خودکلامی/ زبیر منصوری
کوئی سمجھتا ہے کہ ہمیں اینگن التان نامی ایکٹر سے محبت ہے تو وہ غلط سمجھتا ہے،
کوئی سمجھتا ہے کہ ہمیں تاریخ کے ایک بادشاہ ارطغرل کی ساری اچھائیاں برائیاں پسند ہیں وہ بھی غلط سمجھتا ہے،
کوئی سمجھتا ہے کہ ہم تلواروں ڈھالوں اور گھوڑوں کے ذریعہ ہی جہاد کی دنیا میں نوجوانوں کو لے جانا چاہتے ہیں وہ بھی سمجھ لے کہ ایسا نہیں ہے،
کوئی سمجھتا ہے کہ ہم ڈرامہ سے بس اس کے سسپنس، اس کے اتار چڑھاؤ اور ایکٹنگ کو انجوائے کرتے ہیں تو بھی غلط فہمی دور کر لے
کسی کے خیال میں ہم سمجھتے ہیں کہ اس ڈرامہ سے انقلاب ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے آ جائے گا تو وہ بھی ہمارے بارے میں غلط اندازہ لگاتا ہے۔
میرے عزیزو!
یہ ڈرامہ تو بس ایک ذریعہ ہےاس شکست خوردہ ذہنیت سے نکل کر فتح، کامیابی، عروج، جذبہ، حوصلہ، ولولہ بانٹنے کا کہ جس کی مدد سے دشمن نے بڑی عیاری سے اس امت کے نوجوانوں کو شکست خوردہ بنا دیا ہےاور یہی کامیابی کا یقین امنگ اور جیت کا جوش ہی انشااللہ عروج کی پہلی سیڑھی بنے گا۔
یہ ڈرامہ تو بس ایک موقع بن گیا ہے ہم اس سے امت کا تصور کشید کرتے ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں کہ
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
اور دشمن ہمیں کھینچ کھینچ کر پھر چھوٹی چھوٹی قومیتوں کے خانوں میں بند کرنا چاہتے ہیں۔
یہ ڈرامہ ہمیں سبق دیتا ہے اپنے تابناک ماضی سے جڑنے اور اپنے بڑوں کے اچھے کارناموں سے سیکھنے کا اور ساتھ ساتھ اس ڈی بریفننگ کا کہ ظلم اگر ارطغرل کرے یا عثمان وہ ظلم ہی ہو گا۔ فتح تو دراصل تلوار اور جدوجہد کی نہیں اللہ کی عطا ہےاور ایسے میں جب ہم ٹی وی جیسی خرافات بن جانے والی اسکرین سے اللہ اکبر کے نعرے سنتے اور نظام عدل کے قیام کا اعلان دیکھتے ہیں تو بے اختیار کھل اٹھتے ہیں مگر نجانے کیوں کچھ دوست اس خوشی کو بھی دیکھ نہیں پاتے اس میں بھی مین میخ نکالنے لگ جاتے ہیں۔
یہ ڈرامہ دیکھتے ہوئے میں تو نوجوانوں کو ساتھ ساتھ روک کر ڈسکشن کے ذریعے ڈی بریف کرتا ہوں۔ ہم لرننگز شئیر کرتے ہیں جو سامنے نظر آتا ہے اس کا ڈرامائی لطف تو دراصل کھیت میں اوپر نظر آنے والے پتے ہیں اصل تو ذرا وہیں کھودنے سے ملتا ہے۔
یہ ڈرامہ دیکھتے ہوئے ہم ان کی تلواروں اور تیروں نہیں ترکیبوں اوردشمن کے تجربات سے سیکھنا سیکھتے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ ہر عہد کے اپنے تیر و ترکش ہوتے ہیں جیسے اس دور کا اسلحہ ٹیکنالوجی ابلاغ اور پلاننگ مگر اصل بات بس بنیادی انسانی اوصاف!
اس ڈرامہ میں ہم تو اردوان کے وہ پیغامات پڑھتے ہیں جو مغرب کو وہ ارطغرل کے منہ سے دلوارہا ہے
ہم اس سے ٹیم، اطاعت، تنظیم ،ایمان، جرات، صاف ذہن، محبت کا باہمی تعلق پاکیزہ معاشرت سیکھتے ہیں۔
ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی حرف آخر نہیں ڈرامائی تشکیل سے لے کر اسلامی افکار تک چند چیزیں بالکل اسی طرح ہضم کرنے والی نہیں مگر ہم چیزوں کو موجود حالات GIVEN SITUATION کے تناظر میں دیکھتے ہیں، آئیڈیل حالات کے تناظر میں نہیں کیونکہ جو کچھ امت کو دکھایا ، سنایا، پڑھایا جا رہا ہے اس کے مقابل یہ غنیمت ہے بلکہ بہترین ہے ۔۔