عفیفہ شمسی:
کچھ اندر کی آگ ہوتی ہے کچھ باہر کی حبس جب آپ دوسروں پہ چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں ۔ جہاں زخم تھا وہاں مرہم نہیں لگا تو خون باہر تھوکنے لگتے ہیں۔ جہاں سے محبت کی توقع ہوتی ہے وہاں ذرا بھر کھرونچ بھی گہرا صدمہ دیتی ہے۔
کبھی ایمان درد زائل کرتا ہے کبھی کوئی اور سبب بن جاتا ہے۔ ساری زندگی یہ سمجھتے گزر جاتی ہے کہ کیا کرنا ہے، رہنا کیسے ہے؟ ہر دور ہر معاشرے کے اپنے اپنے مسائل ،اپنی اپنی کہانیاں۔ ابھی کرونا کا حملہ بھی شدید ہوا ہے ۔ دنیا بہت کچھ بدلتے دیکھے گی ۔ پروفیشن بھی بدلیں گے، کتنے نئے پروفیشن ایسے آئیں گے جو پہلے نہیں تھے۔
ابھی سائیکالوجی کی اہمیت بڑھے گی کہ آپ مانیں یا نہ مانیں اس نے بڑے کچوکے لگائے ہیں ۔ ہمیں اپنا آپ بہت پوزیٹو لگ رہا ہے لیکن اندر کہیں دباؤ ہے ۔
آگے کیا ہوگا، کیسے ہوگا، کرنا کیا ہے۔ مستقبل میں ہم کہاں کس مقام پہ ہوں گے! پھر جن کے گھر روٹی نہیں آ رہی ان کی زندگی کا رخ ہی بدل گیا ہے ۔
کاؤنسلنگ کلاس میں ایک لڑکی نے سوال کیا:
”سر مجھے بلڈ کینسر ہے ،طبعیت خراب رہتی ہے میں اس وجہ سے کم کام کر پاتی ہوں ۔ لوگ اور گھر والے اس بات پہ مجھے باتیں سناتے ہیں کہ کام نہیں کرتی ….“
بات چھوٹی سی تھی لیکن اس کا بڑا مسئلہ بنا ہوا تھا ۔
سر نے کہا:
”لوگوں کو چھوڑیں ،سنانے دیں، بس اتنا کریں جتنا اپنے بس میں ہے ۔“
جواب کتنا چھوٹا تھا! لیکن اتنا ہی بھاری۔
کل بھی کسی لڑکی نے سوال کیا:
”سر! اپنا کچھ شیئر کریں تو لوگ کہتے ہیں شوخی ہو رہی ہے ۔اپنا آپ دکھانے کی فکر ہوتی ہے ۔ گھر والے الگ اہمیت نہیں دیتے ناراض ہوتے ہیں“
سر نے وہی چھوٹا مگر بھاری جواب دیا ”لوگوں کی ناراضیاں دیکھ کے زندگی نہیں گزرتی۔“
آپ نے اس معاشرے کی حالت دیکھی ہے جس میں لوگوں کو گھر رہنا پڑا تو مسائل بڑھ گئے ہیں ۔ معاش کے علاوہ جو بھائی سے بھائی برداشت نہیں ہو رہا تو اب جا کے کھلا کہ باتیں چاہے مغرب کو سناتے رہیں حال ہمارے بھی اتنے اچھے نہیں کہ مل بیٹھ کے یہ دن ہنسی خوشی، خیال کرتے ہوئے گزار لیں ۔
مجھے تب جا کے احساس ہوا کہ اس شخص کو بہتر کیوں کہا گیا ہے جو گھر والوں سے اخلاق میں اچھا ہے۔ اس کی اتنی تاکید کیوں کی گئی ۔ ہم پہ وہ سب دشوار ہے جس کی بار بار تاکید کی گئی ہے ۔ شیطان آ کے وہیں پہ پنجہ گاڑ دیتا ہے ۔ اللہ کو معلوم تھا انسان کہاں کیا کرے گا خصوصی ہدایات نازل کر دی گئیں ۔
بسا اوقات بہت اپنے ہماری راہ میں آ کھڑے ہوتے ہیں ہمارے دل ہمارے اپنوں سے دکھتے ہیں ۔ وہ ہمیں سمجھتے نہیں ہیں اور اس سب کو دیکھتے ہوئے ایک بات مجھے سمجھ آ گئی۔
ہماری ایک جاننے والی کو کچھ سائیکالوجکل ایشوز ہیں ۔ ان کا رویہ دوسروں کے لیے بہت زہریلا بن جاتا ہے ۔ بہت مشکل ہوتا ہے انہیں ڈیل کرنا۔
جب ان کی زندگی دیکھیں، سوچیں، دل نرم ہو جاتا ہے مگر رویہ دیکھیں تو ردعمل سنبھالا نہیں جاتا۔ اک دفعہ کوئی ان سے ہرٹ ہوا تو میں نے سمجھایا کہ انہیں زندگی میں بہت مشکلات کا سامنا رہا ہے جس وجہ سے نفسیاتی مسائل ہیں، مارجن دے دیا کریں ۔ پتا کیا جواب آیا؟
” اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ اس کا بدلہ ہم سے لیا جائے؟ ہمارا کیا قصور ہے ۔ دوسروں کا کیا قصور ہے ؟“
تو مجھے سمجھ آیا کہ اس دنیا میں سب مشکل وقت میں اپنے آپ کو دیکھیں گے ۔ دوسرے کو دیکھنے والے لوگ بہت کم ہوتے ہیں اور بہت ہمت والے۔ اگر کوئی آپ کے منہ پہ تھپڑ مار دے اور آپ اسے جاہل سمجھ کے معاف کریں یہ بڑی بات ہے۔
میں پہلے لوگوں کو بھی غلط نہیں سمجھتی ۔ ان کا کیا قصور جو وہ دوسروں کے رویے بھگتیں چاہے دیوانوں کے ۔ اسی لیے پاگلوں کے ڈاکٹرز بہت بڑا کام کر رہے ہیں ۔ بات یہاں بھی تقسیم ہو جاتی ہے انہیں دیوانہ مان لیا تو صبر آ گیا ۔ کوئی اس کھائی میں گر رہا ہے تو اس کے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ۔
کسی کے بدلنے کا انتظار نہیں کر سکتے بالآخر ہنسی ،مسکراہٹیں کھو جاتی ہیں اور انسان بدل بھی جاتا ہے ۔
جس زمانے میں بڑی بہن نے انٹر میں داخلہ لینا تھا تو سائیکالوجی مضمون کا چناؤ کیا ۔ کئی لوگوں نے کہا اس کا کیا سکوپ ہے؟ اس کی تو مغرب میں ضرورت ہے ۔ ہمارے یہاں نفسیاتی مسائل نہیں ہیں اور آج ہمیں جا بجا نظر آ رہا ہے کہ ہمیں بھی ہیلنگ کی ضرورت ہے۔
لیکن ان کی سائیکالوجی کی نہیں بلکہ اپنی سائیکالوجی کی ضرورت ہے جو دین کے تابع ہے جس میں دل مرکز ہے ”وہ ٹھیک ہو گیا تو گویا سارا بدن ٹھیک ہو گیا“
ہمیں اپنے عقائد کی ضرورت ہے جن کی پختگی صرف آدمی نہیں دنیا بدل دیتی ہے ۔ ہمیں ہمارے وے آف ہیلنگ کی حاجت ہے ۔ ہمیں اپنے مربی اور معلم درکار ہیں ۔ ہم اپنی تعلیمات کے محتاج ہیں ۔ مغرب کی سائیکالوجی سکون دے گی مگر محدود۔
ہمیں ہمارے لامحدود مقصد حیات کی دوا چاہیے ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب کے سامع تھے، کاؤنسلر تھے ۔ سامنے والوں نے ان سے اپنے گھر کے مسئلے بعد میں سلجھائے، عائلی احکام بعد میں نازل ہوئے پہلے دل کا تزکیہ کیا گیا ۔ پہلے دماغ کا اندھیر پردہ ہٹایا گیا پھر کون سا مسئلہ تھا جو ختم نہیں ہوا؟
ہمیں بھی دل بدلنے ہیں ، پھر دنیا بدلنی ہے!