مسلمان ماں بیٹا کو تنبیہہ کرتے ہوئے

بچوں کی تربیت، ایک اہم ترین نصیحت کو نظرانداز نہ کریں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹرجویریہ سعید :

بچوں کی تربیت کے لیے نرمی، محبت اور اعتماد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط اور آداب سکھانے کو مناسب سختی بھی ضروری ہے۔
مگر اس سختی کا کیا مطلب ہے؟

چیخنا چلانا؟ مارنا پیٹنا؟ طعنے دینا؟ چیزوں سے بزور روکنا اور بلاچوں چراں بات ماننے کا مطالبہ کرنا؟
یا پھر اس کا مطلب ہے کہ صحت مند زندگی کے طریقوں کے لیے حدود کا تعین کرنا اور ان کی پابندی کروانے کے لیے سنجیدہ کوشش کرنا۔

مثلاً بچہ بڑے کے ساتھ بدتمیزی کرتا ہے، یا کسی چیز کے لیے بلاوجہ ضد کرتا ہے یا کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے لیے اس کا نشہ سا ٹوٹنے لگے یا مار دھاڑ اور توڑ پھوڑ کرتا ہے تو آپ سنجیدہ ہوجائیں۔ اسے بتائیں کہ یہ غلط ہے اور اگر وہ یہ رویہ اختیار کرے گا تو ناصرف یہ کہ اس کی بات نہیں سنی جائے گی بلکہ اسے معافی بھی مانگی ہو گی۔

اگر بچہ سننے کو تیار نہ ہو تو اسے بالکل نظر انداز کیا جائے۔ اس وقت جواباً چلایا نہ جائے بلکہ بہت سنجیدہ اور خفا لہجے میں ٹھنڈے طریقے سے کہا جائے کہ اس وقت آپ سے بات نہیں ہوسکتی۔ جب آپ آرام سے بات کرسکتے ہوں تو آپ کی بات سنی جائے گی۔ اگر وہ توڑ پھوڑ اور مار دھاڑ کرے تو اسے ایک کونے میں یا کسی کمرے میں بھیجا جائے کہ آپ ابھی یہاں رہیں۔
اس پر سختی سے عمل کرنا بہت ضروری ہے۔

جو چیزیں مفید ہیں ان کی اجازت بھی دینی چاہیے اور اچھے عمل کر حوصلہ افزائی بھی ضرور کی جائے۔

بچے کو یہ ضرور بتایا جائے کہ اس کے ساتھ سختی سے کیوں پیش آیا گیا ۔

آپ کو بلاشبہ یہ یقین ہو کہ آپ نے درست بات پر ٹوکا اور بچے کو باور بھی کروایا لیکن چھوٹی عمر، پری ٹین اور ٹین ایج میں بچوں کا ذہن صحیح اور غلط کا وہ تصور نہیں رکھتا جو آپ رکھتے ہیں۔ مثلاً ٹافی اور جنک فوڈ کھانا، بہن بھائیوں سے لڑنا، گھر کی کوئی چیز خراب کردینا، ابا کی گاڑی لے کر بھاگ لینا، نماز اور تلاوت کی اہمیت، رات کو کسی کے گھر رکنے اور تادیر گھر سے باہر رہنے کے خدشات، نے نئے کھلونوں اور فرمائشیں کیوں پوری نہیں کسی جاسکتیں وغیرہ

ان کو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ مجھے اس لیے ڈانٹا گیا یا منع کیا گیا کیونکہ بڑوں کو یہ پسند نہیں۔
مثلا۔ ٹافی کھانے میں کیا برائی ہے؟

بھائی سے تو میں بات کررہا تھا اور اس نے میری بات نہیں سنی۔
یا بہن کو روکنا بھی ضروری ہے۔
میں تو کھیل رہا تھا میں نے جان بوجھ کر تو نہیں توڑا۔

ان کا ذہن نقصان کے magnitude اور کیفیت کا اندازہ نہیں کر پاتا کیونکہ ان کا اس چیز سے تعلق اور تجربہ مختلف نوعیت کا ہے۔

