عاصم حفیظ
پنجاب یونیورسٹی میں میڈیا اسٹڈیز کے ماسٹرز کے دوران دو ماہ کی انٹرن شپ کے لئے نوائے وقت گروپ کو جوائن کیا ۔ نوائے وقت گروپ ملک کا معتبر ترین ادارہ تھا اور اس کی ایک نظریاتی پہچان بھی تھی ۔ یہ کسی بھی میڈیا کے ادارے سے پہلا تعارف تھا ۔ نوائے وقت میں کئی مضامین شائع ہوئے جس سے ہمت بندھی اور لکھنے کا حوصلہ ملا۔ دو ہزار چھ سات کا یہ دور ٹی وی چینلز کی آمد کا تھا جس میں کئی نئے چینلز شروع ہوئے لیکن میں نے شعوری طور پر پرنٹ میڈیا جوائن کیا ۔ روزنامہ جناح ۔ چینل فائیو اور دنیا ٹی وی سے ہوتے ہوئے وقت نیوز پہنچ گیا ۔ یقین مانیں وقت نیوز جوائن کرنے کی اتنی خوشی تھی کہ جوش میں گورنمنٹ لیکچررشپ کی نوکری کو بھی جوائن نہ کیا ۔ ایک بہترین ماحول تھا ۔ معروف شاعرہ میڈم عنبر شاہد شفٹ انچارج تھیں جبکہ اینکر پرسن علی عمران اور پروڈیوسر فہد منیر لکھوی کے ہمراہ عالمی موضوعات کی ڈاکومنٹریز بنایا کرتے تھے ۔ انٹرنیشنل ڈیسک کا انچارج تھا اور اسی دوران باقاعدہ کالم لکھنے اور ڈاکومینٹری سکرپٹ میں مہارت حاصل کی ۔ الحمداللہ ہماری ڈاکومنٹری سیریز میں کئی نامور تجزئیہ نگار شرکت کرتے اور سوشل میڈیا پر بہترین فیڈبیک ملتا ۔ ہمارے لئے یہ بھی اعزاز تھا کہ اس پروگرام کا باقاعدہ اشتہار نوائے وقت میں چھاپا جاتا ۔ لیکن پھر اسی دوران محترم مجید نظامی کی لےپالک بیٹی رمیزہ نظامی کی اینٹری ہوئی ۔ وقت نیوز میں ان کے عمل دخل کے آغاز میں ہی مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے ۔ عملے کیساتھ رویہ کچھ مناسب نہیں تھا اور وہ اچھی منتظم نہیں تھیں ۔ کنجوسی پہ آتیں تو اینکر کی فراک اور کوکنگ شو کے مسالے تک خود خریدنے نکل پڑتیں جبکہ دوسری جانب ایک ڈائریکٹر حماد غزنوی کے کہنے پر محض ڈیکوریشن کے نام پر لاکھوں ضائع کر دئیے ۔ میڈیا کی سمجھ بوجھ کا یہ عالم تھا کہ جب مائیکل جیکسن فوت ہوا تو رمیزہ نظامی کی تو جیسے راتوں کی نیند اڑ گئی ۔ وہ خود نیوز روم میں آکر بیٹھ جاتیں اور ہمیں حکم ہوتا کہ مائیکل جیکسن کو بھرپور کوریج دی جائے ۔ اس کی شخصیت ۔ فن گانوں معاشقوں سمیت ہر ہر پہلو کے بارے ویڈیو رپورٹس پیش کیں گئیں ۔ نوائے وقت کے مزاج کے حوالے سے یہ کچھ عجیب سا تھا لیکن محترمہ اس سے پہلے انگریزی اخبار دی نیشن کی ٹیم کو بھی ارشاد فرما چکی تھیں کہ اس اخبار کی پالیسی سیکولر ہو گی۔ وہی کچھ وقت نیوز میں شروع کر دیا گیا ۔اینکرز کو ماڈرن بنایا گیا اور بہت کچھ۔ مجید نظامی صاحب کے کئی احکامات کو تبدیل کرا دیتیں ۔ اس دوران یہ بھی مشہور ہوا کہ انہیں ڈر ہے کہ حمید نظامی مرحوم کے بیٹے جناب عارف نظامی کہیں اپنے حق کا دعویٰ نہ کر دیں اس لئے وہ خفیہ طور پر گروپ کے اثاثوں کو اپنے حقیقی بھائیوں کو منتقل کر رہی ہیں ۔ کیونکہ وہ خود مجید نظامی کی لےپالک بیٹی تھیں۔ یہیں سے ادارے کی معاشی بدحالی شروع ہوئی اور تین سال نوکری کے دوران کبھی کسی کی تنخواہ میں ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں ہوا ۔ اکتوبر دو ہزار آٹھ میں وقت نیوز نے اچانک دو سو کے قریب ملازمین کو فارغ کر دیا ۔ یقین مانیں کہ ملازمین گھروں سے ڈیوٹی کے لئے دفتر پہنچے تو انہیں پتہ چلا کہ ان کی نوکری نہیں رہی ۔ اور اس طرح ہمارا نوائے وقت کیساتھ سفر تمام ہوا ۔ اس کے بعد بھی حالات مزید خراب ہی ہوئے ۔ وقت نیوز کی ٹیم پانچ منزلوں پر بیٹھتی تھی ۔ پروڈکشن ۔ اسٹوڈیوز وغیرہ تھے ۔ خرچہ بچانے کے لیے نوائے وقت ۔ فیملی میگزین ۔ دی نیشن ۔ندائے ملت اور پھول کو بھی اسی عمارت میں شفٹ کر دیا گیا ۔ وقت نیوز ایک منزل تک محدود ہو گیا آخر کار اسے بند کر دیا گیا تمام ملازمین گھر بھیج دئیے گئے ۔ ایک پورا ادارہ ایک خاتون کی احمقانہ پالیسیوں کے باعث تباہ ہو گیا ۔ شائد کچھ لوگ ہی جانتے ہوں کہ انہی محترمہ نے مجید نظامی صاحب کی وفات کے بعد یہ آرڈر بھی دیا تھا کہ کسی دینی جماعت یا لیڈر کو فرنٹ یا بیک رنگین صفحات پر کوریج نہیں دینی ۔ اہل وطن نے نوائے وقت کی وہ گھٹیا حرکت بھی دیکھی کہ جب چھ ستمبر کے موقعے پر قادیانیوں کا اشتہار تک چھاپ دیا گیا ۔ کئی بار کوئی مضمون لکھ کر بھیجا تو ایڈیٹر کا جواب آیا کہ میڈم کا سختی سے آرڈر ہے کہ نظریاتی مواد کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔ وہ چاہتی ہیں کہ اخبار کی نظریاتی چھاپ میں کمی آئے ۔ رمیزہ نظامی حمید نظامی اور مجید نظامی کے اس نظریاتی ادارے کو لبرل بناتی بناتی تباہ کر بیٹھی ہیں اور وقت نیوز شائد مکمل طور پر بند ہونیوالا پہلا نامور بڑا چینل ہے ۔ خدشہ ہے کہ جلد نوائے وقت اور اس گروپ کے دیگر ادارے بھی جلد اسی حال سے دو چار ہونیوالے ہیں.
2 پر “بیٹی نے کیسے باپ کی پوری سلطنت تباہ کردی؟” جوابات
یقیننا میری طرح بہت سارے لوگوں کے لئے یہ مختصر مضمون بہت آئی اوپنر ھو گا ۔ افسوس کہ نا اہل لوگ کیسے کیسے بربادی کا باعث بن جاتے ہیں اور کبھی شرمندہ بھی نہیں ھوتے۔ شکریہ عوام کو حقیقت حال سے آگاہ کرنے کے لئے۔
محترمہ تو مرحوم کی زندگی ہی میں چارج لے چکی تھیں اور ان کا رجحان بھی نمایاں تھا ۔۔۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ مرحوم نے اس کو جائیداد کا وارث بنانے کی بجائے ادارے کو ٹرسٹ کیوں نہیں بنایا اور لے پالک کے نام کے ساتھ اپنا نام کیوں جوڑا ۔۔۔ ان صاحبہ کا بیک گراوؑنًڈ کیا ہے۔ نظریاتی بانجھ پن کا شکار یہ خاتون سیکولر کرتے کرتے ادارے ختم کرنے پر کیوں اتر آئی ہے ۔۔۔ کیا کوئی جاننے والا ان سوالات کا تفصلی جواب تلاش کر کے محبان نوائے وقت تک پہنچا سکتا ہے۔ اس کو بزنس کیس اسٹڈی کے طور پر بھی لیا جا سکتا ہے