ڈاکٹرشائستہ جبیں:
جیسے کچھ لوگ آپ کی زندگی پر ان مٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں، ویسے ہی کچھ جگہیں تا حیات آپ کے لیے بہت اہم رہتی ہیں۔ کوئی ایسی جگہ جس نے آپ کی شخصیت کو سرتاپا بدل دیا ہو اور یہ بدلاؤ مثبت، تعمیری اور بامقصد ہو تو اس جگہ سے آپ کا والہانہ لگاؤ بھی ہمیشہ رہتا ہے۔
دل و دماغ کا ایک کونہ ان خوبصورت یادوں کے خزانے سے معمور رہتا ہے اور آپ کو متعلقہ مقام کے ساتھ اٹوٹ بندھن میں باندھے رکھتا ہے۔ میری زندگی کی خوشگوار اور نہ بھلانے والی یادوں کا ایک بڑا حصہ بھی ایک عمارت سے وابستہ ہے۔ کہنے کو یہ سیمنٹ گارے اینٹوں والی عام عمارت ہے لیکن اس کے ساتھ دل کا وہ مضبوط اور مستحکم رشتہ ہے کہ کسی بھی حوالے سے اس کا ذکر جذباتی کرنے کو کافی رہتا ہے. اس کی طرف دل بالکل ایسے کھنچتا ہے جیسے ہم دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں، دل گھر کو یاد کرتا ہے اور وہاں پہنچنے کے راستے ڈھونڈ تا ہے. اس عمارت سے بھی وہی گھر والا تعلق ہے جس کے باعث یہ ہمیشہ اپنے پاس بلاتی محسوس ہوتی ہے۔
یہ عمارت جامعہ پنجاب کے ’ادارہ علوم اسلامیہ‘ کی ہے جو شیخ زید اسلامک سنٹر کی پرشکوہ عمارت میں قائم ہے اور جسے ’سفید محل‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ میری ذات اور شخصیت میں اگر کوئی خوبی، اچھائی اور اعتماد ہے تو والدین کی تربیت کے بعد سب سے بڑا حصہ اس ’سفید محل‘ کا ہے جو اپنے طالبعلموں کی شخصیات اس طور تراشتا ہے کہ ملک کے پسماندہ ترین علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء بھی اپنی ذات اور انداز و اطوار میں ظاہری و باطنی ہر دو طرح کی تبدیلی محسوس کیے بغیر نہیں رہ پاتے۔
یہ وہ ادارہ ہے جو جدیدیت کے اس سیلاب میں بھی مذہبی واخلاقی روایات و اقدار کی بحالی کا فریضہ سنبھالے ہوئے ہے۔ سر سبز قطعات جو کہ سارا سال انواع و اقسام کے موسمی پھولوں سے لدے رہتے ہیں، نفاست سے تراشیدہ پودوں اور مہارت سے سینچے ہوئے رنگ برنگ پھولوں کے بیچوں بیچ یہ شاندار عمارت شان سے سر اٹھائے ہر آنے والے کو اپنے وسیع دامن میں محبت و شفقت سے سمو لینے کو تیار رہتی ہے۔
مرکزی عمارت سے اندر داخل ہوتے ہی ٹھنڈک کا وہ احساس ہوتا ہے جو روح کو سرشار کر دیتا ہے۔ یہ شاید جامعہ پنجاب کا واحد ادارہ ہے جہاں طالبات کے لیے سر ڈھانپنا لازمی ہے۔ طلباء کا برآمدوں اور راستوں میں ٹولیوں کی شکل میں کھڑے ہونا نا پسندیدہ ہے۔ کمرہ جماعت میں طلبہ و طالبات کے درمیان پردہ کی آڑ ہوتی ہے، جس کے پار طالبات اور دروازے کے ساتھ والے حصہ میں طلبہ بیٹھتے ہیں۔
ایک اور بہت اچھی روایت یہ بھی ہے کہ طلبہ استاد محترم کے کلاس میں آنے پر ان کے ہمراہ اندر آئیں گے اور کلاس ختم ہونے پر ان کے ساتھ ہی باہر چلے جائیں گے۔ ایک بار ہماری کلاس کا ایک لڑکا حسبِ ضابطہ باہر جانے کی بجائے کمرہ جماعت میں ہی بیٹھ کر کوئی کام کرنے لگا، صدر ادارہ کو فوراً اطلاع ہو گئی اور انہوں نے ساری کلاس کی سخت سر زنش کی۔
اسی طرح ہماری ایک ہم جماعت جو کہ عمررسیدہ اور مقامی کالج میں تعینات تھیں، ایک مرد ہم جماعت کے ساتھ برآمدہ میں کھڑی گفتگو کر رہی تھیں کہ صدر ادارہ کسی کام سے اپنے دفتر سے باہر آ گئے اور یہ منظر دیکھ کر انہوں نے بہت ہی سخت الفاظ میں سرزنش کی کہ سینئر سٹوڈنٹس ہونے کے باوجود آپ نے اصول و ضوابط کا خیال نہیں رکھا۔
اب وقت بدلا ہے اور تیز-رفتار میڈیا کے دور میں جہاں اور بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں، وہیں شاید اب ادارہ علوم اسلامیہ میں بھی ایسا ماحول نہ ہو لیکن میں تو اسی ماحول میں زندہ ہوں، جہاں میں نے یادگار وقت گزارا، جہاں کی سختیاں بھی ہمیں پھولوں کی طرح عزیز تھیں اور جہاں کے بظاہر مشکل دکھائی دیتے قواعد و ضوابط کی بھی ہم دل و جان سے پیروی کیا کرتے تھے۔
میں جھنگ کے ایک پسماندہ گاؤں سے یہاں آئی تھی اور میرے پاس والدین کی اچھی تربیت کے سوا کوئی خوبی نہیں تھی لیکن اس ادارے نے،اساتذہ نے تمام تر وسیع القلبی سے مجھے خوش آمدید کہا. میری کسی خامی، کمزوری کو کبھی کسی نے نمایاں نہیں کیا، بلکہ غیر محسوس طریقے سے، اس شفقت اور دھیان سے میری اور دیگر نا تراشیدہ ہیروں کی تراش خراش کی کہ آج تقریباً وہ سب زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی چمک سے دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کر رہے ہیں۔
ایم فل کے پہلے سمسٹر میں بارعب اور دبنگ شخصیت ڈاکٹر محمد حماد لکھوی، دھیمے، شائستہ مزاج ڈاکٹر غلام علی خان، ماہر لسانیات بنگلہ نژاد ڈاکٹر یوسف صدیق اور علوم القرآن کے ماہر شفیق، مہربان ڈاکٹر حافظ محمود اختر صاحب جیسے بے مثل اساتذہ کے حلقہ تلمیذ میں شامل ہونے کا اعزاز نصیب ہوا، تو اگلے سمسٹر میں خوش اخلاق و بذلہ سنج ڈاکٹر محمد سعد صدیقی، دھیمے، پر وقار ڈاکٹر محمد حمید اللہ، مہربان، باوقار اور نفیس ڈاکٹر ممتاز احمد سالک اور بے مثل منتظم اور ہمدرد استادِ محترم ڈاکٹر شبیر احمد منصوری سے فیض یاب ہونے کی سعادت نصیب ہوئی. یہ وہ معزز و محترم اساتذہ کرام ہیں جن میں سے ہر ایک اپنی ذات کے اندر ایک ادارہ ہے اور جن سے فیض یابی مقدر والوں کے حصے میں آتی ہے۔
ایم فل اور پی ایچ ڈی دونوں سطح کے تحقیقی مقالہ جات میں نے استادِ محترم ڈاکٹر محمد سعد صدیقی کی نگرانی میں لکھے. جب میں پہلی بار مقالہ لکھ رہی تھی اور مجھے تحقیق کا کوئی اسلوب تک معلوم نہیں تھا اور بہت غلطیاں کرتی تھی. لیکن آفرین ہے سر کے حوصلے کو، کسی ایک دن بھی انہوں نےمیری کسی غلطی یا کوتاہی پر تنقید نہیں کی یا کسی ناپسندیدہ انداز میں نشان دہی نہیں کی۔
