بہت مشہور قول ہے کہ کتابوں کا مطالعہ کرنے والا فرد مرنے سے پہلے ہزاروں زندگیاں جیتا ہے لیکن جوکتابیں پڑھنے کا شغف نہیں رکھتا ، وہ ایک ہی زندگی جیتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد ایک ہی زندگی جی کر مرجاتی ہے۔ تاہم جناب زوار حسین جیسے اصحاب کا دم غنیمت ہے جو اس قدر شدید مصروفیات میں بھی باقاعدگی سے کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ صوبی خیبرپختونخواہ میں ’ایڈن کالج‘ نامی ایک تعلیمی ادارے کے روح رواں ہیں۔ ایک طویل عرصہ مصر میں گزارا، جہاں ایک بڑے ہوٹل کے شعبہ ایچ آر کے ڈائریکٹر رہے،اس سے پہلے فلوریڈا میں بھی مقیم رہے۔ فطری طور پر ایجوکیشنسٹ ہیں جبکہ سیاحت ان کی گھٹی میں پڑی ہے۔ اس کے لئے ہرلمحہ بے چین رہتے ہیں۔ ہم نے ان کے ذوق مطالعہ کے بارے میں جاننے کی کوشش کی، پوچھا کہ ’آج کل آپ کے زیرمطالعہ کون سی کتاب ہے؟‘ کہنے لگے:’ آخری عہد سلطنت مغلیہ کا ہندوستان‘۔
ہمارا اگلا سوال تھا:’ آپ کن موضوعات پر زیادہ تر مطالعہ کرنا پسند کرتے ہیں؟ اس پسندیدگی کی وجہ؟‘ جناب زوارحسین کاکہناتھا:’ تاریخ پڑھنے کا شوق ہے۔ مختلف اقوام کے عروج و زوال، جنگی مہمات، عوام کی فلاح وترقی ، اور انداز حکومت جیسے نکات جاننا خصوصی طور پر مطمع نظر ہوتے ہیں۔اور موجودہ حالات سے تقابلی جائزہ اور تاریخی اثرات کاادراک کرنے کی کوشش کرتا ہوں‘۔
’کون سا مصنف یا کون سے مصنفین آپ کے پسندیدہ ہیں؟ اس پسندیدگی کی وجہ؟‘
’چونکہ تاریخ ہی زیر مطالعہ ہوتا ہے۔ اسی لئے نسیم حجازی کے ناول نگاری سے متاثر ہوں۔ سید ابوالاعلٰی مودودی کے قلم سے اسلامی تاریخی واقعات عام فہم ہونے اور سہل تجزیہ کی وجہ سے زیادہ پسند ہیں۔ جیسا کہ خلافت و ملوکیت میں ہے‘۔
’جیسا کہ اوپر عرض کرچکا ہوں، انسانی ارتقاء سے شغف ہے۔ اور تجسس ہے کہ انسان کو اللہ تعالٰی نے انسان کو مثبت اور منفی خواص سے نوازا ہے۔ اس ارتقاء کے دوران انسان نے مثبت پہلوؤں کا اور منفی کا کتنا استعمال کیا۔ انسان کس طرح اور کس کے دور میں کتنا ابتلاء میں رہا اور کس وقت اور کس کے دور میں سکون اور امن نصیب ہوا۔ جس نے بھی اس حوالے سے تحقیق و تالیف کی ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں‘۔
جناب زوارحسین کا مزید کہناتھا:’چونکہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا دور ہے۔ کتابیں خریدنا، تلاش کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ دوسری طرف ناشر اداروں نے بھی طباعت کم کردی ہے جبکہ دوسری طرف پی ڈی ایف میں کتب کی دستیابی نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔ تو دستی کتابوں کی طرف دھیان کم ہورہا ہے۔ تاہم یہ بات بہت ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ جو لطف دستی کتب میں ہے وہ انٹرنیٹ پر موجود کتابوں میں نہیں۔ تاہم میں آن لائن علم کیلئے مختلف فورم استعمال کرتا ہوں جہاں سے مستند تاریخی حوالے مل سکیں۔ جواب در جواب اور مزید خود تحقیقی سے حالات و واقعات کی جان پرکھ ہوجاتی ہے۔ اس طریقہ کار سے کافی مستند استفادہ ہورہا ہے‘۔