جناب دانش ارشاد سوشل میڈیا کی نامور شخصیت اور متحرک نوجوان صحافی ہیں، آزادکشمیر کے ضلع راولاکوٹ سے آبائی تعلق رکھتے ہیں، ان کے کیرئیر کےبارے میں معلومات حاصل کی جائیں تو یوں لگتا ہے کہ انھوں نے پنگھوڑے ہی سے صحافت شروع کردی تھی۔ پہلے ایک نیوزایجنسی سے وابستہ رہے، پھر روزنامہ جناح میں بطور رپورٹر خدمات سرانجام دیتے رہے، کشمیر ٹائمز کے ایڈیٹوریل انچارج بھی رہے جبکہ آج کل نیوزمارٹ سے وابستہ ہیں۔
برادرم دانش ارشاد کے بارے میں کہاجائے کہ انھوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا صحافت کو بنارکھا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ بعض صحافیوں کی طرح دیہاڑی دار صحافی نہیں ہیں جو محض گلیوں کوچوں کی خاک صرف اس لئے چھانتے ہیں کہ انھیں چار پیسے کمانے ہوتے ہیں اور بس! یہ کشمیری نوجوان صاحب مطالعہ بھی ہیں۔ خطہ جموں وکشمیر کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں، پاکستان اور دنیا کے حالات حاضرہ بھی ان سے پوشیدہ نہیں رہ سکتے۔ ان کے زیرمطالعہ موضوعات بہرحال کشمیر اور مسئلہ کشمیر سے متعلق ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس کا سبب پسندیدگی نہیں بلکہ دلچسپی ہوتی ہے کیونکہ اس مسئلے کی وجہ یہ ہے کہ مجھ سمیت پونے دو کروڑ کشمیر عذاب میں مبتلا ہیں اور اپنی شناخت کے حصول کیلئے کوشاں ہیں ۔ اس لئے اس کی تاریخ ، اپنے وطن کی تاریخ اور اس پر مختلف لوگوں کی آراء پڑھنے اور سمجھنے میں دلچسپی ہے۔
کشمیر پر تو کئی مصنفین کو پڑھا ہے۔ ان میں پسندیدہ تو کوئی نہیں ۔ تاہم بحیثیت مجموعی مولانا مودودی کو زیادہ پڑھا ہے۔ اور ان کی تحاریر سے اسلامی تاریخ کے حوالے سے جاننے کا موقع ملا۔ موجودہ دور میں وسعت اللہ خان بطور کالم نگار پسند ہیں ۔ جناب دانش ارشاد کے زیرمطالعہ آج کل جناب خالد نظامی کی کتاب ’دھوپ چھائوں‘ ہے،