نصرت یوسف:
کسی نے سوچا ہوگا کہ کبھی دنیا ایسی بھی ہوگی جیسے اب ہے۔ ہوسکتا ہے، بہت سے کشمیریوں نے لاک ڈاؤن کےبیس دن بعد ہی انسانوں کی مردہ ہوئی انسانیت پر خون کے گھونٹ تھوکتے خالق کو عرضی ڈال دی ہو کہ ”جیسے ہم ہیں ایسا سب کو کردے“۔ اور عرضی پر ”منظور“ کی مہر بھی گویا فوراً ہی لگ گئی۔
اِدھر کشمیر پر پچھلے برس اگست سے شروع لاک ڈاؤن دو ہزار بیس کے شروع میں دھیما ہوا، اُدھر دنیا کوویڈ 19 کے نرغے میں تھرتھرانے لگی.
انسانوں کی آہ وزاریاں جو دنیا کے مظلوموں کے بہتے لہو پر نہ نکلیں،نفسانی دلچسپیاں جنہیں خاک اور آگ میں لپٹتے انسانوں کی، خبریں، تصاویر بھی تبدیل نہ کر سکیں، فاقہ زدہ وجود سے بے بہرہ اشتہا انگیز خوراکیں ، ’ھل من مزید‘ کا نعرہ لگاتے ساہوکار، گراں ترین ملبوسات کی مسابقت کی دوڑ اور ان سب پر طرہ، نشانات ’حلال‘ ، کیا یہ سب پرسکون دنیا کی باتیں تھیں؟
خانہ خدا کے چکرلگاتا، رسول پرسلام و درود بھیجتا، اپنی نیکی، پارسائی پر مطمئن انسان ایک وائرس سے ہلا مارا گیا تو اس کی چیخیں نکل گئیں۔
من و سلویٰ بنی اسرائیل پر اترا تھا، لیکن رب نے پوری دنیا پر نعمتوں کے خزانے علم و ٹیکنالوجی کی شکل میں عطا کردیے۔
”کھاؤ پیو، اسراف نہ کرو“
وسائل کے انبار بھی ہوں تو سنبھل کر رہنا!!
مگر انسان سنبھل ہی کر نہ رہا، تو نعمتوں کے خوان واپس لے لیے گئے۔
وہ بانہیں جو اپنے پیاروں کو محبت سے لپٹاتی تھیں، وہ مسکراہٹ جو روح کو شاد کرتی تھی، وہ محفلیں، وہ کاروبار، وہ دلچسپیاں جو زندگی میں خون دوڑاتیں، سب ان دیکھے وائرس کے خوف میں مبتلا کر دی گئیں.
پوری دنیا قیامت سے قبل قیامت کے منظر کی ہلکی سی منظر کشی سے آشنا کر دی گئی۔
”اس دن کوئی کسی کے کام نہ آۓ گا“
کوویڈ 19 نے بھی انسان کو انسان سے دور کردیا۔ اوائل مارچ میں پاکستان سے امریکا پہنچنے والی ماں کو لینے کوئی نہیں آیا، وہ گھر پہنچی تو کھانے کے پیکٹس تیار لیکن گھر خالی تھا.کون جانے ماں اور قاتل وائرس ساتھ ہوں۔
جان چھڑکنے والی اولاد کا یہ انداز کیا یوم کبیر کا رائی بھر منظر نہ تھا؟
جب دنیا کے طاقتور نظر آتے خطے اس ان دیکھے وائرس سے سہمے، دبکے دکھائی دیتے ہوں، جب مخلوق کو عطا کردہ علم و ہنر اس وائرس کے سامنے صفر کر دیا گیا ہو تو ایسے میں دنیا کے کمزور قہقہہ لگا رہے ہیں۔
وہ کوویڈ کی موت سے قبل استحصال اور انسانوں کے ڈالے بوجھ سے بار بار مرتے تھے، اب ایک حتمی موت ان کو سہماتی نہیں، اب وہ طاقتور ہیں، خیرات کا من وسلویٰ ان پر اتر چکا ہے، وہ خوش باش لگتے ہیں کہ دنیا اب خوفزدہ ہے، سسک رہی ہے، بالکل ایسے جیسے وہ تھے۔
دہشت کا غل مچا ہے، تکالیف کی چنگاریاں ان پر برستی تھیں، ان کی بے فکر ہنسی کہتی ہے کہ عذاب کی رات اب سب پر ہے، خوف ہر در ہر چوکھٹ کو چھو رہا ہے۔
” کیا خوب ہے کہ اب ہم سب ایک سے ہیں“
میرے ہاتھوں سے اشیائے ضرورت کا تھیلا لیتے،اس کا جملہ سرد اور آنکھوں میں سورج اترا تھا۔
” عید مبارک! کل عید ہے۔ مدت بعد چاندہمارے گھر بھی اترے گا۔“
رخصت ہوتے اس کے الفاظ میں طمانیت تھی.
خوف تھا اور نہ حفاظت کا جنوں لاحق . لگتا تھا قیدی رہائی پا گیا ہے.
اگر یہ رہا ہے تو "میں کہاں ہوں؟ ” یہ سوال ہر انسان کے لیے ہے.