عبیداللہ عابد
جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو راولپنڈی میں واقع انکی رہائش گاہ میں نامعلوم افراد نے گھس کر قاتلانہ حملہ کیا، چاقوئوں کے پے درپے وار کرکے انھیں شہید کردیاگیا۔ وہ آج ہی نوشہرہ سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر واقع نجی ہاؤسنگ سوسائٹی ( کے سفاری ون) آئے تھے۔ وہ دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ تھے۔ 1985 سے 1991 تک ممبر سینیٹ رہے اور 1991 سے 1997 تک دوسری بارسینیٹ کے ممبر رہے۔ سن دوہزار دو میں قائم ہونے والے چھ مذہبی جماعتوں کے سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل کا حصہ بھی رہے، بعدازاں وہ اتحاد سے الگ ہوگئے، سن دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات سے قبل انھیں ایک بار پھر متحدہ مجلس عمل کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے انکار کردیا، وہ عمران خان کی تحریک انصاف کے اتحادی بن گئے تاہم ان کا اور عمران خان کا اتحاد بھی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ گزشتہ ہفتوں کے دوران میں وہ تحریک انصاف سے اتحاد کو اپنی غلطی کہتے پائے گئے۔
ایک ایسے وقت میں جب سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فیصلے کے بعد ملک شدید ترین بحران سے دوچار ہے، مولانا سمیع الحق کے قتل نے حالات کو مزید سنگین کردیا ہے۔ اپنی شہادت سے قبل ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو غیرمعمولی طور پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے بعض ایسی باتیں بھی کہیں جو میڈیا رپورٹ کرنے کی ہمت نہیں کرسکا۔ فوری طور پر بعض حلقوں کا خیال مولانا سمیع الحق کی اس شدید ترین مخالفت کی طرف جاتا ہے،حکمران جماعت تحریک انصاف کے بعض مخالف حلقوں نے سوشل میڈیا پر وفاقی وزیراطلاعات و نشریات فواد چودھری کے ایک بیان سے مولانا کے قتل کو جوڑنے کی کوشش بھی کی ہے جس میں فواد چودھری نے ناموس رسالت کے لئے تحریک چلانے والوں کو بھون کر رکھ دینے کی دھمکی دی تھی اور یہ بھی کہاتھا کہ احتجاج کرنے والوں کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ مولانا سمیع الحق کے بیٹے مولانا حامدالحق کا کہنا ہے کہ لگتا ہے کہ توہین رسالت کیس سے توجہ ہٹانے کے لئے انکے والد کو شہید کیاگیا.مولانا حامد الحق نے مزید کہا کہ ایسی قوتیں جو ملک میں اسلام کا غلبہ نہیں چاہتیں، جو جہاد مخالف ہیں، جو مدرسوں اور خانقاہوں کی مخالفت کرتے ہیں وہی طاقتیں اس قتل میں ملوث ہیں۔
اگرچہ فواد چودھری بیانات جاری کرتے ہوئے دانشمندی سے کم ہی کام لیتے ہیں تاہم بحران میں پھنسی ہوئی حکومت ایسا کام کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ البتہ عمران حکومت کو مزید بحرانوں سے دوچار کرنے کی خواہاں قوتیں ایسی تدبیر ضرور اختیار کرسکتی ہیں۔ اس میں وہ غیرملکی قوتیں شریک ہوں گی جو بھوکے بھیڑیوں کی طرح پاکستان میں گھسی ہوئی ہیں. ان سب قوتوں کا بیس کیمپ آج کل افغانستان بنا ہوا ہے.مولانا سمیع الحق کا افغانستان میں اثرورسوخ غیرمعمولی طور پر گہرا اور وسیع تھا۔ ان کے مدرسہ واقع اکوڑہ خٹک کو افغان طالبان تحریک کی جائے پیدائش قراردیاجاتاتھا۔ افغانستان کے سابق سربراہ ملامحمد عمر اسی مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے۔
اے آر وائی سے وابستہ ممتاز صحافی فیض اللہ خان کا کہنا ہے:’’ کوئی ذاتی معاملہ نہ ہوا تو بظاھر اس قتل کے تانے بانے افغان انٹیلجنس سے ملتے نظر آتے ہیں، پاکستان میں کسی گروہ سے مولانا سمیع الحق کی ایسی دشمنی نہ تھی کہ یوں قتل کیا جاتا ملکی اداروں بشمول پاک افغان طالبان سے انکے اچھے مراسم رہے ۔ مگر حتمی بات پھر بھی تحقیقات کے بعد ہی پتہ چل سکے گی لیکن جس طرح افغان انٹیلی جنس سے جڑے پیجز ان کی شہادت پہ خوشیاں منارہے رہیں اس سے ان کی طرف شک گہرا ہوتا ہے بعض افغان سوشل میڈیا صارف اسے جنرل رازق کا انتقام بھی قرار دے رہے ہیں بقیہ افغان میڈیا پہ اکوڑہ خٹک سے ایک خاص نفرت پہ مبنی خبریں اور دستاویزی فلمیں معمول کا حصہ ہیں‘‘ ۔
ایک تبصرہ برائے “مولانا سمیع الحق کے قاتلوں کا پتہ چل گیا”
بہت بہترین اور غیر جانبدارانہ تجزیہ ھے۔