ہمیشہ میری ایسے حوصلہ افزائی کی، میرے تحریر کردہ ایک ایک لفظ کی پذیرائی کی، جیسے میں کوئی اعلیٰ پائے کی تحقیق کر رہی ہوں. ہنستے مسکراتے میری تحریر کی اصلاح کرتے، کانٹ چھانٹ، درستگی کرواتے لیکن مجھے احساس دلائے بغیر۔
اپنا پی ایچ ڈی کرنا مجھے دو حوالوں سے خوش قسمتی لگتا ہے، ایک تو میں نے سیرتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم پر کام کیا اور دوسرا سر محمد سعد صدیقی کی ہی نگرانی میں کیا۔ پی ایچ ڈی سطح کی تحقیق ظاہر ہے زیادہ وقت طلب، محنت طلب اور توجہ طلب ہوتی ہے۔ استادِ محترم اس وقت صدرِ ادارہ تھے اور دفتری، انتظامی اور تعلیمی مصروفیات حد سے سوا تھیں۔
اس سب کے باوجود میرے ساتھ خصوصی شفقت کا جو تعلق بنا تھا، وہ مزید مضبوط ہوا اور مہربان و شفیق والد کی مانند میری نہ صرف رہنمائی کی بلکہ مسلسل مجھے جلدی کام کرنے کی تحریک دی اور نتیجہ کے طور پر میں نے قبل از وقت اپنی ڈگری مکمل کر لی. آپ کے خلوص ،محبت، شفقت، مہربانی اور حسنِ اخلاق کی قابلِ قدر صفات نے میری شخصیت کی تعمیر میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
وہ مہربان، مخلص اور بے لوث شخصیت جنہوں نے میری ذات اور خصوصاً باطن کی اصلاح کی. وہ محترم ڈاکٹر حافظ عثمان احمد ہیں. جن سے اگرچہ کمرہ جماعت میں فیض یاب ہونے کا موقع نہیں ملا لیکن زندگی اور اس کی آزمائشوں، لوگوں کے رویوں اور طرزِ عمل کے حوالے سے جو عملی علم آپ سے حاصل کیا، وہ کمرہ جماعت میں حاصل ہونے والے علم سے کہیں زیادہ ہے۔
آپ کے ساتھ اخلاص اور احترام کا وہ رشتہ ہے جو خونی رشتوں سے بڑھ کر ہے. زندگی کے ہر پہلو اور ہر موقع پر آپ کی مشاورت راہیں آسان کرتی ہے اور آپ کی متوازن اور ہمہ گیر شخصیت اصلاح ذات کے راستے تجویز کرتی ہے۔
اس ادارے میں اپنی خدمات سر انجام دینے والی محترمہ ڈاکٹر سعدیہ گلزار کا بھی ضرور ذکر کرنا چاہوں گی کہ جو بہت زیادہ جان پہچان نہ ہونے کے باوجود ہر ملاقات پر اس اخلاص اور شفقت کا مظاہرہ کرتی ہیں کہ اجنبیت کا تاثر اپنائیت میں بدل جاتا ہے۔
اس ادارے نے مجھے بہت اچھے دوست دئیے ہیں، جن میں سرفہرست میری بہترین دوست کلثوم رزاق ہے، جس سے پہلے دن ہونے والی دوستی ان گزرتے دس سالوں میں مزید مستحکم و مضبوط ہوئی ہے. ہر طرح کے حالات، اتار چڑھاؤ اور تبدیلیوں کے باوجود یہ دوستی روز اول کی طرح پائیدار ہے۔
اسی ادارے نے مجھے ڈاکٹر ظل ہما جسی زندہ دل ہستی کی دوستی کا اعزاز دیا جن کی وساطت سے میں محترمہ ڈاکٹر جمیلہ شوکت صاحبہ کی محبت بھری، مہربان شخصیت سے روشناس ہوئی. فقیہہ گل، سعدیہ ذوالفقار، زیب النساء، آپی کنیز فاطمہ، آپی عفراء ندیم جیسی پرخلوص کلاس فیلوز سے وابستگی بھی اسی ادارے کا فیض ہے.
ادارہ کے دفتری عملہ بہت تعاون کرنے والا اور شفیق ہے. خاص طور پر انکل عباس، انکل یونس کا مشفق رویہ نہ بھولنے والا ہے. بابر بھائی، عظیم بھائی اگرچہ کام کرتے نخرے دکھاتے تھے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی معاملے میں ان کی مدد درکار ہو اور آگے بڑھ کر کام کرتے نظر نہ آئیں۔
لائبریرین شہباز بھائی، ان کے عملے کے فرد ظریف بھائی ہمہ وقت خوش دلی سے کتابیں فراہم کرتے، سر سعد کے دفتر میں متعین خاتون اسٹینو گرافر ”طاہرہ باجی“ جو کہ بڑی بہنوں کی مانند آج بھی میری آمد کی منتظر رہتی ہیں۔ غرض کس کس کا ذکر کروں اور کس کس کا نام لوں؟ خاتون مددگار کا جنہیں ہم سب آنٹی کہتے، جو متفکر ماں کی مانند کامن روم میں ہماری آمد کی منتظر رہا کرتیں۔
صفائی والے بابا عنایت کا بتاؤں یا مالی محمد ولایت کا، سر سعد کے دفتر کے باہر بیٹھنے والے احمد بھائی کا یا فوٹو کاپی شاپ والے حبیب بھائی کا، اس ادارے میں کام کرنے والا ہر فرد میرے لیے اہم اور محترم ہے کیوں کہ ان سب کے ساتھ بہت یادگار وقت گزرا ہے۔
لائبریری، کینٹین، باغیچے، کھجور کے درخت، یہاں تک کہ ادارے کو جانے والے راستے جب مجھے اپنی طرف بلاتے معلوم ہوتے ہیں تو بے ساختہ دل کرتا ہے کہ وہ زمانہ لوٹ آئے جب نوٹس بنانے، لائبریری بھاگنے، رٹے لگانے اور کتابیں کھنگالنے کے سوا کوئی فکر نہ تھی. جب زندگی ایک خواب کی مانند اس سفید محل کی اونچی، ٹھنڈی چھتوں کے نیچے دوستوں، ساتھیوں اور ہم جماعتوں کی پر لطف سنگت میں رواں تھی۔
کاش اے کاش!!!
4 پر “سفید محل” جوابات
کاش کہ اے کاش…. ایک اور دل کو چھو لینے والی تحریر ماشاءاللہ ❤️❤️❤️
Umdaa tehreer…is deptt mein guzra taleemi safar boht yad ata hy…behtreen waqt guzra yahn…ap kay sath behtreen dosti ka taluq isi dept mein he shuru hoa…jo aj tk qaim hy…yeh khoobsort tehreer mjy taleemi safar ka aik aik din yad kara gai…boht acha waqt guzra…aur behtreen teachers say parhny ka moqa mila…meri khush naseebi hy kay mjy ap jaisi khuloos wali dost mili…jis kay sath aj b meri dosti ka rishta qaim hy..aur hmesha qaim rahy ga..inshaAllah
السلا م و علیکم۔ڈاکٹر شا ئستہ آج تو دل کی تاریں چیھڑنے والی تحریر ہے میرا نہی خیال کوئِی ایسا ہو گا جس کا جا معہ پنجاب کے ساتھ تعلق ہو اور اسے اس درسگاہ سے محبت نہ ہوں۔مجھے تو لگتا ہے یہ قدرتی جذ بہ ہے ۔آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے اس جذ بہ میں نگھا ر آ جا تا ہے۔میری زندگی کے خوبصورت اور جا معہ سے منسلک لوگوں میں آ پ کا نام بھی سر فہرست ہے۔میں آپ کا یہ سفید اور پر کشش محل دیکھنے گی کوئی شک نہی یہ بہت خو بصورت ہے اور مجھے آپ کی بہت یاد آئی۔۔
شکر یہ
نہایت عمدہ الفاظ کے ساتھ ایک اور خوبصورت تحریر آپکی بہت پیاری یا دوں کو لیے.❤