اگر اکثر ڈانٹا ،مارا جاتا رہے اور روک ٹوک رہے تو بچے آہستہ آہستہ یہ سوچ ڈیویلپ کرتے ہیں کہ ان پر ظلم ہوتا رہا۔ بڑوں کو یہ پسند نہ تھا اس لیے یہ غلط کام ہے۔ اس لیے ان کو یہ بتانا ضروری ہے کہ سختی یا اجازت نہ دینے کہ وجہ کیا تھی۔

یہ مکالمہ معاملہ ٹھنڈا ہونے کے بعد مناسب انداز میں کیا جائے۔ معذرت خواہانہ انداز یا سخت انداز دونوں ہی غیر مناسب ہیں۔

مثلاً ابتدا میں سوال کریں:
آج آپ کو ڈانٹ پڑی تھی، برا لگا تھا؟

بچے کی سنیں ، اس کو کیسا محسوس ہوا، ہمدردی کریں ۔
پھر آپ کو کیا محسوس ہوا آپ کو امی نے کیوں ڈانٹا؟
ضرور سنیں کہ بچہ کیا سمجھتا ہے۔

پھر آرام سے اس کو اپنا نقطہ نظر بتائیں۔
پوچھ سکتے ہیں کہ اصل میں کیا ہوا تھا۔
کس کی کتنی غلطی تھی۔
جو غلطی نہیں تھی اس پر کھلے دل سے کہیں کہ واقعی یہ تو آپ کی بات درست ہے۔
جو تھی اس پر کہیں کہ اس میں یہ غلط تھا۔

پھر اس پر بات ہو کہ اگر نہ روکا جائے تو ایسے رویے کی تکرار سے کیا نتائج ہوں گے۔
آئندہ بچہ کیا کرے گا۔
آپ کس بات سے خوش ہوئیں
آگے کس بات کی اجازت ہوگی۔
پھر پیار محبت سے گفتگو سمیٹ لی جائے۔

یہ پریکٹس ہر مرتبہ کرنے کی ضرورت نہیں مگر ہر نئے معاملے پر ضرور کی جائے اور کوئی معاملہ بار بار ہوتا ہو تب کی جائے۔

روکے جانے والی باتوں کے علاوہ بچوں کو ان باتوں کی یاددہانی اور وضاحت بھی ضروری ہے جن کی اجازت دی جاتی ہے۔
کیونکہ ان کا ذہن اس پر اٹک جاتا ہے کہ
”ہر چیز سے منع کردیتی ہیں“
”کچھ نہیں خرید کر دیتیں۔“
”ہر بات پر ڈانٹتی ہیں۔“
”صرف مجھے ڈانٹتی ہیں۔“

اگر ایسا واقعی ہے تو یہ آپ کے لیے تشویش کی بات ہے۔ آپ اپنا جائزہ لیں اور اصلاح کریں ۔
اور اگر یہ محض عالم رنج میں Tunnel vision کی وجہ سے ہے تو اس کے برعکس حقائق کی وضاحت اور یادہانی ایسے ہو کہ بچہ شرما کر تسلیم کر لے۔ یعنی سرنڈر کرنے کی کیفیت آپ نوٹ کریں ۔ زبردستی نہ ہو بلکہ ان کے اندر سے تائید نظر آتی ہو۔

ہم اپنے بچوں کو اکثر کہا کرتے تھے :
”جن بچوں کے امی ابو غلط بات پر ان کی پٹائی نہیں لگاتے،
ان کو یا باہر والے یا پولیس مارتی ہے۔
جن بچوں کو گھر میں ڈانٹ نہیں پڑتی یا منع نہیں کیا جاتا۔
ان کو باہر والے برا بھلا کہتے ہیں۔“
اس لیے آپ یہاں یہ اچھی بات سیکھ لیں اور اس بری بات سے رک جائیں تاکہ باہر والے کہیں کہ یہ کتنا اچھا بچہ ہے۔

ہماری اس برین واشنگ کا اثر یہ تھا کہ ہماری شاہزادی اور شاہزادے اپنی سہیلیوں اور دوستوں کو ڈانٹ پڑنے پر سمجھاتے ہوئے آنکھیں پھیلا کر کہا کرتے تھے:

”ڈانٹنا بھی مما کا ایک کام ہوتا ہے، جیسے کھانا پکانا، خیال رکھنا، گھر صاف کرنا۔ اگر مما نہیں ڈانٹیں گی تو ان کا کام پھر کون کرے گا۔“


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں