جویریہ خان:
رویت ہلال کمیٹی ایک طویل عرصہ سے پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ کی تنقید کا نشانہ بن رہی ہے، اس طبقہ کا کہنا ہے کہ چاند کو دیکھنے کے لئے کسی انسان کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی، اس کے لئے جدید سائنسی مشینیں ہی کافی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے وفاقی وزیرسائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری اس مہم میں آگے آگے ہیں، وہ پہلے تحریک انصاف کے مخالف سیاست دانوں کے خلاف سخت ترین زبان استعمال کرتے رہے ہیں، تاہم جب سے انھوں نے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت سنبھالی ہے، رویت ہلال کمیٹی ان کے نشانے پر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ وفاقی وزیر کی ہدایت پر وزرات کے ماہرین نے اگلے پانچ برس کے لئے ایک قمری کیلنڈر تیار کیا جس کے بعد انھوں نے ایک مہم چلائی کہ بس! اسی کیلنڈر پر انحصار کیا جائے اور رویت ہلال کمیٹی کو ختم کردیا جائے۔
یادرہے کہ فوادچودھری کی وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے جو قمری کیلنڈر تیار کیا ہے، وہ سعودی عرب کا تیار کردہ ہے۔ سعودی عرب نے یہ کیلنڈر انتظامی امور کی انجام دہی کے لئے تیار کیا، اسی کے مطابق سارے سرکاری امور سرانجام پاتے ہیں۔ یہاں یہ بات بہت سے قارئین کے لئے نئی ہوگی کہ سعودی عرب میں زندگی شمسی مہ و سال کے مطابق نہیں ، بلکہ قمری مہہ و سال کے مطابق بسر ہوتی ہے۔ وہاں ہر مہینے چاند دیکھنے کے لئے ایک گیارہ رکنی رویت ہلال کمیٹی کام کرتی ہے۔
دنیا کے دیگر تمام مسلمان ممالک میں بھی چاند دیکھنے کے لئے کمیٹیاں قائم ہیں، ان کمیٹیوں میں مذہبی زعما شامل ہوتے ہیں کیونکہ چاند چڑھنے کا معاملہ دینی معاملات سے متعلق بھی ہوتا ہے۔ دنیا میں کسی بھی مسلمان ملک میں محض مشینوں پر انحصار نہیں کیا جاتا۔
پاکستان میں کچھ عرصہ سے رویت ہلال کمیٹی کے خلاف وہ لوگ مہم چلا رہے ہیں جن کی اپنی زندگیوں میں مذہب کا معمولی سا بھی عمل دخل نہیں ہوتا، بلکہ ان کی زندگی میں کبائرگناہ موجود ہیں جو خفیہ نہیں علانیہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کے دینی طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ شراب اور زنا کے مرتکب افراد انھیں کیسے بتاسکتے ہیں کہ انھیں عید کب کرنی ہے اور روزہ کب رکھنا ہے۔
حالیہ برس رمضان المبارک کے آخری ایام میں فواد چودھری اور ان کے حامی ایک بار پھر رویت ہلال کمیٹی کے خلاف بروئے کارآئے، انھوں نے چئیرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن کے خلاف تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا اور ٹوئٹر پرٹویٹس کیں۔ ان ٹویٹس میں کہا گیا کہ اس بار علما حضرات جان بوجھ کر تیس روزے کروائیں گے تاہم ہفتہ 23 مئی کو جب رویت ہلال کمیٹی نے پسنی، گوادر کے لوگوں کی شہادت کو تسلیم کرتے ہوئے اتوار، 24 مئی کو عیدالفطر منانے کا اعلان کیا تو اس کے جواب میں ٹویٹس میں ان لوگوں سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا جو علمائے کرام کے بارے میں بدگمانیاں پھیلا رہے تھے۔
ٹوئٹر پر ایک صارف رانا غلام لاثانی نے لکھا:
”اب ان سب لوگوں کو معافی مانگنی چاہیئے جو کہتے رہے علماء جان بوجھ کر 30 روزے کروائیں گے تاکہ ان کی اجارہ داری قائم رہے۔ علماء تو انبیاء کے وارث ہیں۔ ان کی قدر کریں نہ کہ اپنے ”ماں باپ“ کی طرح علماء کی بھی تذلیل کریں کیونکہ وہی لوگ علماء کی تذلیل کرسکتے جو والدین کی بھی کرتے ہوں“۔
عاشی نام کی ایک خاتون صارف نے لکھا:
”معاملہ سائنس کا نہیں شریعت کا ہے، فواد چوہدری کے اعلان پر تو ان کے اپنے اہل خانہ بھی افطار نہ کریں“ انھوں نے چیلنج کیا کہ ” ہے کوئی جو اُس کے اعلان پر عید کرنے کو تیار ہو؟“
ایک صارف ملک احسن نے لکھا:
”مفتی منیب الرحمن صاحب کے اوپر مذہبی طبقات کو مکمل اعتماد ہے، اس لیے جو مفتی صاحب کا اعلان ہوگا ہم اسی کو فالو کریں گے،رہی بات فواد چوہدری جیسے دگڑ دلّوں کی تو اس لوٹے کو تو یہ بھی نہیں پتہ عید کی نماز میں تکبریں کتنی ہوتی ہیں“۔
بعض صارفین نے وزیراعظم عمران خان کو اس صورت حال کا ذمہ دار قرار دیا۔ ان کا کا کہنا ہے کہ عمران خان اس قدر کمزور ہیں کہ وہ فواد چودھری جیسوں کو علمائے کرام کے خلاف مہم سے روکتے نہیں ہیں، اگر ایسا نہیں ہے تو پھر سمجھا جائے گا کہ علمائے کرام کے خلاف مہم خود عمران خان کے کہنے پر چل رہی ہے۔