محمدعامرخاکوانی، کالم نگار،دانشور

فواد چودھری کا انٹرویو، کیا عمران خان ناکام ہو رہے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد عامر خاکوانی:

فواد چودھری صاحب تحریک انصاف کے متنازع رہنماﺅں میں سے ایک ہیں، شعلہ بیان، منہ پھٹ ، تیز دھار۔ میڈیا میں رہنا انہیں خوب آتا ہے۔ وزیر اطلاعات بنے تو خبریں ان کے گرد گردش کرنے لگیں ۔ روایتی طور پر اخبارات اور چینلز میں وزیرا طلاعات کے خلاف خبر نہیں چلائی جاتی ۔ اسے غیر رسمی پروٹوکول سمجھ لیجئے۔ ہر نیا وزیرا طلاعات باری باری ہر میڈیا ہاﺅس کا وزٹ کرتا ہے،اگلے روز اس اخبار کی لیڈ نہ سہی تو سپر لیڈ ضرور وزیر موصوف کے بیان کی ہوتی ہے۔

فواد چودھری صاحب کو جنگ لڑنے کی ایسی عجلت تھی کہ انہوں نے یہ قاعدے ضابطے نبھانے کی زحمت ہی نہیں فرمائی اور میڈیا کے ساتھ ایسی جنگ شروع کر دی جس کا نتیجہ ان کی وزارت اطلاعات سے رخصت کی صورت میں نکلا۔

چودھری صاحب پر یہ بات بڑی گراں گزری، شائد اسے اپنی توہین سمجھے۔ ہمت انہوں نے نہیں ہاری۔ جانتے ہیں کہ سیاست توجہ لینے اور نظروں میں رہنے کا کھیل ہے ۔ آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل۔ اپنے تند وتیز، متنازع بیانات کا سلسلہ جاری رکھا۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جیسی بظاہرتھکی ہوئی ،بوڑھی، بیزار وزارت میں رہ کر بھی خبروں میں اِن رہے۔ سائنس کے میدان میں ان کی وزارت نے کیا کرنا تھا اور ویسے بھی چند ماہ میں کرشمہ تو نہیں دکھایا جا سکتا، فواد چودھری نے کمال مہارت کے ساتھ اپنی وزارت کو مولوی صاحبان کے ساتھ بھڑا دیا۔ ممولے کو شہباز سے لڑانے کی تشبیہ شاعر حضرات دیتے ہیں، انہوں نے سائنس اور مولوی صاحبان کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا۔ مولوی صاحبان بھی شائد خون گرم رکھنے کا بہانہ ڈھونڈ رہے تھے ، وہ خم ٹھونک کر میدان میں اتر آئے۔

آخری خبریں آنے تک تومعرکہ آرائی جاری تھی، پہلا راﺅنڈ قدرے کھینچ تان کے بعد سہی،مگر چودھری صاحب ہی نے جیت لیا۔ بڑی عید پر دوسرا راﺅنڈ ہوگا، دیکھیں کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے؟فواد چودھری کو البتہ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اینٹی مولوی بنتے بنتے وہ مذہب مخالف بیانیہ کا شکار نہ ہوجائیں، اس راستے کا انجام مکمل تباہی اور ایمان کی بربادی پر منتج ہوتا ہے۔

فواد چودھری حکومت یا کہہ لیں وزیراعظم سے کچھ کھنچے کھچے سے ہیں، ہر کچھ عرصے کے بعد وہ ایسا گرما گرم بیان داغ دیتے ہیں ، جس پر ان سے وضاحت طلب کی جائے۔ یوں لگتا ہے وہ دل سے چاہتے ہیں کہ وزیراعظم ان کے خلاف کارروائی کریں اور یوں وہ ہر سود وزیاں سے نچنت ہو کر جوابی کارروائی کر سکیں۔

دو دن پہلے انہوں نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کھل کر ایسی باتیں کہی ہیں جو شائد اس بار برداشت نہ کی جا سکیں۔ معروف صحافی سہیل وڑائچ نے یہ انٹرویو کیا۔ جمہوری روایات کے مطابق کابینہ کے کسی وزیرکو عوامی سطح پر حکومت کے خلاف بات کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔

وہ کابینہ کے اجلاس، اپنی پارٹی کے اجلاس یااپنے وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے ساتھ نجی گفتگومیں سخت ترین تنقید کر سکتا ہے، پبلک میں اسے ایسا کچھ بھی کہنے کا حق نہیں۔ جو ایسا نہیں چاہتا، اس کے پاس کابینہ سے مستعفی ہونے کا حق موجود ہے۔

ہمارے ہاں جمہوری روایات زیادہ مضبوط نہیں ہیں، اس کے باوجود وزرا صاحبان نجی محفلوں میں توکچھ نہ کچھ کہہ ڈالتے ہیں، کسی صحافی کے ساتھ آف دی ریکارڈ گفتگو کر دی، کبھی کسی پروگرام یا تقریب میں اشارتاً ایک آدھ جملہ کہہ دیا، ایسا جس کی بعد میں تردید کی جا سکے۔ ایسا تھوڑا بہت تو چلتا رہتا ہے،

مگر کسی اخبار،چینل یا نشریاتی ادارے کو باغیانہ/ احتجاجی/ تنقیدی انٹرویو تب دیا جاتا ہے جب ”متبادل“ انتظام کیا جا چکا ہو۔ ایک استثنائی اصول موجودہ حکومت کا ہے ، جس میں لگتا ہے وزرا ہوں یا مشیر صاحبان کوئی کسی قسم کے ڈسپلن کا پابند ہی نہیں۔ جس کا جو چاہتا ہے،بلا تامل کہہ ڈالتا ہے۔

فوادچودھری کے انٹرویو کی بات ہو رہی تھی ، اصولی طور پر وزیر کی حیثیت سے انہیں اپنی حکومت پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ یہ الگ بات کہ انہوں نے جو باتیں کیں، جو نکات اٹھائے، تقریباً سب درست اور جائز ہیں۔انصاف پسند آدمی انہیں جھٹلا نہیں سکتا۔ فواد چودھری کے انٹرویو کے مرکزی نکات تین چار ہیں۔ان کا کہنا ہے :

”حکومت میں آنے سے پہلے نظام میں تبدیلی کے حوالے سے عمران خان کے خیالات واضح تھے، حکومت بنی تو شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، اسد عمر میں اتنے جھگڑے ہوئے کہ سارا سیاسی طبقہ کھیل سے باہر ہوگیا۔صرف سیاسی آئیڈیاز کافی نہیں ہوتے،آپ کو ایک ٹیم بنانی ہوتی ہے جو اس پر عمل درآمد کرے۔ عمران خان کی بنیادی ٹیم ہل گئی جبکہ نئے لوگ سیاسی نظریات سے ہم آہنگ نہیں تھے ، ان میں صلاحیت بھی نہیں ہے۔“

فواد چودھری نے اسد عمر اور جہانگیر ترین کے باہمی جھگڑوں کو بھی ناکامی کی ایک وجہ قرار دیا، وہ کہتے ہیں،” جہانگیر ترین نے اسد عمر کو فارغ کرایا، اسد عمر واپس آئے توانہوں نے جہانگیر ترین کو فارغ کرا دیا۔ شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین کی ملاقاتیں ہوئیں، مگر بات نہیں بنی،سیاسی خلا ان لوگوں نے پر کیا، جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔“

چودھری صاحب کے اس الزام پر جہانگیر ترین کا ردعمل تو معلوم نہیں کیا ہوگا، اسد عمر البتہ چراغ پا ہوئے ہیں، گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اسد عمر ہی نے وزیراعظم عمران خان کی توجہ اس انٹرویو کی طرف دلائی۔ یقینی طور پر وہ فواد چودھری کے خلاف سخت کارروائی کے خواہش مند ہوں گے۔

فواد چودھری نے ایک بہت اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی اورسو فی صد درست بات کی ۔ وہ کہتے ہیں:
”یہ بات تو کہی جاتی ہے کہ فوج کا بہت کردار بڑھ گیا ہے، سویلین کو موقع دینا چاہیے، لیکن آپ اپنی پارلیمانی قیادت کو دیکھیں، پھر صوبائی قیادت کو دیکھیں ،ایسی قیادت کے ساتھ سویلین بالادستی ہوسکتی ہے؟ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی بات سمجھ میں آتی تھی کہ انہوں نے کمزور لوگوں کو اہم عہدوں پر لگایا کیونکہ ان کامقصداپنے بچوں کو قیادت منتقل کرنا تھا۔عمران خان کا تو یہ مسئلہ نہیں۔انہیں تو بہترین لوگوں کو عہدے دینے چاہیے تھے۔ معلوم نہیں انہیں کس نے مشورہ دیا کہ کمزور لوگوں کو لگائیں جو ہر بات کی ڈکٹیشن لیں۔ اس بات کا عمران خان کی ذات کو نقصان پہنچا ہے۔“

فواد چودھری نے حکومتی پرفارمنس کے حوالے سے صاف اور غیر مبہم الفاظ میں کہا :”حکومت دو چیزوں پر چلتی ہے، سیاست اور گورننس۔ان دونوں میں توازن نہ رہے تو معاملات ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔عمران خان کو اس بات کا احساس ہے، کابینہ کے اجلاس میں انہوں نے کہا کہ آپ کے پاس صرف چھ ماہ ہیں کام کرنے کو، اس کے بعد معاملات ہاتھ سے نکل کر کسی اور طرف چلے جائیں گے“

”پارلیمانی طرز حکومت میں مشورے ماہرین سے لئے جاتے ہیں، مگر فیصلے سیاستدان کرتے ہیں۔ اگر وزیراعظم کے مشیر زیادہ ہوں گے،خصوصی معاون زیادہ ہوں گے، سیاسی لوگ ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہوں اور فیصلہ سازی میں شامل نہ ہوں تو پارلیمانی نظام پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ “

فواد چودھری کو عمران خان کی سیاسی قوت اور پارٹی میں اتھارٹی کا اندازہ ہے، اس کا اعتراف ان الفاظ میں کیا:
”ہماری سیاسی جماعتوں کی کوئی تنظیم نہیں ہے، پی ٹی آئی سمیت یہاں سب لیڈروں کے ہوتے ہیں،یہ لیڈر کا کام ہے کہ وہ نئی قیادت فراہم کرے۔ اگر عمران خان آج مجھے نکال دیں تو میں فارغ ہوجاﺅں گا۔ اگر وہ فیصلہ کر لیں کہ انہوں نے کوئی لیڈر بننے ہی نہیں دینا توآپ نہیں بنا سکتے۔ پارٹی کا سیاسی سٹرکچر ہو یا پھر لیڈر کا دل بڑا ہو۔ فی الحال تو ایسے لگتا ہے کہ دونوں راستے بند ہیں۔ “

تحریک انصاف کے کارکن اورحامی فواد چودھری کے انٹرویو سے دو مثبت نکات بھی لے سکتے ہیں۔ انہوں نے عمران خان کی تعریف کرتے ہوئے انہیں عالم اسلام کا لیڈر قرار دیا، اس کے لئے باقاعدہ دلائل دئیے ، کہتے ہیں:

” ترکی کا لیڈر مغرب میں قابل قبول نہیں، عرب سربراہان کے اپنے تنازعات ہیں، ایران کے اپنے مسائل ہیں، جس واحد لیڈر میں مغرب اور عالم اسلام کو قریب لانے کی صلاحیت ہے، وہ عمران خان ہے۔اس جانب پیش رفت نہیں ہوسکی کیونکہ جب آپ کی اندرونی قیادت کمزور ہو تو بیرونی سیاست پر توجہ نہیں دے سکتے۔“

دوسرا انہوں نے عمران خان کی کامیابی کو بہت اہم قرار دیا، کہتے ہیں:” عمران خان کی ناکامی ایک فرد کی ناکامی نہیں ، وہ پاکستان کے عوام کی خواہشات کے مدارالمہام ہیں، یہ عوامی خواہشات کی ناکامی ہوگی، یہ ناکامی کوئی برداشت نہیں کر سکتا،اگر فوج اور تمام ادارے عمران خان کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کے پاس اور سیاسی آپشن نہیں۔ “

فواد چودھری کے انٹرویو کوایک وفاقی وزیر کی بغاوت کے طور پر دیکھا جائے گا یا پھر عمران خان اس تنقید سے کچھ سبق سیکھتے ہیں، اس کا اندازہ بہت جلد ہوجائے گا۔ اس میں بہرحال کوئی شک نہیں کہ عمران خان ناکام ہو رہے ہیں، اصل سوال صرف یہ ہے کہ وہ ناکام ہوجائیں گے یا پھر گرتے گرتے سنبھل کر کچھ ڈیلیور کر سکیں گے؟

بظاہر توتاریک رخ سامنے ہے۔ عمران خان نہ صرف ناکام بلکہ بری طرح ناکام ہونے جا رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوسکے تو مجھے خوشی ہوگی۔ افسوس کہ تاریخ کا پہیہ کسی کو خوش کرنے کے لئے نہیں رکتا اور اپنی مخصوص بے رحم، سفاک رفتار سے چلتا رہتا ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں