صحرائے تھر

دشت احساس میں اب پیاس کا عالم مت پوچھ (روداد سفر صحرائے تھر)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

حمنہ عمر: عمرکوٹ سندھ/

صحرائے تھر سندھ کا مشہور صحرا، اس صحرا میں بسنے والوں کے مصائب کا تذکرہ تو تقریباً ہر سال ہی سننے کو ملتا ہے۔ ایک سی کہانی بار بار کردار بدل بدل کر سامنے آتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ یہاں کے نومولود بچے ماؤں کی غذائی قلت کی وجہ سے پیدائش کے فوراً بعد ہی اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں۔

قحط سالی ہوتی ہے تو انسان تو انسان بے زبان جانور تک بھوکے مرنے لگتے ہیں۔ لوگ میلوں چل کر اپنے لیے ندی، نالوں سے پینے کا پانی گھر لاتے ہیں۔ بنیادی ضروریات زندگی نہ ہونے کے برابر، طبی سہولیات کا شدید فقدان لیکن مٹی کی محبت ہے کہ یہاں کے لوگ تمام تر مشکلات کے باوجود یہیں رہتے ہیں اور زندہ رہنے کی تگ و دو کرتے ہیں۔

صحرائے تھر

یہ تمام واقعات یوں تو ہر فرد کے علم میں ہیں لیکن اس بار طے پایا کہ الخدمت کے کاروان میں شامل ہوکر صحرائے تھر جایا جائے اور وہاں کے مکینوں کو انسانیت اور محبت کا پیغام دیا جائے کہ تم اکیلے نہیں۔

تھر جانے کا حتمی فیصلہ ہوا اور طے پایا کہ اس سفر میں، مومل، ابرش، مریم، عبدالوہاب ،معاذ، عبداللہ، سعود خالدبھائی اور منصوری صاحب ہمراہ ہوں گے۔

روانگی کے وقت خالد بھائی نے اطلاع دی کہ صحرائی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہ سفر بولان میں نہیں جیپ سے کیا جائے گا کیونکہ ریتیلے میدانوں میں سفر کے لیے یہی موزوں ترین سواری ہے۔ میں تو اس سواری سے یوں بھی خوش تھی کہ بند گاڑی میں سفر کے دوران مجھے ہمیشہ اے سی بند کروانا پڑتا ہے کیونکہ بند گاڑی میں اگر اے سی چل رہا ہو مجھے متلی کی شکایت رہتی ہے۔

محمون نگار ایک صحرائی گھر میں

بہر حال ایک روز محبتیں بانٹنے کے اس سفر پر ہم شاداں و فرحاں صبح 11:00 بجے عمر کوٹ سے ایک انجان لیکن رومانوی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک ایسی منزل جہاں کے انسان پانی کی پیاس کے ساتھ ساتھ انسانوں کی توجہ ، ہمدردی ، اپنائیت اور محبت کے بھی پیاسے ہیں۔

راستے میں جمیل راجڑ، مارُوہر، ڈاترو میگھواڑ،حسین ڈاترو، لکھمیر کی ڈہانی، سمیجو پاڑہ اور بجیر محلہ میں ہمارا پڑاؤ رہا۔ کچے پکے راستوں پر دوڑتی جیپ سے گردوپیش کا ہر منظر انتہائی سہانا لگ رہا تھا۔ دور تک پھیلے ریت کا سمندر، کہیں کہیں ذرا ذرا سی ہریالی، اونٹوں، گائیوں، بکریوں کے ریوڑ، دھوپ سے تپتے امید بھرے چہرے، پر کھولے ناچتے مور، مٹی کے اونچے ٹیلے الغرض ہر منظر گویا ذہن میں نقش ہونے والا منظر تھا۔

تھر پہنچ کر خدمت کے احساس نے ایک نئی ہمت سی دی، سنا بہت تھا لیکن کبھی گئی نہیں تھی۔ پھر ”الخدمت“ نے ”خود نعمت“ بننے کا موقع فراہم کر دیا۔ ابو کی زندگی میں جب سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان صاحب ہمارے گھر ہمارے مہمان بنے تھے تو ہم بچے انھیں ایک ”دیوتا“ سمجھ کر مسلسل دیکھے جاتے تھے۔ ان کے بارے میں تفصیل پھر کبھی سہی۔

صحرائے تھر میں انسانوں اور حیوانوں کے لئے زندگی ایسی ہی ہے

تھر کی کشش تھی کہ ہم بڑھتے چلتے گئے، سورج دن بھر آگ برسا برسا تھک گیا مگر ہم رُکے نہیں، تھمے نہیں، کہ معرکہ تھے تیز تر۔ مجھے لگتا تھا کہ میرے اللہ جی نے اس آگ کو میرے لئے گلزار بنا دیا ہے۔ محبت کا جذبہ اور ٹھنڈا پانی تو ہم ساتھ لے گئے تھے، پسینہ ایک اضافی نعمت بنا جو لُو چلنے پر ماحول ایئر کنڈیشنڈ بنا دیتا تھا۔

