افرودیتی، حسن و عشق کی دیوی

افرودیتی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

حسن وعشق کی دیوی کے ساتھ ناز و نیاز کا ایک خوبصورت اظہار

دعا عظیمی:

جاتی بہار کا ایک عام سا دن تھا، چیت ختم ہونے والا تھا، بیساکھی کی تپش سے بھری ہوائوں کو جھیلنے کے لیے تن کے تندور تیار تھے. رات خلاف توقع چھینٹے پڑے تھے جس کی ٹھنڈک سے جاتے چیت پر بیتے پھاگن کے اثرات کا شائبہ تھا۔

کتھئی پروں پہ سفید دائرے لیے تتلیاں اڑتی پھر رہی تھیں۔ کبوتروں کی غٹرغوں خامشی کا غرور توڑرہی تھی ۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد گلی سے مانوس اور مخصوص آوازیں دستک دیتی ہوئی ہوا کےدوش پر آگے کی جانب بڑھتی جا رہی تھیں جن میں خوانچہ فروشوں کی آوازیں نمایاں تھیں۔

فراغت کے اوقات میں، میں چلتا ہوا پچھلی طرف درختوں کے جنگل کی جانب نکل جایا کرتا تھا اور کوئی پُرسکون جگہ تلاش کرتا اور خود کلامی کیا کرتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ بھرے شہر میں میری فریکوینسی کسی سے نہی ملتی تھی۔

بس شہر پُر آشوب سے مجھے گھٹن محسوس ہوتی تھی جبکہ فطرت اور خاموشی مجھے مجھ پہ روشن کرتی تھی، کبھی کبھار خود سے ملاقات بھی تو ضروری ہوتی ہے۔ تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے..یہ میرا معمول تھا.

اس روز بھی سکون کی تلاش میں، میں جنگلی خود رو جھاڑیوں سے بچتا بچاتا ہوا ،پھولوں کو دیکھتا، ماحول میں ہوا کی سرسراہٹ کو سنتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک آہٹ نے مجھے چونکا دیا.
”یہاں کوئی ہے؟“

میں نے آواز کی سمت دیکھا، مجھ سے کچھ فاصلے پر ایک بیضوی شکل کا تالاب تھا جس کاپانی کبھی ہلکا نیلا ، کبھی گہرا سبز اور چیری بلاسم کے کھلتے پھولوں کی چھائوں میں رنگ بدلتا تھا۔ جامنی مائل گلابی جالی کا لباس پہنے کیا وہ کوئی حور تھی پری یا جل پری،

اس کی کٹارا سی آنکھیں مجھ پہ مرکوز تھیں، کہنے لگی،” تم کون ہو؟ “
کیا بتاتا …
ہم کون سی زبان میں ہم کلام تھے میں بتا نہیں سکتا۔ میں اس ذبان سے نآشنا تھامگرمیں جو بولتاتھا اسےسمجھ آتی تھی۔

میں نے پوچھا:
”کیا تم زہرہ ہو؟“
”وینس ،افرودیتی، ہاں! تم مجھے کیسے جانتے ہو۔۔۔۔؟“

”اے حسن کی معبودہ! میں ایک شاعر ہوں اور وہ کون سا شاعر ہو گا جو تم سے بے خبر ہو …“
وہ مسکرائی، اور معلوم ہوا اس کی مسکراہٹ سے پورب سے لے کر پچھم تک روشنی پھیل گئی، ایک دودھیا سفید روشنی۔۔۔ کیا تم وہی افرودیتی ہو جو قبرص کے جزیرے پر عبادت کے اعلیٰ مرکز پافوس کے قریب پیدا ہوئی، جھاگ کی بیٹی ۔۔۔۔ ؟“

”تم میرے متعلق جو بھی جانتے ہو مجھے سب بتاؤ۔۔۔“ اس کی آنکھوں میں حیرت تھی کہ میں اسے پہچان رہا ہوں۔ مجھے معلوم تھا کیونکہ میرے پاس اوائل جوانی سے ہی اس کا ایک مجسمہ تھا۔ وہ صرف جنس اور محبت ہی نہیں بلکہ ان تمام کیفیات اور جذبوں کی دیوی تھی جن کی وجہ سے انسان ایک دوسرے کے ساتھ سماجی رشتوں رابطوں اور تعلقات میں بندھے ہوئے تھے۔

میں نے یونانی متھالوجی اور دیویوں دیوتاؤں کی تاریخ پڑھ رکھی تھی. یونان کی دیوی انتہائی پاکیزہ، مہذب ، شائستہ، مثالی محبت کی معبودہ تھی. اور دوسری طرف اس کی عمل داری میں ساری نباتاتی، حیوانی اور انسانی زندگی آتی تھی۔

”مجھے معلوم ہے آپ میری خاطر مشرق وسطیٰ سے یونان کی طرف آئی تھیں۔۔۔۔ اور آپ پر مشرق کے اثرات تھے.“ میں اسے دیکھتے رہنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔!!!!
وہ اولین کنواری دیوی کا ایک حسین روپ تھی۔۔ ”کیا میں آپ کو روپا کہہ کے پکار سکتا ہوں؟“

ایک بار پھر اس کی زلفیں ہوا میں بکھریں اور آسمان سرمئی بادلوں سے ڈھک گیا۔ سر کے نور افشاں بالوں سے لے کر سیمیں پاؤں تلک اس کا پورا بدن بےداغ تناسب ، موزونیت، اور دل آویزی کا بے مثال شاہکار تھا۔

میں اس کی دل نواز مسکراہٹ کا اسیر ہوچکا تھا۔ وہ ملکہ خنداں تھی، وہ کبھی تو شیریں انداز میں متبسم رہتی ، کبھی اسیران حسن کا ٹھٹھا اڑانے لگتی۔ اچانک میری نگاہ اس کے تاج کی طرف اٹھی، کیا گلاب کے پھولوں سے بنا حسین تاج تھا، گلابی اور لال گلابوں سے بنا ہوا بیش بہا مہکتا تاج۔۔۔

میں نے سن رکھا تھا کہ گلاب اپنی گلابی پن اور لالی کے لیے افرودیتی کا ہی شرمندہ احسان ہے۔ جس روز وہ اپنے بیمار شوہر کی تیمارداری کے لیے بےقرار بھاگ رہی تھی اس کے پاؤں میں کانٹا چبھا تھا جس سے خون کی بوند نکلی تھی اور گلاب نے وہ جذب کر لی تھی۔

جہاں اس کا قدم پڑتا دھرتی سبزہ وگل سے بھر جاتی، خوبصورت پھول کھل اٹھتے، سمندر میں موجیں شاد کام ہو جاتیں، خرام اور مست ہوائیں آگے آگے ہو لیتیں، بادل ساتھ ساتھ اس کے رتھ کے رواں رہتے۔ میں نے دیکھا اس نے اپنے کمر بند کو چھوا ، کیا حسین کمر بند تھا جو اس کی طاقت اور حسن کو دو آتشہ کر دیتا۔

وہ مجھ سے رخصت چاہتی تھی اس یقین کے ساتھ کہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی ۔ میری نثر کو مرصع بنائے گی میرے تخیل کو جھولا جھلائے گی ، میری تنہائی کو آباد رکھے گی، کبھی مجھے اشعار کے باغوں میں لے کر گھومے گی، کبھی میرے لفظوں میں افسانوی روپ بھرے گی۔

”میں نہیں چاہتا کہ آپ میری آنکھوں سے اوجھل ہوں“ میں نے جسارت کی، دل کی بات کہہ دینے کی جسارت۔ وہ میرے قریب ہوئی اتنے قریب کہ مجھے محسوس ہوا اس کی روشنیاں میری روشنیوں میں جذب ہو گئیں، دفعتاً میرے حواس جاتے رہے۔

اور میں اپنی آنکھوں سے اس کا حسین رتھ نہیں دیکھ سکا جو اس کے شوہر نے اس کو تحفے میں دے رکھا تھا کیونکہ ایتھننرشہر میں وہ باوقار شادی شدہ دیوی تھی۔

اے افرودیتی! میں تمہارا حسین رتھ دیکھنا چاہتا ہوں جس پہ تم سوار ہو کے جنگلوں، بیابانوں اور دلوں کو زرخیز کرتی ہو۔
ابھی خیال میرے من میں تھا کہ وہ پھر نظر آئی، کہنے لگی:” میں جس سے محبت کرتی ہوں اس کی ہر تمنا پوری کرتی ہوں۔ لو دیکھو! میں رتھ پہ سوار ہوں مگر دل تھام کے رکھنا، میری رخصتی ظرف مانگے گی، کیا تم اس کے لیے تیار ہو، میں نے اقرار میں سر ہلایا، میں تیار ہوں مگر منظر اتنا حسین تھا کہ میں برداشت نہ کر سکا۔

بے مثال رتھ دل فریب نقش و نگار سے سجا تھا اور اس رتھ کو سفید فاختائیں ،قمریاں اور راج ہنس کھینچ رہے تھے چار سفید راج ہنس تھے جن کی سبک گردنوں میں سنہری قوس قزح کے رنگوں سے بنی نازک زنجیریں تھیں۔

حسن کی معبودہ کے پیچھے بہت سی چھوٹی چڑیاں اور نایاب پرندے مسرور گیت گاتے محو پرواز تھے۔ اس کی تمام تر علامات مجھ پہ ظاہر ہو چکی تھیں۔ ہاں! یہ وہی تھی۔ میرے قریب انار کے درخت تھے، صنوبر، حنا اور گلاب مخمور تھے اور کیوں نہ ہوتے، ان کے سروں پہ حسن کی معبودہ کا آشیرباد تھا۔

وہ تخیل کی شاہزادی تھی۔ جب میری آنکھ کھلی وہ اپنا حسین تحفہ مجھے دے کر جا چکی تھی۔ میرے ہاتھ میں ایک سیپ تھا اس کے قرار و مسکن کی نشانی جس میں حروف اور تخیل کے سچے موتی تھے۔ میری نظمیں اور مصرعے اسی کی محبت کا فیضان ہیں۔ وہ بار ہا میرے قریب آئی، کئی دفعہ تو مجھے احساس ہوا وہ مجھے اپنے ساتھ لےجا چکی ہے۔

رات یونانی فلسفہ پڑھتے پڑھتے تھک گیا۔ میں علم الاعداد کےہندسہ چھ کے متعلق بھی بہت دیر سوچتا رہا جو سیارہ زہرہ کا ہندسہ ہے سوچتے سوچتے سو گیا۔ میں کچھ ارتقائی علوم کی تحقیق کر رہا تھا کہ کیسے انسان کی تہذیب، ثقافت اور علوم نے بتدریج ترقی کی اور یہ بھی جانا کہ سیارہ زہرہ آسمان پہ چمکنے والا سورج کے بعد سب سے روشن ستارہ ہے۔

شاید اسی ستارے کو دیکھتے دیکھتے سو گیا تھا کہ اس کی چمک خواب بن کر ظاہر ہوئی، عجیب بات ہے کہ میری زندگی زہرہ جمال سے خالی رہی اور میں تمام عمر اس کا منتظر رہا۔
کیا نمبر چھ کی کرامت اکیسویں صدی میں زائل ہو چکی تھی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں