عبیداللہ عابد:
ترک ڈرامہ ”ارطغرل غازی“ کے ” پی ٹی وی“ سے دکھائے جانے کی مخالفت میں بیان دینے والے چند اداکاروں کے بارے میں عجب تاثر پیدا ہوا ہے۔ پہلے ان کے اعتراضات کا خلاصہ پڑھ لیں، اس کے بعد دیکھیں کہ ان کے بارے میں آپ کے ذہن میں کیا تاثر قائم ہوا ہے۔
کہا گیا کہ پاکستان کا سرکاری ٹیلی ویژن یہ ڈرامہ کیوں دکھائے؟
کہاگیا کہ وزیراعظم عمران خان نے لوگوں کو کیوں مشورہ دیا کہ وہ ارطغرل ڈرامہ دیکھیں!
کہاگیا کہ اس طرح تو پاکستان کی رہی سہی ڈرامہ انڈسٹری ختم ہوجائے گی۔
کہا گیا کہ پاکستان کی حکومت پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی سرپرستی کرے یعنی اس کے لئے بجٹ مختص کرے۔
ارطغرل غازی کے مخالف اداکاروں ، چاہے وہ شان ہوں یا ریما خان ہوں یا پھر یاسرحسین ، ان کے بارے میں میرے ذہن میں کیا تاثر قائم ہوا، اسے بیان کرنے کے لئے مجھے ایک دکاندار کی مثال کا سہارا لینا پڑے گا جس کے پاس بیچنے کو کچھ اچھا، معیاری سامان نہیں لیکن وہ ساتھ والے دکاندار پر اعتراض کرتا ہے کہ لوگ اس کی دکان سے کیوں سودا سلف خریدتے ہیں؟ گائوں کے چودھری صاحب کیوں ساتھ والے کی دکان پر کیوں آتے ہیں؟ اس طرح تو میری دکان داری ختم ہوجائے گی۔
میرے ذہن میں تاثر ابھرتا ہے کہ وہ دکاندار اچھا سامان فروخت کے لئے پیش کرنے کے بجائے چودھری صاحب کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے کہ وہ اسے گرانٹ فراہم کیا کریں۔
”ارطغرل غازی“ کو پی ٹی وی پر دکھائے جانے کی مخالفت کرنے والوں کے موقف کو سب سے پہلے پاکستان میں ڈرامہ انڈسٹری سے وابستہ بیشتر لوگوں نے مسترد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی کے ڈراموں سے مقامی انڈسٹری کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
انڈسٹری کے لوگوں کا خیال ہے کہ پی ٹی وی کی ٹائمنگ کی وجہ سے اس ڈرامے نے شاندار بزنس کیا کیونکہ اسے لاک ڈاؤن کے دوران ماہِ رمضان میں نشر کیا گیا۔
واضح رہے کہ یکم رمضان سے ملک کے سرکاری ٹی وی چینل پاکستان ٹیلی ویژن پر ’دیریلش ارطغرل‘ نشر کرنے پر مقامی انڈسٹری کے کئی فنکار مثلاً شان شاہد، ریما اور یاسر حسین اعتراض کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ غیر ملکی ڈراموں سے مقامی انڈسٹری کو نقصان ہو گا۔
بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق نجی ٹیلیویژن چینل ’ہم ٹی وی‘ سے وابستہ ہدایت کار و اداکار سیف حسن کہتے ہیں کہ ’دو، چار ڈرامے آ جانے سے پوری انڈسٹری کو خطرہ نہیں ہو جاتا۔ ہم ہر سہ ماہی میں درجنوں ڈرامے چلاتے ہیں۔‘
فلم ’سپر سٹار‘ اور ڈرامہ سیریل ’آنگن‘ کے ہدایت کار و اداکار احتشام الدین نے عالمی ادب کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’اچھی چیز کے لیے کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ وہ اپنی جگہ خود بناتی ہے۔‘
احتشام الدین نے ذوق کا ایک مصرعہ پڑھا ’آواز خلق کو نقارہ خدا جانو‘ اور کہا کہ ’کسی سے بھی ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لوگوں کے لیے اس ڈرامے میں ایک نیا پن ہے۔ ایک ہیرو اور اسلامی سوچ والی کہانی ہے۔ رمضان کا مہینہ ہے لیکن یہ ڈرامہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ کیسے اپنے ڈرامے کو بہتر بنایا جائے۔‘
نینا کاشف ماضی میں ایک نجی چینل میں پروگرامنگ ہیڈ کے طور پر کام کرتی رہی ہیں جہاں سے غیر ملکی زبان کے ڈرامے اردو میں ڈب کر کے نشر کیے جاتے تھے۔ نینا کا خیال ہے کہ انڈسٹری کے لیے صحت مندانہ مقابلہ ضروری ہے۔
’دنیا اب ایک گلوبل ویلج ہے۔ سب چیزیں آن لائن دستیاب ہیں، چاہے وہ نیٹ فلِکس ہو، ایمازون ہو، یوٹیوب ہو یا آن لائن سٹریمنگ سروسز ہوں۔ وہاں تو پہلے ہی ترکی کا مواد موجود ہے۔‘
ڈرامہ نگار ابو راشد کہتے ہیں کہ ’کسی کو روک کر اپنے آپ کو اونچا کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ آپ اپنا قد اونچا کرنے کے بجائے سامنے والے کی ٹانگیں کیوں کاٹنا چاہتے ہیں؟ آپ دفاعی پوزیشن میں کیوں آ جاتے ہیں؟ ہمیں اپنی کہانیوں کو متنوع بنانا ہو گا۔ ہم ارطغرل جیسا پراجیکٹ تو کر ہی نہیں سکتے لیکن ہم لنچ باکس، رین کوٹ، حیات اور بلیو امبریلا جیسی فلمیں تو بنا سکتے ہیں۔‘
آزاد حیثیت میں کام کرنے والے پروڈیوسر علی قاضی نے بتایا کہ وہ نیٹ فلکس پر ’ارطغرل‘ کا چوتھا سیزن دیکھ رہے ہیں۔ میرے خیال میں تو یہ ایک خوبصورت پراجیکٹ ہے۔‘
کہانیوں میں تنوع کا فقدان
پاکستانی ڈرامے کی بیشتر کہانیاں ساس بہو کے جھگڑوں کے گرد گھومتی ہیں۔ ڈرامہ نگاروں سے لے کر ہدایت کار، پروڈیوسرز حتیٰ کہ پروڈکشن ہاؤسز بھی کہانیوں کی اس یکسانیت کا ذمہ دار چینلز کو ٹھراتے ہیں جو ان کے بقول ’ٹی آر پیز‘ کے چکر میں کسی نئی کہانی کو موقع دینے سے کتراتے ہیں۔
ٹی وی چینلز کا مؤقف ہے کہ ان کا ڈرامہ عورتیں دیکھتی ہیں اور وہ انھی کے لیے ڈرامہ بناتے ہیں۔
ڈرامہ نگار ابو راشد کہتے ہیں ’کہانیوں پر کام کرنے کے لیے ڈرامہ نگار کو آزادی نہیں دی گئی۔ سکرپٹ سونگھ کے بتاتے ہیں کہ یہ چلے گا یا نہیں چلے گا۔‘
پروڈیوسر علی قاضی کے بقول ’ہماری انڈسٹری میں ایسے قابل لوگ موجود ہیں جو پیریڈ ڈرامے بنا سکتے ہیں لیکن فقدان چینل کی طرف سے ہے جو اس طرح کی کہانیوں پر یقین ہی نہیں کرتے۔‘
انڈسٹری میں سب متفق ہیں کہ ڈرامے کی کہانیوں کو گھروں سے باہر نکالنا ہو گا۔
ڈرامہ سیریل ’عہدِ وفا‘ اور ’سنگِ مرمر‘ کے ہدایت کار سیفِ حسن کہتے ہیں کہ ’اچھے ڈرامے کا دارومدار اس کی کہانی پر ہوتا ہے اور کم بجٹ میں منفرد کہانیاں تخلیق کی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح ہم نے سٹار پلس کے ڈراموں کو شکست دی۔‘
لیکن ڈرامہ نگار ابو راشد کہتے ہیں کہ ’یہاں ایسا ڈرامہ لکھا جائے تو کہا جاتا ہے کہ بھئی اسے کون دیکھے گا؟‘
محدود بجٹ
پاکستان میں ڈرامے کے ماہرین کا خیال ہے کہ اچھی کہانی تخلیق بھی ہو جائیں تو انھیں بنانے میں بجٹ ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
علی قاضی کہتے ہیں ’ہم ابھی بھی بہت سستا ڈرامہ بناتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری مارکیٹ بہت چھوٹی ہے۔ ہمارے پاس وہ بجٹ ہی نہیں کہ جو اتنے مہنگے پیریڈ ڈرامہ تیار کر سکیں۔‘
ابو راشد نے کہا ’ترکی کے ڈراموں کو 53 ممالک میں فروخت کیا جاتا ہے۔ اُن کے ڈرامے کی ایک قسط کی لاگت ڈیڑھ، پونے دو کروڑ ہے۔ آب آپ بتائیے، اتنے بجٹ میں پاکستان میں فلم بن جاتی ہے۔ تو آپ کیسے مقابلہ کریں گے؟ اگر آپ دو کروڑ کی ایک قسط بنا بھی لیتے ہیں تو اسے کہاں بیچیں گے؟‘
سیف حسن نے بتایا ’ترکی اور انڈیا کے ڈراموں کے بجٹ اور ہمارے بجٹ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہم محدود وسائل میں بھی بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ اس میں اے پلس، اے اور بی کیٹیگری کے ڈرامے بھی بنتے ہیں۔‘
ایسا نہیں ہے کہ گذشتہ 10، 15 برسوں میں پاکستان کے نجی ٹی وی چینلز نے تاریخی موضوعات اور شخصیات پر مبنی ڈرامے یا پیریڈ ڈرامے بنانے کی کوشش نہیں کی۔
ان میں ہم ٹی وی کے ڈرامے ’آنگن‘ اور ’داستان‘ جبکہ جیو انٹرٹینمینٹ سے نشر کیے جانے والے ڈرامے ’تان سین‘ اور ’مور محل‘ شامل ہیں جبکہ پاکستان میں ہی ’ماہ میر‘ اور ’منٹو‘ جیسی فلمیں بھی بنائی گئیں لیکن ان سب کو وہ پذیرائی نہ مل سکی جو ’دیریلش ارطغرل‘ کے حصے میں آئی۔
پاکستان میں غیر ملکی ڈراموں کی مقبولیت پر نینا کاشف کہتی ہیں ”ہماری خاندانی، ثقافتی اور مذہبی اقدار ترکی سے مطابقت رکھتی ہیں۔ دنیا بھر میں کوریا کے ڈرامے بھی بڑے مقبول ہیں لیکن پاکستان میں ایک آدھ چینلز نے جب انھیں نشر کیا تو وہ مقبول نہ ہو سکے۔“
غیر ملکی مواد نشر کرنے پر ایک تنقید یہ بھی ہے کہ ایسا مواد چینل کو سستا پڑتا ہے اور اس میں سرمایہ ڈوبنے کا خدشہ بھی نہیں ہوتا۔
نینا کہتی ہیں ”ٹی وی پر جانے والے ہر مواد میں رسک ہوتا ہے اور یہ ڈرامے سستے نہیں ہوتے۔ باہر سے منگوائے گئے ڈراموں کی بھی مختلف قیمتیں ہوتی ہیں۔ انھوں نے اپنے بڑے سٹارز کے ساتھ مہنگا شوٹ کیا ہوا ہو تو اس کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔“
پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کے مذکورہ بالا ماہرین کی رائے یقیناً اہم ہے تاہم مجھے کہنے دیجئے کہ پاکستان ٹیلی ویژن پر پیش کیے جانے والے بہت سے ڈرامے اس قدر اچھی کہانی کے حامل تھے کہ وہ بھارت میں بھی بے پناہ مقبول تھے، اس اعتبار سے اصل اہمیت کہانی کی ہے، اس کے بعد اہم کہانی کو لے کر چلنے والوں کی ہے۔
آپ ذرا ” ارطغرل غازی“ میں کام کرنے والوں کی قابلیت کا جائزہ لیں، اس کے بعد آپ کو اپنے لوگوں کے قد کاٹھ کا خوب اندازہ ہوجائے گا۔ ترک اداکاروں، اداکارائوں نے ڈرامہ کی باقاعدہ تعلیم و تربیت حاصل کی ہے۔ وہاں کے ڈرامہ بنانے والے مقبول ڈرامہ بنانے کے تمام تر تقاضوں سے بخوبی واقف ہیں۔
اب کوئی ذرا پاکستان میں گزشتہ چند عشروں کے دوران میں بننے والی فلموں کے ناموں کی فہرست ہی تیار کرلے، اس سے بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارے لوگ فلم، ڈرامہ بنانے کے تقاضوں کو کتنا سمجھتے ہیں۔
رہی بات ”منٹو“ جیسی فلموں کی، ان فلموں میں جو اجزائے ترکیبی شامل تھے، اگر انھیں سونگھ کر لوگوں نے اس فلم کو منہ نہیں لگایا تو کوئی کیا کرے!! کم ازکم ”ارطغرل غازی“ کی پاکستان میں مقبولیت دیکھ کرہی کچھ سبق سیکھ لیں۔ اس کے بعد اپنا ڈرامہ، فلم مقبول بنالیں یا پھر اپنے غیرمقبول نظریات بیچ لیں۔ فیصلہ آپ کا !!
ایک تبصرہ برائے “”ارطغرل غازی“ سے پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری ختم ہوجائے گی؟”
بہت بامعنی تبصرہ ھے۔ ھمارے ہاں فلم تو اتنی گھٹیا لیول کی بنتی ھے کہ اس کے اداکاروں کو بات کرتے ھوۓ شرم آنی چاہیے ۔اس ڈرامے کے بجٹ کی بات ٹھیک ھے لیکن اداکاری ،اور جزیات نگاری میں کہیں جھول نظر نہیں آتا۔جس کا بڑے بجٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