رؤف کلاسرا :
قِصے کہانیاں سُننا اور سُنانا ایک ایسا نشہ ہے جو اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسان خود۔ قصہ گوئی کا کام ہمیشہ سے نانیاں، دادیاں یا مائیں کرتی آئی ہیں۔ اب نہ وہ روایتی مائیں رہیں، نہ دادی، نہ نانی اور نہ وہ کہانیاں سننے کے لیے بےچین بچے۔ اب تو مائیں طویل ٹی وی ڈراموں میں مصروف ہیں تو بچے کارٹون اور گیمز کھیلنے میں بِزی اور یوں وہ جِن پَریوں کی کہانیاں کہیں گُم ہو کر رہ گئیں۔
قِصہ گوئی ایک اعلیٰ فن ہے جو خدا ہر ایک کو عطا نہیں کرتا۔ ماضی میں قِصہ گو ہوتے تھے جن کی جگہ بعد کے زمانوں میں ادیبوں اور لکھاریوں نے لے لی۔ پہلے زبانی قِصے ہوتے تھے پھر کتابی شکل میں دستیاب ہونے لگے۔ مجھے خود بچپن سے کہانیاں سننے کا بہت شوق تھا۔ چھوٹا تھا تو اماں کے ساتھ بستر میں گُھس جاتا کہ کہانی سُنائیں۔ سارا دِن کام کاج سے تھکی اماں کو نیند آ رہی ہوتی لیکن میرا اصرار بڑھتا جاتا تو وہ نیم وا آنکھوں سے مجھے کہانی سنانا شروع کر دیتیں۔
کہانی سُناتے سُناتے اماں کی آنکھ لگ جاتی تو میں انہیں جگا کر کہتا اماں کہانی مکمل کریں۔ تب پھر مجھے سلانے کے لیے کہتیں،
”رات کو قِصے نہیں سُناتے ورنہ مسافر جنگلوں میں راستہ بھول جاتے ہیں۔“
میں اماں کی یہ بات سُن کر ڈر جاتا، کہیں میری وجہ سے کوئی مسافر جنگل میں راستہ نہ بُھول جائے اور وہ اپنے گھر نہ پہنچے، جہاں اس کے بچے اس کا اس طرح انتظار کر رہے ہوں گے جیسے میں بابا اور بھائیوں کا کرتا تھا….. اور یوں اماں سو جاتیں اور میں سوچتا رہتا کہیں مُسافر بھٹک نہ جائیں اور منہ میں دُعائیں بڑبڑاتا سو جاتا۔
میں نے سب کہانیاں اماں سے سُنیں۔ پریوں، جِنّوں، بادشاہوں، شہزادوں، گھوڑوں، پہاڑوں کی کہانیاں۔ ایک کہانی جو ابھی تک میری یادوں میں ہے کیسے ایک شہزادی نے جو کسی جِن کی قید میں تھی بڑی مُدت بعد اس نے ایک آدم زاد کو دیکھا تو پہلے ہنسی اور پھر رو پڑی۔
آدم زاد نے پوچھا، ”پہلے ہنسی اور پھر روئی ہو۔ کیا وجہ ہے؟“ شہزادی نے جواب دیا، ”ہنسی اس لیے ہوں کہ برسوں بعد کسی آدم زاد کا چہرہ دیکھا اور روئی اس لیے کہ ابھی جِن آ کر تمہیں کھا جائے گا۔“ میں حیران ہوتا بھلا جن انسانوں کو کیونکر کھا جاتا ہو گا۔ اس کی قید میں شہزادی کے بارے بارے سوچتے سوچتے سو جاتا۔
1980ء کی دہائی میں ہمارے اپنے گاؤں میں شبیر قصائی صاحب کی دُکان تھی۔ سب انہیں شبرا کہتے۔ ان کی دُکان پر سبزی، کھجور، آم، برف کے رنگ برنگے میٹھے گولے اور سویّوں والے فالودے بنتے تھے جو ہم سب بچے خریدتے۔ ہم سب بچے ان کی دکان سے ہی چیزیں خریدتے کیونکہ شبرا صاحب کو قصہ گوئی کا فن آتا تھا۔ ان کی زبان میں عجیب سا مزہ تھا اور ہم شام تک وہیں بیٹھے ان کے قصوں میں محو رہتے۔ گرمیوں کی دوپہر میں شبرے کی دکان پر گاؤں کے چھوٹے بڑے اکٹھے ہوتے اور شبرا سب کو کہانیاں سناتا۔
میں آج تک حیران ہوں کہ شبرے قصائی صاحب کو اتنی کہانیاں اور قصے کیسے یاد تھے حالانکہ وہ کبھی سکول نہیں پڑھے تھے، انہوں نے کبھی کہانیوں کی کتابیں نہیں پڑھیں تھیں۔ مجھے شبرے صاحب سے قصے سُن کر سینہ گزٹ کی طاقت پر یقین آ گیا کیسے صدیوں سے انسان یہ سارے قصے سینہ بہ سینہ منتقل کرتا رہا ہے۔
میں آج بھی برسوں بعد شبرے قصائی صاحب کے سُنائے ہوئے ان قصوں کے جادو کے سحر میں گرفتار ہوں۔ شبرے قصائی صاحب عرصہ ہوا فوت ہوگئے، ورنہ میں جا کر ان سے تمام قصّے سُن کر انہیں کتابی شکل میں لے آتا۔ کبھی کبھی افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں کتنی لوک کہانیاں اور قصے شبرے قصائی صاحب جیسے ذہین اور قصہ گو لوگوں کے ساتھ ہی قبر میں دفن ہو گئیں۔
گاؤں میں پہلے اماں سے کہانیاں سُنیں، پھر شبرے قصائی صاحب سے، پھر بچوں کی دُنیا اور نونہال رسالے خریدنے شروع کیے۔ پھر اخبارمیں بچوں کا صفحہ پڑھنا شروع کیا۔ پرائمری سے مڈل سکول پہنچے تو ٹارزن، عمرو عیار کی کہانیاں، سند باز جہازی کے سفر پڑھنا شروع کیے۔ گھر میں بچوں کی کہانیوں کی لائبریری بن گئی۔ ہائی سکول میں ڈائجسٹ پڑھنے شروع کیے تو شکیل عادل زادہ کا ”بازی گر“، شوکت صدیقی کا ”جانگلوس“، محی الدین نواب کا ”دیوتا“، احمد اقبال کا ”شکاری“ تو اقلیم علیم کا ”موت کے سوداگر“ حواس پر چھائے رہے۔
پھر کالج میں باری لگی کلاسیک لٹریچر کی۔ یوں دِھیرے دِھیرے رُوسی، فرانسیسی اور انگریزی ادیبوں سے تعارف ہوا۔ ٹالسٹائی، پوشکن، دستویفسکی، میکسم گورکی، چیخوف، وکٹر ہیوگو، فلابیر، بالزاک، مارسل پروست، موپاساں، ترگنیف….. تو دوسری طرف شیکسپیئر کے ڈرامے تو تھامس ہارڈی، چارلس ڈکنز، جین آسٹن اور ڈی ایچ لارنس کی تحریروں نے قابو کر لیا۔ پھر جوں جوں عمر بڑھتی گئی، پسند نا پسند بھی بڑھتی گئی۔ لیکن اس کے باوجود میں آج بھی ڈائجسٹ کی کہانیاں پڑھتا ہوں۔ بازی گر کا آج بھی انتظار رہتا ہے۔
فرانس اور رُوسی ادیبوں کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اُنیسویں صدی میں جو ادب تخلیق کیا وہ آج دو سو برسوں بعد بھی دُنیا بھر کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ اس دَور کے لکھے ہوئے شاہکار آج بھی کلاسیک کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان ادیبوں اور ان کی تحریروں سے لوگوں کی محبّت کم نہیں ہوئی۔ آج بھی ٹالسٹائی کا ”War and Peace“ ہو یا وکٹر ہیوگو کا ”Les Miserables“ یا پھر دستویفسکی کا ”برادرز کرامازوف“، دُنیا کے بڑے ناولز میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے کئی نسلوں کو متاثر کیا۔
ان تمام بڑے ادیبوں کے ناولز یا کہانیاں دُنیا میں ترجمہ ہونے لگیں تا کہ وہ لوگ بھی پڑھ سکیں جو رُوسی، انگریزی، فرانسیسی زبان نہیں پڑھ سکتے تھے۔ یوں تراجم کا رواج شروع ہوا۔ پہلے انگریزی میں تراجم ہوئے تو پھر دُنیا کی دیگر زبانوں میں ترجمہ ہونا آسان ہو گیا۔ پاکستان میں بھی تراجم پر بہت کام ہوا ہے اور بہت خوب صورت تراجم دستیاب ہیں۔
بالزاک کا ترجمہ کرنا مشکل کام ہے اور یہ بات سب مانتے ہیں۔ لیکن بالزاک اس لیے اہم ناول نگار سمجھا جاتا ہے کہ اس نے اکاون برسوں میں جو کچھ لکھ دیا وہ شاید ہی کوئی اور لکھ سکے۔ بالزاک کی یہ خوبی ہے کہ وہ کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتا، چاہے اس کا محبوب شہر پیرس ہی کیوں نہ ہو۔ انسانی نفسیات پر بالزاک نے کمال ناولز اور کہانیاں لکھی ہیں۔
ابھی اس ناول ”سُنہری آنکھوں والی لڑکی“ کو ہی دیکھ لیں۔ جس بے رحمانہ طریقے سے بالزاک نے پیرس کا پوسٹ مارٹم کیا ہے وہ اپنی جگہ ایک کلاسیک ہے۔ پیرس کے لوگوں کا جو نقشہ بالزاک نے کھینچا ہے اس سے آپ کو خوف آنے لگتا ہے۔ آج کے جدید دَور کا انسان کچھ دیر کے لیے لرز جاتا ہے کہ آج سے دو سو سال پہلے پیرس واقعی ایسا تھا جہاں غربت، لالچ، حسد، اس سطح پر پہنچے ہوئے تھے کہ بالزاک نے پیرس کو ایک جہنم قرار دے دیا۔
ہو سکتا ہے آپ کو بالزاک کی پیرس پر طویل کمنٹری بور اور بےکار لگے لیکن اگر بڑے شہروں اور اس میں بسنے والے انسانوں کی نفسیات سمجھنی ہو تو پھر اس سے بہتر کمنٹری شاید ہی آپ پڑھیں۔
بالزاک کی ایک اور خوبی دیکھیں وہ اپنی تحریروں میں جج، جیوری یا جلاد بننے کا فیصلہ نہیں کرتا۔ وہ ہر کردار کو موقع دیتا ہے کہ وہ خود کو جیسے چاہے کہانی کے پلاٹ میں لے کر چلے۔ بعض اوقات تو محسوس ہوتا ہے کہ بالزاک ایک تماشائی کی طرح اپنی کہانی کے کرداروں کو چُپ چاپ بیٹھا انجوائے کرتا ہے۔ وہ کردار خود ہی اپنی کہانی لکھتے رہتے ہیں۔ خود ہی سازشیں کرتے، آپس میں لڑتے جھگڑتے یا محبّت کرتے رہتے ہیں۔ بالزاک صرف اپنے ہاتھ استعمال کرتا ہے، باقی سب کچھ کردار خود ہی کرتے ہیں۔
بالزاک نے ادب میں رِئیل اِزم کو فروغ دیا۔ اس نے اپنے کرداروں پر سونے کا رنگ نہیں چڑھایا۔ وہ جیسے تھے انہیں ویسے ہی پیش کیا۔ اب وہ کردار آپ کو بُرے لگیں یا اچھے۔
ابھی اس ناول کو ہی دیکھ لیں ہو سکتا ہے کہ آپ کو اس ناول کے مرکزی کردار ہِنری سے نفرت محسوس ہو یا چڑ جائیں لیکن بالزاک اس سے نہیں چڑتا۔
یہ ناول انسانی جذبات، حسد، شک اور محبّت کی کہانی ہے۔ فرانس کے ایک امیرزادے ہنری کی کہانی جسے ایک سنہری آنکھوں والی لڑکی سے محبّت ہو گئی تھی لیکن پھر درمیان میں شک، حسد اورفریب نے وہ بیج بو دیے کہ ایک اور ٹریجڈی نے جنم لیا۔ حسد، لالچ اور شک کیسے انسان کی محبّت کو تباہ کر سکتے ہیں جاننے کے لیے یہ ناول پڑھیے۔
کیا چند سِکوں کے عوض ایک ماں سے اس کی مامتا اور اس کے جذبات خریدے جا سکتے ہیں؟ پیرس میں ہر کوئی برائے فروخت ہے، جہاں وفا کی کوئی قدروقیمت نہیں؟ جہاں محبّت بھی بکتی ہے؟ انسانی جذبات کے سوداگر جیب میں سونے کے سکے لیے پھرتے ہیں اور مزے کی بات ہے اس سودے کے گاہک بھی میسّر ہیں۔
ان سب سوالوں کے جواب آپ بالزاک کے اس ناول میں پائیں گے۔
جیسا کہ میں کہتا آیا ہوں کہ بالزاک کا ترجمہ کرنا دُنیا کا مشکل ترین کام ہے، اس لیے اگر ترجمے میں کوئی غلطی نظر آئے تو پہلے سے معذرت خواہ ہوں۔
بک کارنر جہلم کے شاہد حمید صاحب، گگن شاہد اور امر شاہد کا شُکر گزار ہوں کہ وہ بالزاک کا ایک اور ناول شائع کر رہے ہیں۔ بالزاک کو چھاپنا ایک طرف لیکن اسے پڑھنا بھی ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ بک کارنر، جہلم نے پہلے بھی بالزاک کا ایک ناول ”تاریک راہوں کے مسافر“ بہت خوب صورت شائع کیا ہے اور یقین کریں جتنی محبّت اور محنت سے چھاپا ہے اس پر قارئین سے خوب داد سمیٹی ہے۔