اور ہمارے بچے ڈرامے فلمیں دیکھتے کہانیوں اور احساسات سے زیادہ چمکتی اسکرینوں کے اسیر ہوتے جارہے ہیں۔
ہمارے ذہنوں کی لگامیں رنگ و نور اور آوازوں کی بھرمار سے سجے مناظر کے ہاتھ میں ہیں۔ ہر منظر اپنی جزوی تفصیلات کے ساتھ پردے پر اس قدر واضح اور نمایاں ہوتا ہے کہ ذہن کے اپنے تخیل کو بیدار ہونے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ وہ تخیل جو کہانی سننے سے بیدار ہوتا ہے۔
ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ جب آپ معاشیات کے موضوع پر کوئی معلوماتی تقریر سنتے ہیں تو آپ کے دماغ کے دو حصے متحرک ہوجاتے ہیں۔ ایک وہ جو سماعت سے متعلق ہے اور دوسرا وہ جو الفاظ کو پراسس کرنے سے متعلق ہے۔ پھر دماغ کا اگلا حصہ متحرک ہوتا ہے اور پیچیدہ معلومات کو پراسس کرنے لگتا ہے۔
مگر جب آپ ایسے لوگوں کی کہانی سنتے ہیں جو روزگار نہ ہونے کے سبب اپنے بچوں کو بھوکا سلانے پر مجبور ہیں، خود کشی کر رہے ہیں، اپنے جان سے عزیز اشیاء فروخت کررہے ہیں یا وہ جو کسی کی مالی مدد کے لیے کس خوبصورتی سے کوشش کرتے ہیں تو آپ کے دماغ کے ان تین حصوں کے علاؤہ کئی اور حصے بھی کام کرنے لگتے ہیں۔
مثلاً
جب کوئی کسی کے افلاس زدہ گھر کا نقشہ کھینچتا ہے تو آپ کے ذہن کے وہ حصے متحرک ہو جاتے ہیں جو بصارت سے متعلق ہیں،
جب کوئی کچرے کے ڈھیر سے کھانا تلاش کرتا ہے تو آپ کچرے کی بو گویا محسوس کرنے لگتے ہیں اور آپ کے سونگھنے کے حصے جاگ جاتے ہیں۔
گویا کہنے والا آپ کو دکھاتا ہے، سنگھاتا ہے، چلاتا ہے، خواب دکھاتا ہے، درد محسوس کرواتا ہے، ہنساتا ہے ، رلاتا ہے یہاں تک کہ آپ اپنے گالوں پر بہتے آنسو محسوس کرکے حیران ہوجاتے ہیں۔
کہانی میں اس قدر قوت ہوتی ہے کہ وہ آپ کو کہانی کے مرکزی کردار کی جگہ پر متصور کروا کر اس سارے قصے میں سانس لینے پر مجبور کردیتی ہے۔
گویا کہانی سننا دماغ کو کئی گنا زیادہ متحرک کرنے کی ایک مشق ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ناول پڑھنے والے ان ناولوں پر بنے ڈراموں اور فلموں سے مایوس ہوتے ہیں کیونکہ لکھی اور سنی ہوئی کہانی کے خدو خال میں رنگ قاری/سامع کا تصور بھرتا ہے۔ اور انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فلم اس تخیل سے انصاف نہیں کرپائی۔
اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ڈراموں، فلموں، کارٹونوں اور وڈیو گیموں کی بھرمار کے باجود کہانی کہنے اور سننے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ اور سکرینیں شاید ذہن کی کچھ مخفی صلاحیتوں کو سلائے رکھنے پر مصر ہیں اس لیے کہانی سننے کی روایت کو دوبارہ فروغ دینا چاہیے۔
تو صاحبو !
یار من قدسیہ جبین کی سرپرستی میں ہم سہیلیوں کی ایک ٹیم آپ کے لیے سمعی و بصری کہانیوں کی ایک منفرد لائبریری لا رہی ہے۔
ہم نے آڈیو اور وڈیو کہانیوں کے چینل پر کام کا آغاز کردیا ہے اور بہت جلد آپ کی خدمت میں پیش کرنے والے ہیں۔
کہانیوں کی اس لائبریری کے لیے ہم نے خصوصاً اردو کی کلاسیکی کہانیوں اور بچوں کے بڑے ادیبوں کی کہانیوں کا انتخاب کیا ہے۔ کہانی کہنے میں درست تلفظ، دلچسپ انداز اور لب و لہجے کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے۔
مختلف علاقوں کی ثقافت، گزرے زمانوں کی جھلکیاں اور روایات، مناظر فطرت، جانوروں کی دنیا، ، مزاح ، نصیحتیں۔۔ یہ کہانیاں بہت کچھ اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔
آڈیو کلیکشن میں کہانیاں خصوصاً ان احباب کے لیے مفید ہیں جو سکرین ٹائم کو محدود کرنا چاہتے ہیں یا نو اسکرین ٹائم پر یقین رکھتے ہیں۔ گاڑی میں سفر کے دوران یا رات کو سوتے وقت ان کہانیوں کو سنایا جاسکتا ہے۔
آزمائشی مراحل میں قدسیہ جبین کو بہت حوصلہ افزاء پیغامات مختلف اسکولوں سے بھی ملے۔
جی ہاں، آپ اپنی کلاس میں بھی یہ کہانیاں بچوں کو سنا سکتے ہیں۔
اگلا مرحلہ ان شاءاللہ وڈیو کہانیوں کا ہے، جس کے لیے ہم خصوصی کوششیں کررہے ہیں۔ اس میں کہانیاں ساکن یا متحرک تصاویر کے ساتھ پیش کی جائیں گی۔ اس پر بھی زور شور سے کام جاری ہے۔
کہانی کہنے اور سننے کی روایات کو قائم رکھنے، بچوں کے دلوں میں مسرت جگانے، اردو زبان کی خدمت اور بچوں کی صلاحتیوں کو پروان چڑھانے کے لیے یہ ہماری ساتھیوں کی چھوٹی سی کوشش ہے۔
آپ سے دلی درخواست ہے کہ ہماری کوششوں کو اپنی توجہ سے سرفراز کیجیے۔ اور اس خوشبو کو پھیلانے میں ہماری مدد کیجیے۔
https://www.youtube.com/channel/UCZzu93VKKyFwlf8k3muWPHA/featured