سعودی عرب عید ڈنر

ہماری قرنطینہ عید

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر میمونہ حمزہ:

گزشتہ کئی ہفتوں سے ہم آئسولیشن میں تھے۔ رمضان المبارک بھی ایسے ہی گزر گیا۔ عید کی شب عید کی تیاریوں میں جھٹ پٹ گزر گئی، صبح کی سانسوں میں ہم نے اپنا ”کلرلگا“ سر دھویا، تکبیرات پڑھتے ہوئے کچن کا فرش اور برتنوں کی آخری قسط دھوتے ہوئے سویاں بھی بنا ڈالیں۔ اپنے لئے بغیر چینی اور باقی دو افراد کے لئے میٹھی سویاں یعنی شیر خورمہ تیار کیا، اور اشراق کے بعد لمبی تان کر سونے کا ارادہ کیا۔

گہری نیند کی ابتدائی وادی کو پاٹتے ہوئے، ہم دونوں کے فون باری باری بج اٹھے۔ ہمارے پیارے پیارے نواسے نواسیاں تیار شیار ہو کر ”عیدمبارک“ کہہ رہے تھے، بوجھل آواز جلد ہی شگفتگی میں ڈھل گئی۔ وہیں داماد، بیٹی اور بیٹے سے بھی صوت و رنگ سے ہم آہنگ ملاقات ہوئی۔ پھر دوسری بیٹی کے ہاں اور یوں سلسلہ در سلسلہ۔ ایک فون ملاقات پر مصروف اور دوسرے پر ہاتھ خیر مبارک کے پیغامات لکھنے میں مصروف!

اتنے میں ہماری بلڈنگ میں عید ناشتے کی دعوت کی یاد دہانی آ گئی، ہم غسل خانے کی جانب بھاگے اور ہماری منی کو انوکھا خیال آیا:
”یہ والا نہیں۔۔۔ یہ سوٹ،“ اس نے ہمیں یاد کروایا کہ فینسی سوٹ وہ استری کرنے سے معذور ہیں، یعنی اب ہمیں فٹا فٹ ایک عدد سوٹ استری بھی کرنا ہے۔

ہم اپنی ہی بلڈنگ کے تیسرے فلور پر ناشتے کے لئے پہنچ گئے،جہاں اس بلڈنگ کی کئی اور خواتین اور بچیاں بھی جمع تھیں۔ مرد بغلی اپارٹمنٹ میں تھے، بچیاں ایک کمرے میں، ہم نے سلام کے لئے ہاتھ بڑھایا تو مقابل ڈاکٹر صاحبہ نے ہمیں گلے لگا کر عید مبارک کہا اور پھر ساتوں خواتین عید ملیں۔ ہم تو پہلے ہی قرنطین میں ہیں اس لئے آپ سے کیا پردہ کے مصداق عید بھی مل لئے۔
فزیکل ڈسٹینسنگ کا کیا کیجئے۔

دو خواتین پوریوں کے پیڑے بنا رہی تھیں، ایک تل رہی تھیں اور دو انہیں گرما گرم مرد خانے میں بھجوا رہی تھیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے ناشتے کی بڑی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھائی تھی۔ آلو کی بھجیا، چنے کا سالن یعنی چکڑ چھولے اور بھنا ہوا مرغ۔ رنگین حلوہ اور شیر خورمہ ایک اور بہن کی جانب سے تھا اور گرما گرم چائے بھی!!

سب نے جی بھر کر کھایا!
خواتین نے ناشتا ختم کیا تو معلوم ہوا کہ مرد تو اپنے اپنے حجروں کو سدھار چکے ہیں، اور کھا پی کر زیادہ دیر نہیں ٹھہرے۔
مجبوراً خواتین بھی حجروں کو سدھاریں، رات کے پروگرام کی یاد دہانی کرواتے ہوئے۔

حجرے میں میاں صاحب لہروں کے ذریعے رابطوں میں مصروف تھے، سلسلہ کلام ٹوٹتے ہی منی نے ”عیدی“ کا مطالبہ کیا، بہت شہنشاہی انداز میں بٹوہ منگوایا گیا مگر اس میں موجود نقدی عیدی کے شایانِ شان نہ تھی۔ زبانی حکم جاری کیا گیا، اور لے دے کے بعد زبانی طور پر ہی گزشتہ برس کی نسبت اضافی کر دیا گیا،

پھر ہم نے عیدی طلب کی تو ہمیں بھی زبانی حکم کے تحت خوب ساری عطا کر دی گئی۔ (بیٹی کی عیدی کئی برس سے اسی طرح ڈائری میں محفوظ ہو رہی ہے، نہ اسے خرچ کرنے کا سلیقہ آتا ہے نہ ہمیں دینے کا، سو اس مرتبہ اس نے بھانجے بھانجوں کو بھی بھجوائی ہے۔)

نماز ظہر کے بعد موبائل سائلنٹ کر کے ہم واقعی سو گئے۔ اور بعد از عصر بیدار ہوئے تو شام کی دعوت کی تیاری کا وقت آن پہنچا تھا۔ دو گھروں میں پلاؤ بن رہا تھا، ایک میں قورمے کے دو پتیلے چولھے پر دھرے تھے، ایک میں چکن روسٹ ہو رہا تھا، مرچ کا سالن بھی اور رائتے، سلاد، اور ٹھنڈے مشروبات بھی!!! کھانا پکانے کے دوران زمینی فاصلوں کے باوجود عید مبارک کی صدائیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ عشاء تک ساری بلڈنگ خوشبوؤں سے بھر چکی تھی۔

سب اپنا اپنا پتیلہ اٹھائے دو اور اپارٹمنٹس کو میزبانی کا شرف عطا کر رہے تھے۔ سب اپنے کھانے کو پیش کرنے کے لوازمات لے کر آئے تھے۔ سب خواتین نے مل کر کھانا رکھا۔ گرما گرم چپاتیاں بھی پکائیں اور مرد و زن دعوت عید اڑانے لگے۔

کھانا کھا کر صبح والا میٹھا دوبارہ تازہ ڈشز میں پیش کیا گیا۔ اور جب خواتین گپوں میں پوری طرح گم تھیں، اس وقت شاعر کے مصداق:
اس وقت ہمیں چونکا دینا جب رنگ پے محفل آ جائے

مردوں کی ایک آواز نے سب کو چونکا دیا:
ہمیں چائے چاہئے۔
خواتین نے یہ بھی نہ پوچھا، کون سی جناب؟!

بلکہ آواز بلند ہوئی، اپنے اپارٹمنٹ میں خود ہی بنا لیجئے۔ کچھ خواتین نے لبوں پر ہاتھ رکھ کر خاموش ہونے کو کہا، مگر ایک صاحبہ کا دعویٰ تھا:
میرے میاں بہت اچھی چائے بناتے ہیں۔ دوسری کو اپنے بیٹے شہزادے پر ایسا ہی اعتبار تھا۔
کہ آواز بلند ہوئی:
چائے بنا رہے ہیں تو ہمارے لئے بھی بھجوا دیں۔

اور کچھ دیر میں چائے سے سجی سینی حاضر تھی۔ چائے لاجواب تھی۔ تحقیق پر پتا چلا کہ یہ بیٹے شہزادے کی مہارت تھی۔
خواتین نے متفقہ قرار داد پیش کی:
آئندہ دعوتوں میں چائے مرد حضرات ہی بنائیں گے۔

اور پھر گھڑیال جب 12:00 سے آگے بھی کچھ بجا چکا تھا تو شہزادیوں کو خیال آیا کہ واپس گھروں کو بھی جانا ہے۔

سب سنڈریلا کی مانند تیزی سے گھروں کو بھاگیں (نجانے کون سی جلدی تھی انہیں) ، بعد میں میزبان نے دیکھا، کوئی اپنی گھڑی بھول گئی ہے، کوئی پرس اور کوئی موبائل!

میزبان نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ساری موجود اشیاء کا عکس گروپ پر ڈالا۔ اور ایک شہزادہ آکر سب کچھ لے گیا کہ سب گھروں کے دروازے کھٹکھٹا کر خود ہی واپس کر دے گا۔ کون سا کسی کے پاؤں کا سائز پورا کرنا تھا۔

عید کی گزرتی ساعتوں میں آپ سب کو بھی قرنطینہ عید مبارک!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں