ڈاکٹرجویریہ سعید :
بچوں کی تربیت اور ان کے معاملے میں نصیحتوں کا بہت غلغلہ ہے۔ یوں نہ کریں کہ ٹھیس پہنچے گی، وہ نہ کریں کہ برا مان جائیں گے، اکثر والدین ہلکان ہوئے پھرتے ہیں گویا کہ بچے کانچ کا جام ہیں اور بے چارے والدین اسے تھامے کسی یونانی ایمفی تھی ایٹر میں مختلف آزمائشی مرحلوں سے ایسے گزریں گے کہ سخت سے سخت مرحلے پر بھی تلواروں اور تیروں اور وحشی جانوروں سے بچتے ہوئے بھی یہ کانچ کا جام ہلکا سا لرزا تو گر کر ٹوٹ جائے گا۔
موٹیویشنل اسپیکرز اور پیرنٹنگ کی ورکشاپس کروانے والوں سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ کچھ نسلوں کی کچھ بے جا اور کچھ جائز سختیوں کا احساس جرم والدین کے کاندھوں پر ایسا لادا گیا ہے کہ اب اپنے بچوں کی پرورش میں ان کے کندھے ٹوٹ رہے ہیں یا وہ پرفیکٹ پیرنٹنگ کی اس دوڑ میں ہانپ رہے ہیں۔
پیرنٹنگ کی ہر نصیحت میں خود والدین کے اپنے حقوق، ان کا احساس اور ان کی قدر دانی کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔
بچوں کا احساس اور فکر بہت ضروری ہے مگر ہم اس معاملے کے دوسرے پہلو پر بات کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ہمیں اس معاملے کے دوسرے فریق کے انسان ہونے کا بھی احساس ہے۔
کچھ نکات اس ضمن میں:
☘️ بچے فیکٹری میں ڈھالے ہوئے بسکٹ نہیں ہیں۔ ان مستقبل کی شخصیت میں سارا کا سارا کردار آپ کا نہیں۔ وہ اپنی فطرت بھی ساتھ لائے ہیں اور ان کو بھی اپنی زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرکے اپنی خود مختار قوت فیصلہ کو استعمال میں لانا ہوگا۔
یہ نہ سمجھیں کہ آپ ان کو اپنی مرضی کے انسان میں ڈھال سکتے ہیں۔ ان کو اپنی ذمہ داری خود بھی لینا سکھائیں اور لینے بھی دیں۔ اس لیے آپ ضرورت سے زیادہ ہلکان اور پریشان اور ہر وقت بے جا الرٹ نہ رہیں۔
☘️ ہم میں سے کوئی پرفیکٹ نہیں۔ موٹیویشنل اسپیکرز، ٹرینیرز کوئی بھی۔ اگر ہم سب اتنے حسین و بلند کردار ہوتے تو معاشرے بہت خوبصورت ہوتے مگر ایسا نہیں ہے۔ کسی کو بھی حد سے زیادہ آئیڈیلائز نہ کریں۔ انسان ہونے کے ناتے پر شخص میں کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں۔ اس لیے اگر آپ میں ہیں تو آپ ان کو اپنے طور پر درست کرنے کی کوشش کریں۔
☘️ ہر موقع پر پرفیکٹ انسان بننا ممکن نہیں ہوتا۔ کبھی چیخنا، کبھی رونا، کچھی ٹوٹنا ، کبھی کچھ غلط ہونا یہ سب نارمل انسانی رویہ ہے۔ پرفیکشنزم کا جنون تو والدین اور بچوں میں کچھ اور قسم کی نفسیاتی الجھنیں پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔
Obsessive compulsive personality
Anxious Personality
Narcissistic personality
اور بھی بہت کچھ۔
☘️ کوئی اپنے بچے کی جیسی بھی تربیت کررہا ہے ، وہ آپ کو مشورے دیتا ہے، بہت اچھی بات ، آپ ضرور سیکھیے مگر اس کو کاپی کرنے کی کوشش نہ کریں۔ آپ کے حالات مختلف ہوں گے۔ اور اس سے بھی زیادہ اہم بات خود آپ نے بھی کچھ بہت اچھے طریقے اختیار کیے ہوئے ہوں گے۔ خود کو نکھاریے، دوسروں سے سیکھیے ضرور مگر اپنی خوبیوں اور اپنے اچھے کاموں پر بھی اعتماد رکھیے۔
☘️ آج کل پیرنٹنگ گلٹ کا ایک اور مسئلہ سامنے آتا ہے، مائیں اکثر بچوں سے معافیاں مانگتی ہیں۔ کبھی کوئی واقعی زیادتی ہوگئی ہو تو اور بات ہے لیکن یہ بار بار بچوں سے معافی مانگنا مناسب طریقہ نہیں۔ اگر آپ سے اکثر زیادتی ہورہی ہے تو وجہ تلاش کیجیے، آرام کیجیے، ریلیکس ہوں، خود کو وقت دیں، غصے اور الجھن کی نکاسی کا کوئی اور راستہ ڈھونڈیے اور بچے کے ساتھ رویے کو درست کرلیں۔ مگر ان سے بار بار معافی نہ مانگا کریں۔
Don’t be too hard on yourself. You too deserve some space and empathy and some time out.
☘️ باپ بچوں کی تربیت کی فکر مندی میں ماؤں پر غصہ کرتے ہیں ۔ اور کبھی کبھی تو بچوں کے سامنے یا خاتون کے میکے یا سسرال والوں کے سامنے ہی شروع ہوجاتے ہیں۔
اس سے کوئی فائدہ نہیں۔ اس کا کوئی اچھا اثرکسی پر نہیں پڑنا ۔ آپس میں ایک دوسرے سے بات کیجیے کہ دونوں اپنا اپنا کردار کیسے ادا کرسکتے ہیں۔
☘️ والدین بچوں سے ایک دوسرے کی تعریف اور بچوں کے لیے ایک دوسرے کی محبت ، محنت اور قربانی کا تذکرہ کیا کریں۔ مائیں باپوں کی اور باپ مائوں کی۔ یہ انتہائی کارآمد اور آزمودہ نسخہ ہے۔ بچوں کو خوشی ہوتی ہے کہ ان کے مان باپ ان سے محبت کرتے ہیں اور وہ ان کے لیے خاص ہیں اور ان کو یہ اعتماد بھی ملتا ہے کہ ان کے ماں باپ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور وہ ایک محفوظ پناہ گاہ میں ہیں۔
اگر آپ کی/کے ہم سفر ایسا نہیں کرتے/کرتیں تو آپ اس کی ابتدا کرکے دیکھیے۔ دعا بھی کریں ان شاءاللہ آپ کی /کے شریک زندگی پر بھی اس کا مثبت اثر پڑے گا۔
ہم نے شروع سے اپنے بچوں کے سامنے ان کے والد کی تعریف کی۔ کوئی چیز ان کو دلائی گئی تو کہا کہ آپ نے ابو کا شکریہ ادا کیا؟ ہمارے بچے اب اپنے ابو کو باقاعدہ ”جزاک اللہ ابو“کہتے ہیں۔ نہ کہیں تو ہم یاد کروا دیتے ہیں۔
میاں بیوی کے بیچ جو بھی اونچی نیچ ہو، ایک دوسرے کے لیے برا بھلا کہنا ،غم و غصے کے موقع پر خصوصاً اور عام حالات میں عموما ، بچوں کے سامنے نہیں ہونا چاہیے۔
بچوں کے والد صاحب خاص مواقع پر کوئی تحفہ لاتے تو بچوں کے دادا دادی کے ذریعے دیتے۔ یہ کہہ کر کہ یہ تحفہ دادا دادی کی طرف سے ہے۔ بچے دادا کے ساتھ بیٹھ جاتے، وہ ان کو پیار کرتے، دعائیں دیتے۔
ہم کسی کے گھر جاتے تو کہتے ہیں، آپ نے آنٹی کو بتایا کہ آپ کو ان کا پکایا ہوا کھانا کتنا اچھا لگا۔
ایک صاحبزادے بولے، مما ان کا باتھ روم اور گھر کتنا اچھا ہے۔ ہم نے کہا ، یہ بات جا کر آنٹی کو بتا کر آئیے۔
بچے اکثر خواہش کرتے ہیں کہ انہیں فلاں فلاں شے خریدنی ہے۔ کبھی کبھی وہ سیلفش خواہش کا اظہار کرتے ہیں، یا ان کو لگتا ہے کہ جو چیز ان کو چاہیے وہ تو امی ابو اپنی غربت یا ضد کی وجہ سے کر نہیں دیتے۔
ہمارے گریڈ تھری کے صاحبزادے نے پیسے جمع کر کے لیمبر گینی کا ایک پوسٹر خرید کر اپنے کمرے میں سجایا۔ پوچھنے پر بتاتے رہے کہ جب بڑے ہوکر جاب کریں گے، تو سب سے پہلے اپنے لیے ایسی گاڑی خریدیں گے۔ باتوں میں یہ احساس بھی جھلک رہا تھا کہ ابو تو لیتے ہی نہیں۔
ان کو دعا دے کر ہم نے بتایا کہ کس طرح ان کے ابو کو گاڑیوں کا کریز تھا۔ کیسے رقم جمع کر کے نوعمری میں گاڑی اور موٹر سائیکل خریدی، کیسے شوق کے ہاتھوں ساری گاڑی کھول کر رکھ دی اور پھر دوبارہ بنائی ماسٹرز بھی اسی فیلڈ میں کیا۔
مگر جب اتنی رقم آئی کہ اپنی پسند کی گاڑی خرید سکتے تھے تو بچے اور مما ان کی زندگی میں ذمہ داریوں کے ساتھ آ چکے تھے۔ پھر انہوں نے سیکنڈ ہینڈ گاڑی خرید لی تاکہ بچے اور دادا دادی کے ساتھ مل کر اچھے طریقے سے رہ سکیں۔
بچوں کو اپنے ابو کی ایسی کہانیاں بہت پسند آتی ہیں۔
کچھ روز قبل جب ہم بچوں سے بہت دور تھے۔ ہماری بہن نے بتایا کہ آپ کے اب ٹین ایج ہوچکے صاحبزادے نے ہم سے کہا:
”میں اپنے ابو جیسا بننا چاہتا ہوں۔ خود میری مما یہ کہتی ہیں کہ میرے ابو دنیا کے سب سے عظیم شخص ہیں۔ سب کا خیال رکھتے ہیں۔“
ہمارے دل کی گہرائیوں سے دعائیں نکلنے لگیں۔
بچوں کو اپنے والدین کے منہ سے اپنی اور ان کے شریک زندگی کی تعریف سننا اچھا لگتا ہے اور یہ ایک محفوظ تعلق کی ضمانت بن جاتا ہے۔
مختصر یہ کہ اچھا خاندان وہ نہیں جو ہر لحاظ سے پرفیکٹ ہو بلکہ وہ ہے جہاں باہمی محبت ہو، ہر فرد کی اہمیت اور احترام ہو۔ شکر گزاری اور قدر رانی ہو۔ سب کی ضرورت کا خیال کیا جائے اور ذمہ داری سب کی ہو اور سارا بوجھ صرف کچھ افراد یا ایک فرد پر نہ ہو۔ مسائل آتے جاتے رہیں تو مل کر اس کو ڈیل کرنے کے راستے اختیار کرنا ممکن ہو۔
اس کے لیے یقینا آپ بھی کئی طریقے اختیار کرتے ہوں گے۔ جو بھی اچھا کام ہے ۔ جاری رکھیے۔ نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی ان شاءاللہ۔
☘️☘️ دعا ہمارا سہارا ہے اللہ سب کا مالک ہے اور انسانوں کے دل اس کی انگلیوں کی جنبش پر ہیں اور ہمارا مستقبل اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اسی پر بھروسہ اور اسی سے استعانت طلب کرتے رہنا۔
یہ ایک خوشگوار سفر ہے اس کو بوجھل نہ بنائیں۔
ایک تبصرہ برائے “اچھاخاندان کیسا ہوتا ہے؟”
وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ایسی اچھی تحریریں زیادہ سے زیادہ لکھی اور شئیر کی جائیں۔