بل گیٹس

کورونا وائرس سے متعدد امریکی پہلے سے باخبر تھے، کیسے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جویریہ خان:

سب سے پہلے یہ پڑھیے:

کورونا:1981ء میں شائع ہونے والے ناول نے کیسے کی پیش گوئی؟

بوڑھی اماں نے11 سال پہلے کیسے کی پیش گوئی کورونا وائرس کی؟

فلم، ڈرامہ، کارٹون سیریز اور کورونا وائرس

ہم نے سابقہ بلاگز میں دو مصنفوں کی تصانیف، ایک فلم، ایک ڈرامہ اور ایک کارٹون سیریز کا ذکر کیا تھا کہ انھوں نے کورونا وائرس کی آمد سے کئی برس قبل کورونا وائرس کے آنے کی پیش گوئی تھی۔ آئیے! اب چند اہم ترین شخصیات کی بات کرتے ہیں جنھوں نے بہت پہلے کورونا وبا کے آنے کی نہ صرف خبر دی بلکہ اپنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ اس وبا کا مقابلہ کرنے کی پیشگی تیاری نہیں کررہی ۔

یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ تقریباً یہ سب ہی شخصیات امریکا سے تعلق رکھتی ہیں۔ان میں سے ایک مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس ہیں۔ 2015ء میں بل گیٹس نے ایک کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ اگر دنیا میں فلو جیسی کوئی عالمی وبا پھوٹتی ہے تو ورلڈ بنک کے مطابق دنیا تین کھرب ڈالرز کا نقصان اٹھائے گی اور لاکھوں افراد ہلاک ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ دنیا اس بیماری کے لئے تیار نہیں ہے۔ 2018ء میں میساچوسٹس میڈیکل سوسائٹی کی ایک تقریب میں انھوں نے کہا کہ اگلے عشرے میں دنیا میں مختلف وبائیں پھوٹ سکتی ہیں۔

بل گیٹس نے کہا کہ 2018ء میں پھوٹنے والی فلو جیسی بیماری جس میں پچاس ملین لوگ ہلاک ہوئے تھے، جیسی وبا پھوٹ سکتی ہے، ممکن ہے کہ چھ ماہ می 30 ملین افراد ہلاک ہوجائیں۔انھوں نے کہاتھا، ہوسکتاہے کہ یہ قدرتی بیماری ہو یا پھر ’ویپنائزڈ ڈیزیز‘ ہو۔ حیاتیاتی جنگوں کے لئے جس تیاری کی ضرورت ہے، وہ نظر نہیں آرہی ہے۔

”دنیا کو ان وباؤں کا مقابلہ کرنے کے لئے اسی طرح سنجیدگی سے تیاری کرنا ہوگی جیسے جنگ کے لئے کی جاتی ہے“۔

متعدی امراض کے ماہر مائیکل آسٹرہوم نے2017ء میں”Deadliest Enemy: Our War Against Killer Germs.” کے نام سے ایک کتاب لکھی، جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ امریکا نے وباء کا مقابلہ کرنے کے لئے مناسب تیاری نہیں کی۔

اس سے پہلے 2005ء میں انھوں نے کہاتھا کہ تاریخ کا سنگین مرحلہ شروع ہوچکا ہے، آنے والی وبا کے لئے تیاری کا وقت نکلا جارہاہے، اب ہمیں فیصلہ کن اور بامقصد کام کرنے ہوں گے۔

وائرلوجسٹ اور فلو ایکسپرٹ رابرٹ جی ویبسٹر نے بھی اپنی ایک کتاب”Flu Hunter: Unlocking the secrets of a virus,” میں پیش گوئی کی تھی، انھوں نے اس سوال کا جواب’ہاں‘ میں دیاتھا کہ کیا دنیا کو تہہ وبالا کرنے والی وبا آسکتی ہے؟ اور کہاتھا کہ امکان کی بات ہی نہیں ہے، بس! صرف اس وقت کا انتظار کرو۔انھوں نے لکھا تھا کہ فلو جیسی وبا آئے گی، جسے قابو کرنے تک لاکھوں افراد ہلاک ہوجائیں گے۔

2018ء میں ایک امریکی انٹیلی جنس ٹیم نے بھی ایک جراثیم سے خبردار کیا تھا جو آسانی سے انسانوں میں منتقل ہوسکتا ہے اور اسے ایک بہت بڑا خطرہ قراردیاتھا۔ جنوری2019کے آخری دنوں میں ایک بار پھر انٹیلی جنس ٹیم نے کہا تھا کہ فلو کی وبا پھوٹنے والی ہے جس میں بڑی تعداد میں لوگ مارے جائیں گے، عدم استحکام پیدا ہوگا، عالمی معیشت کو شدید نقصان اٹھانا پڑے گا، عالمی وسائل میں سخت کمی واقع ہوجائے گی ، امریکا سے بڑے پیمانے پر امداد کی اپیلیں کی جائیں گی۔

سابق امریکی صدر اوباما کے دور میں یو ایس ایڈ کے’آفس آف یو ایس فارن ڈیزاسٹر اسیسٹنس‘ کے ڈائریکٹر جرمنی کونینڈیک نے2017ء میں ایک مضمون لکھا جس میں پیش گوئی کی تھی کہ 1918ء کے سپینش فلو( جس میں ایک تہائی دنیا متاثرہوئی تھی، 50 سے 100ملین افراد ہلاک ہوئے تھے) جیسی وبا پھوٹنے والی ہے۔ یہ صحت کا عالمی بحران ہوگا۔ سوال یہ نہیں ہے کہ آئے گا یا نہیں، سوال صرف یہ ہے کہ کب آئے گا۔انھوں نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ نے اس وبا کے لئے کوئی تیاری نہیں کی۔

وائٹ ہاؤس نیشنل سیکورٹی کونسل کی سابق رکن ڈاکٹرلوسیانا بوریو نے2018ء میں فلو کی وبا سے خبردار کیاتھا اور اسے سب سے بڑا خطرہ قراردیا تھا۔انھوں نے کہاتھا: ’’کیا ہم نے اس کی تیاری کی ہے؟ مجھے خدشہ ہے کہ اس کا جواب ہوگا:’’ نہیں۔‘‘

2006ء میں فلوپینڈیمک پریپیرڈنس پلان میں ماہرین نے پیش گوئی کی تھی کہ چالیس لاکھ بیمار ہوسکتے ہیں، انھوں نے کہا تھا کہ دس لاکھ لوگوں کا ہسپتالوں سے باہر علاج کرنا ہوگا، 80 ہزار مریضوں کا ہسپتالوں میں علاج ہوگا، 20ہزار ہلاک ہوسکتے ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ کورونا وائرس کی پیش گوئیاں کرنے والے قریباً تمام افراد ہی امریکی ہیں۔ دنیا میں کسی دوسری قوم کے افراد کو یہ وبا آتے ہوئے محسوس نہ ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ ان امریکیوں کو کیسے خبر ہوئی کہ بہت بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والی ایک وبا آئے گی جو ’فلو ‘ہوگی اور 1918ء میں آنے والی وبا جیسی ہوگی؟ یہ تمام شخصیات اس سوال کا جواب دینے سے انکاری ہیں۔

فلم ’’کونٹیجئین‘‘ کے مصنف سکاٹ زیڈ برنز سے جب پوچھاگیا کہ کورونا وائرس اور آپ کی فلم میں دکھائی جانے والی بیماری کے درمیان مماثلت کیسے ہوگئی؟ انھوں نے بات کا رخ موڑتے ہوئے کہا کہ یہ بات اس قدر اہم نہیں ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ جیسا کہ بل گیٹس نے ایک اشارہ دیا کہ ممکن ہے کہ آنے والی وبا ویپنائزڈبیماری ہو۔

وہ شاید براہ راست ’بائیولوجیکل وارفیر‘ کا لفظ استعمال نہیں کرناچاہ رہے تھے۔ اگرایسا ہے ، جیسا کہ اشارے مل رہے ہیں اور ایک بڑی طاقت کی طرف سے اپنے مخالف دو ممالک کے خلاف یہ بائیولوجیکل ہتھیار استعمال کیے جانے کا تاثر مضبوط ہورہاہے۔ چین کی طرف سے باقاعدہ امریکا کی طرف واضح اشارہ دیاجاچکاہے۔

چینی وزارت خارجہ کے نوجوان ترجمان لی جیان ژاؤ نے کہا تھا کہ ’ بہت حد تک ممکن ہے کہ کورونا وائرس کو امریکی فوجی چینی شہر ووہان میں لائے ہوں۔‘ انھوں نے صاف انکار کیا کہ یہ وائرس ووہان میں پیدا نہیں ہوا۔اسی طرح چین کے انفیکشن ڈیزیزز کے معروف ماہر زونگ نانشان کا کہناہے کہ اگرچہ کورونا وائرس کا پہلا شکار چینی باشندہ ہوا ہے لیکن اس وائرس نے چین میں جنم نہیں لیا۔

چینی کمیونسٹ پارٹی کے اخبار’ گلوبل ٹائمز‘ نے لکھاتھا کہ کورونا وائرس امریکا میں پہلے سے موجود تھا، 2019ء میں 37 ہزار افراد اس سے متاثر ہوکر ہلاک ہوئے لیکن امریکی ماہرین ان کے مرض کی درست تشخیص کرنے میں ناکام رہے تھے۔ دوسری طرف چین سمیت دنیا کے بعض حصوں میں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ کورونا وائرس امریکا کا چین پر بائیالوجیکل حملہ ہے۔

یہ منصوبہ برسوں پہلے تیار ہوا اور طے کیا گیا کہ یہ وائرس ’ووہان‘ میں لے جا کر کھولنا ہے۔ امریکی اپنے منصوبے میں کامیاب ہوگئے۔ چین میں یہ کہانی عام ہوچکی ہے کہ اکتوبر 2019ء میں ووہان میں ساتویں ملٹری ورلڈ گیمز ہوئیں، جس میں شرکت کے لیےامریکا سے300 فوجی کھلاڑی آئے۔ وہی یہ وائرس لے کر آئے تھے۔ یہ کہانی بھی عام ہورہی ہے کہ چین میں امریکی سفارت خانے سے وائرس کی ٹیوبیں پکڑی گئی تھیں۔ اور امریکا میں جو وائرس پھیلا، وہ ’جوابی وار‘ کا نتیجہ ہے جبکہ بعض لوگوں کا کہناہے کہ بائیالوجیکل جنگ پہلے سے جاری تھی، بس! دسمبر2019 میں دنیا پر آشکار ہوئی۔

کورونا وائرس بائیالوجیکل جنگ ہے یا نہیں؟
اس حوالے سے قطعی فیصلہ کہیں سے نہیں آئے گا۔ بدقسمتی سے دنیا میں کوئی ایسا ادارہ بھی نہیں جو اس کے درست نتیجے پر پہنچنے کے لئے صاف و شفاف، آزادانہ تحقیقات کرسکے۔ ہر عالمی ادارہ کمزور ہے اور بعض عالمی طاقتوں کے زیر اثر ہے۔ ایسے میں سازشی تھیوریز دنیا پر غلبہ قائم کیے رکھیں گی۔ ویسے بھی ایک دوسرے کے خلاف خفیہ جنگیں نوٹیفکیشن جاری کرکے شروع نہیں ہوتیں۔

اگر کورونا وائرس کوئی بائیالوجیکل ہتھیار ہے تو یہ بہت بڑی بدقسمتی ہوگی کہ اب مختلف ملکوں کی حکومتیں ایک دوسرے کی افواج کی بجائے عوام کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ تاریخ انسانی کے اس مرحلے پر اقوام کو اپنے بچاؤ کی خاطر اٹھ کھڑے ہونا چاہئے، وہ دنیا میں ایک ایسا نظام قائم کرنے پر زور دیں جہاں کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار استعمال نہ کئے جائیں۔

جو ملک بھی ایسا کرے، باقی پوری دنیا مل کر اس کا مکمل بائیکاٹ کرے۔ ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کو یہ تجویز معصومانہ لگے لیکن ایسا کرنا ہی پڑے گا، صرف اسی صورت میں پوری دنیا کے انسان زندہ رہ سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے، کیا یہ عقل مندی ہے کہ اقوام ایک دوسرے کو ختم کرکے اس دنیا کو خالی کردیں؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں