دعا عظیمی/ تصاویر: فرحت افزا
اسے رنگ اچھے لگتے تھے،
دولہن کے عارض پہ حیا کےرنگ،
ہیر کے مزار پہ وفا کے رنگ
قیدیوں کے ماتھے پہ حبس بے جا کے رنگ
مزدور کے دامن پہ حسرت سیاہ کے رنگ،
شام کی تنہائی میں ذات کے رنگ،
سیاہ بال کھولے اداسیوں کے چہرے پہ دعا کے رنگ،
شاید اس نے سارا بچپن رنگوں کو جمع کرنے ساری جوانی رنگوں کو سمیٹنے میں لگا دی تھی۔
ہجرت سے پہلے وہ اپنی مٹھی کھول دینا چاہتی تھی،
وہ اپنا دامن جھاڑ دینا چاہتی تھی،
وہ خالی ہاتھ آئی تھی اور خالی ہاتھ ہی جانا چاہتی تھی۔
اسے معلوم تھا جانے والے کو سفید رنگ اوڑھنا ہوتا ہے،
اسے معلوم تھا خاکی رنگ سے بڑا کوئی رنگ نہی،
اب اس نے اپنے سبز مقدس صفحوں میں رکھے مور کے پر پڑھنے والے بچوں کو دان کر دیے تھے
اب اس نے شاعری کی کتابوں میں مرجھائے پھولوں کو مٹی میں دفن کر دیا تھااور تتلیوں کے پروں میں خود کو باندھ کر ہوا برد کر دیا تھا
ہوا نے سارے رنگوں کے گہنے پھولوں کو لوٹا دیے تھے،
خاکی رنگ دھنک رنگ لپیٹے مسکرا رہا تھا۔
6 پر “اسے رنگ اچھے لگتے تھے” جوابات
؎ رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے۔۔۔خالد سہیل
رنگوں کی علامتوں سے چند سطروں میں ایک خوبصورت تمثیل لکھ دی یہی قلمکار کا اعجاز ہے
Thank you very much
A lot of thanks
انسانیت کے لیے فطرت سے محبت کے پیامات بھر کےتسکین کے مدارج طے کراتی تصاویر
نہیں معلوم کہاں سے اترتے ہیں ایسے مسحور کن لفظ اور ایسے خیرہ کرنے والے رنگ. بہت ستائش