پاکستانی نژاد برطانوی مسلمان خاتون رفیعہ ارشد نے برطانیہ کی تاریخ میں پہلی باحجاب جج بننے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے۔ وہ دنیا بھر کی چند ایک باحجاب ججز میں ایک نیا اضافہ ہیں۔ چالیس سالہ رفیعہ ارشد کو گزشتہ ہفتے مڈلینڈ سرکٹ میں جج تعینات کیا گیا ہے۔ وہ ناٹنگھم میں سینٹ میری چیمبرز کی رکن ہیں۔
ویسٹ یارک شائر کے ایک گرامر سکول میں تعلیم حاصل کرنے والی رفیعہ ارشد اپنے خاندان کی پہلی فرد ہیں جس نے یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کی۔
تین بچوں کی ماں 17 برس سے زیادہ عرصہ تک فیملی لا کی وکیل رہ چکی ہیں۔ وہ ایک کتاب بہ عنوان ” اسلامک فیملی لا“ کی مصنفہ ہیں۔ رفیعہ ارشد کا کہنا ہے کہ میری یہ کامیابی محض ایک خاتون کی نہیں بلکہ ایک مسلمان خاتون کی کامیابی ہے۔ یہاں پہنچنے میں کچھ وقت لگا ہے پر مجھے بہت خوشی ہے۔
جج رفیعہ ارشد کا کہنا ہے کہ انھوں نے سماج میں غلط العام رویوں کو مسترد کیا ہے، جس طرح زیادہ تر لوگ یہ سوچتے ہیں کہ جج ایک مخصوص انداز میں نظر آتے ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہیں کہ کسی بھی شعبے سے قطع نظر وہ ’اپنے ارادے بلند رکھیں۔‘
’یہ فکر نہ کریں کہ آپ کیسے دکھتے ہیں۔ یہ فکر نہ کریں کہ آیا آپ موجودہ ڈھانچے کے اندر سما سکیں گے۔ اس ڈھانچے کو مسترد کریں اور وہ کریں جو آپ اصل میں کرنا چاہتے ہیں۔‘
جج رفیعہ ارشد کا کہنا ہے کہ عدالتیں اور تعیناتی کا کمیشن اپنی صلاحیت کے مطابق کام کر رہے ہیں لیکن عدالتی نظام میں مختلف پس منظر سے آنے والے لوگوں کی کمی ہے۔
رفیعہ کے شوہر ڈاکٹر اور عالم دین ہیں۔ رفیعہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے خاوند کی مقروض ہیں جنھوں نے ان کی بے حد مدد کی اور انھیں موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے شوق سے کام کر سکیں۔‘
انہوں نے اخبار کو بتایا، ’مجھے لوگوں، خواتین اور مردوں کی طرف سے بہت سی ای میلز موصول ہوئی ہیں۔ سب سے زیادہ توجہ اپنی طرف مبذول کرنے والی ای میلز ان خواتین کی طرف سے ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ حجاب پہنتی ہیں اور یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ وہ بیرسٹر کے طور پر بھی کام کرسکتی ہیں جج بننا تو دور کی بات تھی۔‘
لیکن ان کا کہنا ہے کہ اچھے کام اور تجربے کے باوجود انہیں امتیازی سلوک اور تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کیسے بعض اوقات کمرہ عدالت میں انہیں مؤکل یا مترجم سمجھا جاتا ہے۔ ایک عدالتی گائیڈ نے بھی انہیں یہی سمجھا۔
مس رفیعہ نے کہا: ’مجھے اس عدالتی گائیڈ سے کوئی پریشانی نہیں ہے لیکن یہ دراصل ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور وہ بھی اس شخص کے بارے میں جو عدالت میں کام کرتا ہے۔ اس میں پیشہ ور افراد سے توقع نہیں کی جاتی ہے کہ وہ میرے جیسے نظر آئیں۔ میری رائے میں امپوسٹر سینڈروم ان عوامل میں سے ایک ہے جو خواتین کو روکتا ہے۔ میں نے متعدد بار کمرہ عدالت میں خود سے پوچھا ہے کہ کیا میں اتنی اہل ہوں۔‘
سینٹ میری چیمبرز کے مشترکہ سربراہان ویکی ہاجز اور جوڈی کلیکسٹن نے کہا ہے کہ انھوں نے اس اقدام سے مسلمان خواتین کی قانون کے شعبے میں کامیابی کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ وہ اس تعیناتی پر خوش ہیں جو میرٹ کے عین مطابق ہے اور رفیعہ ارشد مستحق امیدوار تھیں۔