نیر تاباں:
اے ایمان والو! معاہدوں کو پورا کرو(المائدہ۔1)
یہاں لفظ ”عقد“ استعمال ہوا ہے یعنی پکا وعدہ۔ اب یہ وعدہ اللہ سے ہو، یا اللہ کے بندوں سے، اسے پورا کیا جائے۔ یہ وعدہ چاہے ذاتی نوعیت کا ہو یا اجتماعی، مسلمان سے کیا ہو یا غیر مسلم سے۔ جب بھی کوئی کمٹمنٹ کریں، اسے نبھانے کی کوشش کریں۔ اتنی ہی ذمہ داری لیں، اس وقت ہی کی لیں جب پوری کرنا ممکن ہو۔
اللہ سے وعدوں میں ایک تو وہ ہیں جو اللہ کی طرف سے ہم پر فرض کر دئے گئے ہیں۔ ان کو پورا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ باقی فرائض تو سب کو معلوم ہی ہیں، وراثت کا ذکر بالخصوص کرنا چاہوں گی کیونکہ مال کی چاہت انسان کو بار بار بھٹکاتی ہے۔
کتنے ہی لوگ، دین دار بھی اور دنیادار بھی، وراثت کی ادائیگی میں ڈنڈی مار جاتے ہیں، جبکہ یہ بھی معلوم ہے کہ کسی کی زمین کا ایک ذرا سا ٹکڑا ناحق لیا گیا تو سات زمینوں کا طوق گلے میں ڈالا جائے گا۔ زکوة پر بھی دھیان کرنا ضروری ہے۔ رنگا رنگ قسم کے بہانے بنا کر زکوة سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے پہلے ساڑھے سات تولہ پر زکوة فرض نہیں تو اگر ہمارے پاس دس تولے سونا ہے، ہم بس ڈھائی تولے پر زکوة دیں گے۔
اسی طرح چھوٹے بچوں کے نام اپنا زیور کر دینا کہ چھوٹے بچے پر زکوة فرض نہیں، اور سونا اب بچے کی ملکیت ہے۔ یوں اہلِ سبت کی طرح حیلے بہانوں سے زکوة سے بچتے ہیں۔ اللہ سے وعدوں میں دوسری قِسم ان وعدوں کی ہے جو ہم خود اللہ سے کر لیتے ہیں، جیسے قسم کھا لیتے ہیں۔ اب اس کو پورا کرنا انتہائی ضروری ہے، ورنہ کفارہ ادا کیا جائے۔
پھر وہ وعدے ٓاتے ہیں جو بندوں سے کئے جاتے ہیں۔ جیسے مقررہ وقت پر دعوت پر پہنچنے کا وعدہ۔ پورا ہال مہمانوں سے بھرا ہے اور ہم ابھی تک آئینے کے سامنے دوپٹہ سیٹ کر رہے ہیں۔ عادتاً دیر کر کے محفل میں پہنچنا بھی ہم دیسی خواتین میں عام ہے۔ اسی طرح مقررہ وقت پر قرض کی ادائیگی، یا کسی کی امانت واپس کرنے کا وعدہ۔
ہجرت کی رات نبی ﷺ اپنے پیچھے علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑ جاتے ہیں کہ امانتیں لوٹائی جائیں۔ جس وقت جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور پیارے نبی کا دھیان امانتوں میں اٹکا ہے، جاتے جاتے بھی انتظام کر کے جاتے ہیں۔ وعدے کی خلاف ورزی کرنے والے کو حدیث میں منافق کا درجہ دیا گیا ہے۔
انہی وعدوں میں جاب کانٹریکٹ بھی شامل ہیں۔ آج کل لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب گھر سے کام کر رہے ہیں۔ لیکن کیا واقعی کام کر رہے ہیں؟ رزقِ حلال مانگتے ہیں نا ہم رب سے، تو کیا تنخواہ کے عوض گھر سے کام کر کے رزق حلال کر رہے ہیں ہم؟ یاد رہے کہ یہ بھی ایک وعدہ ہے کہ آپ ہمارے لئے کام کریں اور بدلے میں اتنے پیسے کمائیں۔
ایک جاننے والے ہیں جنہیں ہائر ایجوکیشن کمیشن والوں نے پی ایچ ڈی کرنے کے لئے انگلینڈ بھیجا۔ اب معاہدے میں یہ بات شامل تھی کہ ڈاکٹریٹ کے بعد یا تو پانچ سال پاکستان میں خدمات سرانجام دی جائیں، یا پی ایچ ڈی کی رقم ادا کی جائے جو کہ غالباً 35 لاکھ روپے بن رہی تھی۔
پی ایچ ڈی مکمل ہو چکی تھی، فیملی کے ساتھ انگلینڈ میں مقیم تھے۔ ایسے میں بہت ٓاسان تھا کہ نہ تو پاکستان جا کر خدمات سرانجام دی جائیں، نہ ہی پیسوں کی ادائیگی کی جائے۔ یہ وعدے کی پاس داری تھی کہ انہوں نے یہ کثیر رقم ادا کی۔
عقد کی قسموں میں عقدة النکاح کو یاد رکھنا بہت اہم ہے، جو اللہ سے بھی وعدہ ہے اور بندوں سے بھی۔ خواتین بھی اس عہد کا خیال کریں اور مرد بھی پاس رکھیں۔ جو اعلیٰ اخلاق گھر سے باہر ہیں، گھر میں بھی انہی کا اطلاق کیا جائے۔ جو چیز اپنی ذات پر برداشت نہ ہو، دوسرے کو بھی اسکا پابند نہ کیا جائے۔ جسے اپنے لئے درست مانا جائے، اسے دوسرے کے لئے بھی جائز قرار دیا جائے۔ اسی صورت میں عقد النکاح کی پاسداری ممکن ہے۔
اس ایک عہد کی پاسداری نہ کی جائے تو بہت سی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں، بلکہ یوں کہئے کہ اثر نسلوں تک جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خطبہ نکاح میں پڑھی جانے والی آیات میں بار بار آتا ہے اتقوا اللہ! ڈرو اللہ سے ،اللہ کا تقوی اختیار کرو –