جوتے بند پہنے تھے کہ کوئی کیڑا مکوڑا بچھو تنگ نہ کرے مگر کپڑے کے یہ جوتے بھی کمال کے رہے، ریت کو سنگ مرمر بنا ڈالا ۔ پھسلتے جاتے تھے، پھر لوگوں کی حیرت اور محبت بھی ساتھ دے رہی تھی۔ اللہ کرے کہ یہ مشقت، یہ قدم، یہ سفر، یہ پسینہ، گواہ بن کر معافی دلا دیں اس مہربان سے۔

مضمون نگار لنچ باکس اور منرل واٹر تقسیم کررہی ہیں

مجھے پیاس بہت لگی مگر گرمی نہیں۔ اور شاید ہی میں اپنی زندگی میں ایک دن میں اتنا پانی پیا ہو۔ ہندو یا مسلم کا تو سوچا بھی نہیں، بلاتفریق مذہب، رنگ و نسل فی الوقت مقصد صرف خدمت تھا۔ بس! صرف انسانیت کے لیے کام کرنا تھا۔

ہم نے پڑھا تو نہیں بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے دسترخوان پر جب ایک غیر اللہ کو ماننے والا بیٹھا تو آپ علیہ السلام کو ناگوار گزرا، تو پھر اللہ نے رہنمائی کردی کہ جس اللہ کی وہ عبادت نہیں کرتے وہ تو انہیں روز ہی کِھلاتا پلاتا ہے، تم بھی دل اور دسترخوان بڑا کرو۔

تھر کے لوگ انتہائی ملنسار اور محبت کی مٹی میں گندھے ہوئے لوگ ہیں۔ یہاں کچھ نو بیاہتا جوڑوں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے سادگی سے مزئین گھروں اور کمروں کو دیکھ کر بےساختہ ان کے ذوق اور نزاکت کو داد دیتی رہی۔

تھر، خوابوں کی وادی میں جب لوگوں سے ان کے مسائل جاننے کی کوشش کی تو ہر زبان سے یہ سننے کو ملا کہ کھانے کی اشیاء کے بغیر تو پھر بھی ہم گزارا کرلیں گے لیکن پانی کے بغیر کوئی کیسے جی سکتا ہے۔ نم آنکھوں کے ساتھ یہاں کے لوگ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے مال مویشی، پرندوں اور دیگر ذی روح اجسام کے لیے بھی پانی کا مطالبہ دہراتے رہے۔

تھر کے لوگوں کے لئے چکن بریانی کے پیکٹ تیار کئے گئے

تھر کے پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ”الخدمت فائونڈیشن“ نے سینکڑوں کنوئیں کھدوائے ہیں لیکن اس وسیع وعریض صحرا اور اس کے باسیوں کی پیاس کنوؤں سے بجھانا ممکن نہیں کہ یہاں تو ایک بڑی کینال کی ضرورت ہے لیکن کینال ممکن کیسے ہوگی !!

یہاں کے لوگ اس بات کی گواہی دیئے جاتے ہیں کہ سندھ سرکار کے منتخب نمائندوں کو تھر کے افراد صرف اس وقت یاد آتے ہیں جب ان سے ووٹ لینا مقصود ہوتا ہے۔ ان کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ایوانوں میں جانے کے بعد اپنا ہر عہد، ہر وعدہ بھول جاتے ہیں اور دوبارہ ان کٹھن رستوں پر پلٹ کر صرف خبرگیری کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔

منتخب نمائندوں کی طرح آرمی کے اہلکار بھی آتے ہیں، علاقوں کا مکمل ڈیٹا لے جاتے ہیں اور ہر بار ترقیاتی کاموں اور بجٹ میں خصوصی رقم کی امید دلاتے ہیں لیکن ان کی دلائی گئی امید بھی صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے۔ عشروں بعد بھی صحرائے تھر کے لوگ پانی کی بوند کے لیے ترستے ہی رہتے ہیں۔

مضمون نگار لنچ باکس اور منرل واٹر تقسیم کررہی ہیں

میں سمجھتی ہوں کہ ان سادہ لوح افراد کا دل موہ لینا کتنا آسان ہے جو آپ سے بہت زیادہ کا مطالبہ نہیں کر رہے بلکہ زندہ رہنے کے لیے صاف پانی چاہتے ہیں۔

ریاستی اداروں اور منتخب نمائندوں کا تھر کے مسائل سے چشم پوشی کرنا ایک مجرمانہ روش ہے۔

یہ تو محض ایک پسماندہ اور توجہ سے محروم علاقہ ہے، میری ”جماعت اسلامی“ تو پورے ملک میں بغیر اقتدار کے بھی کام کر ہی رہی ہے۔ اللہ ہمارے ذریعہ تھر کی حالت بدل دے، حکمرانوں سمیت سب کو ہدایت دے کہ اس موقع کو اپرچونیٹی سمجھیں جنت کمانے کی۔ جھوٹے سچے اکائونٹوں کی سب کمائیاں تو بنکوں میں پڑی رہ جائیں گی، ساتھ وہ کمائی جائے گی جو گوٹھوں کے غریب دعا کی صورت دیں گے۔

تھر کے لوگوں کے لئے چکن بریانی کے پیکٹ تیار کئے گئے

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس دھرتی کی پیاس بجھے اور آئندہ جب میں آؤں تو اس کی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ یہاں پانی کی فروانی بھی دیکھنے کو ملے۔ آمین

آج تھر کے لوگ ہمارے منتظر ہیں، کیا ہم ان کی مدد کو نہیں جائیں گے؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں