عبیداللہ عابد
تحریک انصاف کی حکومت سے زیادہ اس کے کارکنان زیادہ مشکل محسوس کررہے ہیں۔ کم ازکم گزشتہ پانچ برسوں کے دوران میں وہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں سے بالکل مختلف انداز میں حکومت کرنے کے وعدے کرتے رہے۔
قوم کو قائل کرتے رہے کہ وہ اقتدار میں آکر موروثی سیاست ختم کریں گے،اس ملک سے ایلیکٹ ایبلز کی سیاست ختم ہوجائے گی، بیرونی قرضے لے کر ملکی معیشت چلانے کا کلچر ختم ہوجائے گا، تحریک انصاف کی حکومت میں گورنر ھاوسز کی دیواریں گرا دی جائیں گی اور وہاں یونیورسٹیاں بنیں گی، وزیراعظم ہائوس میں ایک بہت بڑی لائبریری کھولی جائے گی، ڈنمارک کا وزیراعظم سائیکل پر اپنے دفتر جاتا ہے، تحریک انصاف کی حکومت میں پاکستانی وزیراعظم بھی سائیکل پر دفتر آیا کرے گا، وعدہ کیا گیا کہ ہم غیرملکی امداد کے لئے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے، آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بجائے خودکشی کرلیں گے۔ ہم سوئس بنکوں میں رکھے 200 ارب ڈالر واپس لائیں گے، ملک میں روزانہ بارہ ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے، اسے ہم روک دیں گے، ہم دس ارب ڈالرسالانہ کی منی لانڈرنگ پر قابوپائیں گے، ہم نوازشریف کے تین سو ہزار ارب روپے ملک میں واپس لائیں گے، ہم نوازشریف کے بھارت میں کاروبار پر لگے 425 ارب واپس لائیں گے۔ ہم زرداری سے لوٹ کی رقم نکلوائیں گے۔ ہم تارکین وطن کی مدد سے 20ارب ڈالر ملک میں لائیں گے،ہم نئے ٹیکس دہندگان میں اضافہ سے مزید 8 کھرب اکھٹا کریں گے،تارکین وطن باھر اپنی نوکریاں چھوڑ کر ملک واپس آ جائیں گے، تحریک انصاف والے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران کہتے رہے کہ جو حکومت بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھاتی ھے۔ وہ کرپٹ ہوتی ہے۔ ہم پٹرول کی کم یعنی 40 روپے لٹر کردیں گے،ہم حکومت کی چور بازاری ختم کرکے گیس کی قیمت آدھی کردیں گے،ہم ایک کروڑ نوکریاں پیدا کریں گے،ہم پچاس لاکھ نئے گھر بنائیں گے، ہم دس ارب درخت لگائیں گے،ہم کشمیر کا مسلہ حل ھونے تک بھارت سے دوستی اور تجارت نہیں کریں گے، ہم حکومت میں آتے ھی کلبھوشن یادیو کو پھانسی پر لٹکا دیں گے،ہم سی پیک معاھدں پر نظرثانی کروائیں گے۔ ان میں کرپشن ہوئی ہے۔ہم قطر کے ساتھ گیس معاھدے پر نظرثانی کروائیں گے۔ گیس مہنگی ہے۔ھم ججوں اور جرنیلوں کا بھی احتساب کریں گے۔ تمام تقرریاں اور بھرتیاں میرٹ پر ہوں گی۔ ہم ایک جیسا نظام تعلیم نافذ کریں گے۔ سرکاری اور غیر سرکاری کا فرق ختم کر دیں گے۔ ہم پولیس کو غیرسرکاری کریں گے، ہم بیوروکریسی میں بھی سیاسی مداخلت ختم کردیں گے، ہم پہلے ماہ ہی میں جنوبی پنجاب صوبہ بنائیں گے، ہم فاٹا کو الگ صوبہ بنائیں گے اورہم بچت سے روزانہ 50 ارب بچائیں گے۔
تین ماہ ہونے کو ہیں،عمران خان کی حکومت ان سب وعدوں پرعمل کرنے کی طرف جارہی ہے یا برعکس سفر کررہی ہے۔ اس سوال کا جواب تحریک انصاف کے پرجوش حامی کالم نگار اور دانش ورجناب عامرہشم خاکوانی یوں دیتے ہیں:’’ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور وہ(عمران خان) اپنا تاثر قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔ پہلے سو دن کا سکہ جس طرح جمانے کی ضرورت تھی، اب تک ایسا نہیں ہوپایا۔ اگلے ایک ماہ میں یہ کیا کرشمہ دکھاتے ہیں، وہ بھی سب دیکھ لیں گے‘‘۔
کہاجاسکتاہے کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے کی جدوجہد کرنے والے دانشور ہی دل گرفتہ نہیں بلکہ تحریک انصاف کے کارکنان کی بڑی اکثریت بھی کسی قدرمایوسی کا شکار ہے، اس مایوسی میں اضافہ ہورہاہے۔ وہ حکومت کا دفاع کرنے میں سخت مشکل محسوس کررہے ہیں۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ حکمران پارٹی سخت مشکل میں پڑچکی ہے۔ اگرچہ اب بھی کارکنان اور حامیوں کی ایک ایسی تعداد بھی موجود ہے، چلئے! عمران خان کے پہلے یک سو دن تو دیکھ لیں، اس کے چھ ماہ تو دیکھ لیں، بعض حامی پانچ برس دینے کو بھی کہہ رہے ہیں۔
یقیناً عمران خان کو ایک سو دن ہی نہیں، چھ ماہ ہی نہیں، پانچ برس بھی دئیے جائیں گے، مسلم لیگ ن سمیت کوئی بھی اپوزیشن جماعت حکومت گرانے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ سوال یہ ہے کہ حکومت پانچ برس میں بھی کچھ نہ کرسکی تو پھر عمران خان سے امیدیں لگانے والے نوجوانوں کا کیا ہوگا؟ دوسری پارٹیوں سے آنے والے موقع پرست سیاست دان تو اگلے کسی طاقتور مرکز کی طرف چلے جائیں گے، عمران خان کیا کریں گے۔ حال ہی میں ایک حرکت پذیر فلم ’ڈونکی کنگ‘ میں دکھایاگیا ہے کہ پھر ڈونکی کنگ برطرف بادشاہ شیر کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے اور اسے ہی بادشاہی کرنے کو کہتا ہے لیکن شیر اس کا پشتی بان بن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ کیا پاکستانی سیاست میں بھی ایسا ہوگا؟ آنے والے دنوں میں اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