ڈاکٹرنزیراحمد ، سابق رکن قومی اسمبلی پاکستان

ڈاکٹرنزیراحمد شہید کون تھے؟ کیا آپ جانتے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر محمد حسین میاں:

فروری 1929ء کا ایک دن ضلع جالندھر میں ایک عام سا دن تھا لیکن میاں اللہ بخش کے خانوادے کے لئے یہ پیام ِ مسرت لے کر آیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اولاد نرینہ سے نواز دیا تھا۔ ضلع جالندھر کے زرخیز کھیت اور کھلیان چھوڑ کر سینکڑوں میل دور ڈیرہ غازیخان (موجودہ راجن پور) کے دور افتادہ علاقے فاضل پور کے جنگلوں میں آبادکاری کا چیلنج قبول کرنے والے اس کنبے کے سربراہ نے پہلوٹی کے بچے کا نام ”نذیر“ تجویز کیا۔

صوم و صلوۃ کے پابند میاں بخش روایتی تعلیم سے نابلد ضرور تھے لیکن عنفوانِ شباب میں ہی وہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کر چکے تھے۔ ولادتِ نذیر نے اولاد کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنے کے پدرانہ شوق کو مزید جِلا بخشی۔ وسائل کی فراہمی کے لئے جستجو کی پگڈنڈیوں پر سفر کو تیز کردیا گیا۔

نصرتِ خداوندی سے بیاباں جنگل لہلہاتے کھلیانوں میں بدل گئے۔ حصول ِتعلیم کے لئے نذیر احمد کو پہلے فاضل پور اور پھر انوکھروال (ضلع جالندھر) میں والدین سے دور رہنا پڑا۔ جماعت ہفتم میں پہنچے تو جالندھر سے واپس لاکر راجن پور کے ہائی سکول میں داخل کرادیا گیا،

جلد ہی ان کا شمار سکول کے ہونہار اور ہر دل عزیز طلباء میں ہونے لگا۔ نصابی سرگرمیوں کے علاوہ کھیل کے میدانوں میں بھی کسی سے پیچھے نہ رہے۔ نماز، روزہ کی پابندی کے ساتھ ساتھ طلباء چاہے ہندو ہوں یا مسلم ہمیشہ اُن کے جائز حق کے لئے توانا آواز بن کر ارباب اقتدارواختیار کے سامنے ڈٹے رہے۔

1943ء میں ایک متعصب ہندو استاد بطور ہیڈ ماسٹر سکول میں تعینات ہوا، موصوف کو اپنی مضمون ریاضی، جیومیٹری پر گرفت کا زعم تھا۔ اپنے دیرینہ تعصب کے سبب وہ مسلمان طلباء سے بہت خار کھاتا تھا۔ مسلمان طلباء پر طرح طرح کے جرمانے اور پابندیاں اس کا طریق تھا۔ نذیر احمد جو اُس وقت صرف 14سال کے تھے مسلمان طلباء کے لیڈر بن کر ابھرے۔ آپ کے بے باکانہ اور قائدانہ صلاحیتوں کے طفیل سکول ہیڈ ماسڑ کے تمام مسلمان طلباء کو امتحان میں ناکام کرنے کی منصوبہ بندی نہ صرف چوپٹ ہو گئی بلکہ سکول کے اندر ہونے والی تین سے چار کامیاب ہڑتالوں نے ہیڈ ماسٹر کو اپنی متعصبانہ کوشیشوں میں ناکام کر دیا۔

آپ کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں کسی فرد کا ہاتھ نہ تھا بلکہ فطرت خود ہی لالہ کی حنابندی کرتی رہی۔ مشیت ِایزدی کے مطابق آپ کو مواقع میسر آتے رہے۔”آزادی“ کے عنوان کے تحت لکھا گیا مضمون اور بزم ادب کے موقع پر فرنگی تہذیب اور استعمار کے خلاف سکول میں کی گئی آپ کی تقریر سے ایوان اقتدار میں بیٹھے بہت سوں کی جبینوں پر بل پڑنے لگے تھے۔

میڑک کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کرنے کے بعد ایمرسن کالج ملتان میں داخلہ لیا۔ کالج کی آزاد فضا ء میں رہتے ہوئے بھی آپ ساتھی مسلمان طلباء کی سماجی اور اخلاقی تربیت پر توجہ دیتے رہے۔ انہی دنوں جماعت اسلامی کے اجتماعات میں شرکت کے باعث تحریک سے متاثر ہوئے اور 1946ء ہونے والا کُل ہند اجتماع میں شرکت کے لئے اللہ آباد تشریف لے آئے۔ مرشد کی ایک نگاہ پڑی تو آپ سید ابوالاعلی مودودی کے فلسفہ کے اسیر ہوگئے۔

شعور حیات کی قندیلوں میں روشنی تو آبائی تھی۔ اللہ اور رسول ﷺ کے بتائے گئے اصولوں کے مطابق معاشرے کی تشکیل کے لئے تحریک کا حصہ بننے کا فیصلہ کر لیتے ہیں اور والد گرامی کے نام سولہ صفحات پر مشتمل خط تحریر کرتے ہوئے موجودہ فرنگی تہذیب اور تعلیم کو انگریزی استعماری نظام کا حصہ قرار دیتے ہوئے تعلیمی سلسلے کو منقطع کرنے کی اطلاع دیتے ہیں۔

والد بزرگوار کو سخت پریشان پا کر ملتان چلے آتے ہیں۔ پِدرانہ محبت سماجی مقاطعہ کی دھمکی انگلستان میں اعلیٰ تعلیم کے لئے اپنے پیٹ کاٹ کر جمع کردہ دس ہزار روپے پس انداز کرنے الغرض ہر حربہ آزماتے ہیں مگر ادھر جو فیصلہ ہو چکا وہ اَٹل ہے۔

اسلامی نظام کے قیام کے لئے جان کی قربانی کا فیصلہ برقرار رہتا ہے چنانچہ سماجی بائیکاٹ شروع ہو جاتا ہے ۔ جیب خرچ اور گھر میں داخلہ بند ہونے کا پیغام ملتا ہے اگرچہ اُن کے والد اسلام پسند اور حق کے شیدائی تھے لیکن بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلانے کر خواب دیکھنے والے باپ کے ارمانوں کا جب اس طرح خون ہوا تو روایتی سلوک ہوا۔ ہومیوپیتھیک طریقہ علاج کے متعارف تھے۔ اس لئے طبی تعلیم حاصل کرنے کے لئے لاہور تشریف لے جاتے ہیں۔

اکتوبر 1946ء میں ہومیوپیتھیک کی تعلیم سے فراغت پاکر لاہور ہی میں تحریک کے کاموں میں مزید منہمک ہو جاتے ہیں۔ امرتسر سے لاہور آتے ہیں تو والد صاحب اپنی ناراضگی کو ختم کر کے پدرانہ شفقت سے مجبور ہوکر لاہور تشریف لاتے ہیں اور ایک مرتبہ پھر اپنے بیٹے کو اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کا واسطہ دے کر واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ

”میں اپنی زندگی کا ایک واضح مقصد اور نصب العین طے کر چکا ہوں اور وہ ہے اسلامی نظام کا قیام۔ اس مقصد کے لئے جدوجہد میرا فرض ہے آپ اطمینان رکھئیے میری راہ ’راہ مستقیم‘ ہے۔ آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے راہ حق میں آنے والی مشکلات میں ثابت قدم رکھے۔

والد صاحب جو خود دین کے شیدائی تھے، وہ نوجوان ڈاکٹر نذیر احمد کی باتوں پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
پٹنہ صوبہ بہار میں مسلم ہندو فسادات ہوتے ہیں تو ڈاکٹر نذیر احمد رضاکارانہ اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اور مسلسل 6 ماہ تک امدادی کیمپوں کے اندر موجود اپنے لٹے پٹے مظلوم مسلمان بھائیوں کی طبی امداد، بحالی میں مشغول رہتے تھے۔

مئی 1947ء میں حکم ملتا ہے کہ ڈیرہ غازی خان جاکر تحریک کا کام منظم کیا جائے۔ چنانچہ ڈیرہ غازی خان چلے آتے ہیں۔ اگست 1947ء میں پاکستان معرضِ وجود میں آتا ہے تو حکومت وقت کی جانب سے مہاجرین کے لئے امدادی کیمپ قائم کر دئیے جاتے ہیں تو آپ گرلز کالج میں امدادی کیمپ میں بڑھ چڑھ کر امدادی سر گرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔

پھر شہر ڈیرہ غازی خان نے دیکھا کہ ڈاکٹر نذیر احمد نے دسمبر 1947ء میں تحریک کی دعوت کا باقاعدہ آغاز کیا۔ آپ کا معمول تھا کہ مہینے میں پندرہ روز صبح سے لے کر نماز ظہر تک مریضوں کا علاج کرتے، پھر عصر سے عشاء تک شہر کے مختلف علاقوں میں دین کے ابلاغ کا کام انجام دیتے اور پندرہ سے تیس کلومیٹر تک سائیکل پر تحریکی سرگرمیاں سر انجام دیتے۔

مہینے کے بقیہ پندرہ دن کلینک بند رہتا اور آپ دور افتادہ مقامات کا رخ کرتے ہوئے ضلع بھر میں قریہ قریہ گھوم کر لوگوں کو دین کے راستے پر چلنے کی دعوت پیش کرتے۔اخلاص اور جہد مسلسل کے نتیجے میں ضلع بھر میں متعدد مقامات پر دارالمطالعہ، لائبریریاں، شعبہ ہائے خدمت خلق اور خیراتی شفا خانے قائم کیے گئے۔

جماعت اسلامی ڈیرہ غازی خان کا شعبہ خدمت خلق نادار اور مظلوم عوام کے لئے ایک سائبان بن گیا۔ بے لوث خدمات کے طفیل ڈاکٹر نذیر احمد کا نام ضلع بھر میں جانا اور پہچانا جانے لگا۔ دین اسلام کے نام پر بننے والے ملک خداداد میں دین اسلام کا پرچار ہو، یہ کارخانہ فرنگ میں پنپنے والی استعماری قوتوں کو کب منظور تھا کہ ڈاکٹر نذیر احمد جیسا کوئی راہ حق کا رہرو مظلوم اور پِسی ہوئی عوام کی آواز بن کر ایوان اقتدار سے ٹکر لے۔

چنانچہ حق گوئی اور بے باکی کی سزا دینے کے لئے زندانوں کے دروازے کھول دئیے گئے۔ وقت بے وقت کے تعاقب،نظربندیاں، جھوٹے سیاسی مقدمات کے نتیجے میں 22 مرتبہ اسیر ی بھی اس مرد ِدرویش کی کھری اور دو ٹوک بات کہنے کے حوصلے کو نہ توڑ سکی۔ اُن کا انداز تقریر عوامی مارشل لاء کے خلاف شمشیر برہنہ کی طرح چمکا۔ بات کہنے کا ہنر ایسا تھا کہ ہر سننے والا یہ سمجھا کہ گویا یہ تو اس کے دل میں تھی۔

1970ء میں عام انتخابات ہوئے تو ڈیرہ غازی خان کے عوام نے اپنے درمیان رہنے والے ڈاکٹر نذیر احمد کو اپنے کندھوں پر بیٹھا کر ممبر قومی اسمبلی بنا کر قومی اسمبلی میں بھیج دیا۔

پاکستان کے دو لخت ہونے پر آپ بہت دل گرفتہ تھے۔ 27 مئی 1972ء کو اپنی یادگار تقریر میں فرماتے ہیں:

”عزیز نوجوانو! تمہاری بہنیں آج کلکتہ کے بازاروں میں تمہیں پکار رہی ہیں یا اس قوم میں ایک بھی محمد بن قاسم نہیں ہے کیا؟؟

میں یہ بات مان لوں کہ آج ہم مر گئے ہیں؟ کیا یہ قوم بانجھ ہو گئی کہ ایک محمد بن قاسم پیداکرنے پر قادر نہیں؟ کیا ہم اس لمحے کو برداشت کر لیں گے؟

میرے عزیز بھائیو! سنو اگر تم نے اس اندوہناک لمحے کو برداشت کر لیا تو یہ تمہاری موت ہے۔ قومیں میدان جنگ میں نہیں مرتیں، قومیں غیرت کی موت مرتی ہیں۔ میدن ِجنگ میں قوموں نے شکست کھائی لیکن پھر پلٹ کر غیرت وحمیت کے زور پر شکست کو فتح میں بدل دیا مگر جن قوموں کی غیرت مرگئیں وہ ہمیشہ کے لئے مرگئیں“۔

اہلیان ڈیرہ غازی خان کے دلوں میں رہنے والے مرد صحرائی کانام فسطائت کے ایوانوں میں ببانگ دہل حق بات کہنے کے طفیل مطلع سیاست پر چھاتا چلا گیا۔ ڈاکٹرنذیراحمد کا جرات مند لہجہ اقتدار کے کلیجے میں کانٹے کی طرح چبھ رہا تھا اور وہ جنہیں تابِ سماعت نہیں، جو عدل کی دہائی نہیں سن سکتے، جن کے مزاج پر یہ لہجہ کوہ گراں سے کم نہیں انہوں نے اس توانا آواز کو دبانے کی ناکام کوششوں کے بعد 8 جون 1972ء کو اس آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا ۔

ان کی زبان خاموش ہو گئی لیکن خون کا ایک ایک قطرہ بولنے لگا اور بولتا رہا، اس کو کون خاموش کرے گا ، خوشبو کو کب کوئی بیڑیاں پہنا سکا۔ ڈاکٹر نذیر احمد شہید ہو کر جاوداں ہو گئے۔ وہ اللہ کے نام پر جیے اور اللہ کے نظام کو ملک خداداد میں برپا کرنے کی کوششوں میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر گئے، ان کا ہر نقش، نقش دوام بن گیا۔
(مضمون نگار ڈاکٹر نزیراحمد شہید کے صاحبزادے ہیں)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “ڈاکٹرنزیراحمد شہید کون تھے؟ کیا آپ جانتے ہیں؟”

  1. زبیدہ رؤف Avatar
    زبیدہ رؤف

    شئیر کرنے کا شکریہ