حکومت کی اہم اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ) نے حکمران اتحاد چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ دوسال پی ٹی آئی کے وعدوں کی تکمیل کا انتظار کیا مگر لاپتا افراد کا مسئلہ حل ہوا نہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل، اسلئے حکومتی اتحاد سے نکل رہے ہیں۔
بدھ کو قومی اسمبلی میں خطا ب کرتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان ہاتھ سے جارہا ہے اس کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے،حساب کرنا ہے کرلیں، آپ کا ایک ایک بال ہمارا مقروض ہوگا، ہمیں کالونی نہیں ملک کا حصہ سمجھا جائے۔
اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ شاید اتحادیوں کو ہمار ی ضرورت نہیں رہی اس لیے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سنٹر ل ایگزیکٹو کمیٹی کے فیصلے کے مطابق اپنی جماعت کا تحریک انصاف سے باقاعدہ علیحدگی کا اعلان کرتا ہوں۔
تاہم ایوان میں موجود رہیں گے ہمیں پہلے ہی کہا گیاتھالیکن ناسمجھ تھے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں بڑے دھوکے ہیں اس راہ میں۔اختر منگل نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے، خدا کے لیے بلوچستان کو ساتھ لےکر چلنا چاہتےہیں تو ان معاہدوں پرعمل کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہاتھ ملایا آپکے ساتھ، گلہ نہیں کر رہے، صدر، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، چیئرمین سینیٹ سمیت ہر موقع پر ووٹ دیا، اپوزیشن اور حکومتی بینچز کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ 10 ارب میں ہم بک گئے۔ اختر مینگل کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ دو معاہدے ہوئے، 8 اگست 2018 کو پہلا معاہدہ ہوا، شاہ محمود، جہانگیر ترین اور یارمحمد رند نے دستخط کیے، ہم بنی گالہ نہیں گئے بلکہ وہ کوئٹہ آئے تھے۔ اخترمینگل نے کہا کہ بجٹ اور صوبائی حالات کی طرف نکتہ نظر پیش کروں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے کہا کہ ماضی کی حکومتیں بھی بلوچستان کے معاملہ میں بے اختیاررہی ہیں، بلوچستان کی حکومت کیسے بنانی ہے کسے وزیراعلیٰ اور گورنر بنانا ہے، کس ضلع میں کسے ڈپٹی کمشنر بنانا ہے یہ وزیراعلیٰ سے وزیراعظم تک کے اختیار میں نہیں ہے،ہماری ترجیحات اقتدار نہیں بلوچستان کے مسائل حل کرنا ہیں۔
عمران خان حکومت کا اب کیا بنے گا؟
تجزیہ کاروں نے کہاہے کہ بی این پی مینگل کا حکومت کے ساتھ اتحاد غیر فطری تھا،پی ٹی آئی کے لئے نہ صرف مرکز بلکہ بلوچستان میں بھی کافی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں، لگ یہ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں اپوزیشن وزیراعظم سے دوبارہ اعتمادکاووٹ لینے کا مطالبہ کرے گی۔
تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ وزیراعظم بننے کے لئے جو ٹوٹل ووٹ چاہیں وہ 172 ہیں ان کو سادہ میجورٹی سے چار ووٹ زیادہ ملے تھے اور یہ چار ووٹ اختر مینگل کے تھے اس لیے یہ عام طور پر یہ کہا جارہا تھا کہ عمران خان کی حکومت اختر مینگل کے چار ووٹوں کی بنیاد پر کھڑی ہے اب اختر مینگل نے جو حکمران اتحاد ہے اس سے علیحدہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے عملی طور پر عمران خان کی وزیراعظم کی حیثیت سے جو ان کی اکثریت ہے وہ ختم ہوچکی ہے۔
میری اطلاع کے مطابق ایک آزاد ایم این اے ہیں اسلم بہتانی بھی حکومت سے کافی ناراض ہیں اس کے علاوہ بھی کچھ آزاد ایم این ایز وغیرہ ناراض ہیں کچھ اور چھوٹی اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھی مسائل چل رہے ہیں
اختر مینگل نے کافی دنوں سے حکومت کی مختلف شخصیات کے حوالے سے رابطہ کیا تھا اور ان کو بتایا تھا کہ ان کا تحریک انصاف کے ساتھ تحریری معاہدہ تھا اور اس معاہدہ میں جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں ہو رہے۔
حامد میر نے کہا کہ تحریک انصاف کی اپنی صفوں میں بھی معاملات ٹھیک نہیں ہیں، عمران خان کیلئے اس وقت اتحادیوں کو راضی کرنا بہت ضروری ہے۔
یادرہے کہ گزشتہ سال جون میں بھی بی این پی نے حکومت سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد پرویز خٹک نے ملاقات کر کے انہیں یقین دلایا تھا کہ حکومت وعدوں پر عمل کرے گی، وزیراعظم بدھ کو کراچی میں اپنے اتحادیوں ایم کیو ایم اور جی ڈی اے سے ملے، ایم کیو ایم بھی ماضی میں حکومت سے ناراض رہ چکی ہے مگر انہیں منالیا گیا تھا۔
ق لیگ کو بھی حکومت سے شکایت رہی ہے، گزشتہ مہینے چوہدری برادران نے چیئرمین نیب کیخلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔
شاہزیب خانزادہ کا کہناتھا کہ اس وقت حکومت کو خطرہ نہیں مگر ایک اتحادی کے الگ ہونے کے بعد دیگر اتحادی بھی حکومت پر دباؤ بڑھاسکتے ہیں۔ دوسرے اتحادی جمہوری وطن پارٹی نے بھی حکومت سے ناراضی کا اظہار کردیا۔ جے ڈبلیو پی نے کہا کہ جلد ہی فیصلہ کریں گے کہ حکومت کا مزید ساتھ دینا ہے یا نہیں دینا ہے۔