ڈاکٹر فائقہ اویس:
کو رونا نے دنیا کو اکٹھا بھی کر دیا ہے اور الگ تھلگ بھی۔ الگ اس لئے کہ فلائیٹس کینسل ہو گئیں، فضائی رابطہ منقطع ہوگیا، جو جہاں تھا ، وہیں ٹھہر گیا، چاہے لوگ تھے، کام تھے، منصوبے تھے یا ذاتی تقریبات۔ ان میں سے کچھ راستے نکالے گئے، کچھ حل ڈھونڈے گئے، کچھ ضروری اور مجبوری کے کام سر انجام دئیے گئے، ہئیت بدل کر اور سوچ بدل کر۔
بہت ساری چیزوں، بہت سارے خرچوں کے بغیر رہنے کا ڈھنگ سیکھا گیا، لوگوں کے بغیر اور لوگوں کی صحبت کے بغیر جینے اور کام کرنے کے طریقے اختیار کئے گئے، عشق نے بھی وقت کی تقسیم سیکھ لی اور اپنے پیاروں کی دوری برداشت کرنے کا دل کو حوصلہ آ گیا۔ زندگی کے ایندھن کی فراہمی میں بھی فرق آ گیا،
روز کام کر کے لانے والے بے بس ہو گئے، روز لوگوں کو دینے والے بھی بے بس ہو گئے، اپنا خرچ چلانے کے لئے بھی تو وسائل کی ضرورت ہے۔ بہت آسانیاں بھی آ گئیں، بچے سکول نہیں جا رہے، صبح سویرے اٹھنا نہیں پڑ رہا، ان کی تیاری اور پھر سکول کی تھکاوٹ ختم ہو گئی۔
گاڑی کا پیٹرول کم خرچ ہو رہا ہے۔ خریداری کا خرچ کم ہو گیا۔ رمضان میں سحری اور افطاری کے انتظامات سے بچت ہو گئی۔ گھر کے کپڑوں میں ہی گزارا ہو رہا ہے۔ کچھ ایسے رکے کام کرنے کی فرصت مل گئی جو اب تک نہیں ہو سکے تھے۔ کسی نے اپنی زندگی میں کوئی نیا Resolution بنا لیا ہو گا، کسی کو سوچ نے کوئی نیا راستہ دکھا دیا ہو گا،
کوئی اپنا نیا سفر شروع کرنے کے لئے انتظار کر رہا ہوگا، کوئی اپنے پرانے سفر کو نیا موڑ دینے کی تیاری کر رہا ہو گا اور کوئی اپنی اسی زندگی کو پھر سے راہ پر لانے کی تگ و دو کے بارے میں متفکر ہو گا۔
مغرب، مغرب رہ گیا ہے اور مشرق، مشرق رہ گیا ہے۔ نئے مواصلاتی اور معلوماتی دور میں دونوں جہان اتنے قریب آ گئے تھے کہ شاید مشرق مغرب بن جاتا اور مغرب مشرق بن جاتا۔ کمپنی مغرب میں تو سافٹ وئیر مشرق میں، بریانی مشرقی تو پکانے والوں کے ویزے مغربی۔
مغرب پریشان کہ چکن کری پکانے والے کو ویزا نہ ملا تو اس وراثت کو کون سنبھالے گا اور مشرق حیران کہ نئی ویکسین اور دوائی نہ آئی تو مرض کا خاتمہ کیسے ہو گا۔
اس کورونا نے الگ تو کیا لیکن جوڑ بھی دیا۔ آخر نکلا ذات کا وائرس ، جڑے اور جوڑے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ناں۔
اگر ووہان نے لاک ڈاؤن برداشت کیا ہے تو نیو یارک بھی وہ لاک ڈاؤن برداشت کر رہا ہے۔ مغرب نے اپنے عزیزوں اور رشتوں کو اس کو رونا کی نذر کیا تو مشرق بھی کچھ کمی بیشی کے ساتھ یہی قربانی دے رہا ہے۔
اسپین، جرمنی یا برطانیہ میں گھر کے اندر بیٹھ کر ایک انسان وہی کچھ محسوس کر رہا ہو گا جو پاکستان،انڈیا، یا ایران میں ایک انسان محسوس کر رہا ہو گا۔ یہ تو ضرور ہے کہ سوچ کی زبان مختلف ہو گی لیکن لگتا نہیں کہ جو سوچا جا رہا ہو گا وہ بھی مختلف ہو گا۔
اٹلی میں اور ویٹیکن میں چرچ اور کیتھیڈرل بھی عوام کے لئےبند ہوئے تو سعودی عرب میں بھی مساجد اور حرمین میں عوام کے اجتماع کو عارضی طور پر بند کیا گیا۔ ایسٹر تنہائی میں منایا گیا تو اب عید بھی اسی تنہائی میں منائی جائے گی، رمضان میں بھی کئی کرسیاں اپنےمتوقع آنے والوں کا انتظار کرتی رہ گئیں۔
بے شک مشرق اور مغرب کبھی ایک نہیں ہو سکتے اس لئے کہ ان کی درمیان سات سمندر حائل ہیں، لیکن وہ اس لئے تو ایک ہو سکتے ہیں کہ ان کے دل ایک ہی طرح دھڑکتے ہیں، دماغ ایک ہی انداز میں سوچتے ہیں، آنکھیں ایک ہی طرح سے دیکھتی ہیں اور کان ایک ہی جیسا سنتے ہیں۔
اور یہ سب ایک ہی وائرس کا شکار ہو کر اپنی مادی اور روحانی زندگی میں نے نئے تجربات کا سامنا کر رہے ہیں۔
ان میں سے کئی ایسے ہوں گے جو تنہائی میں رہنے سے گھبراتے ہیں، کئی ایسے ہوں گے جو اپنے کچھ کاموں کو دوسرے کے ساتھ رہ کر زیادہ اچھا انجام دے سکتے ہوں گے، اور کئی ایسے بھی ہوں گے جو نئی زندگی کے طریقوں کے بغیر زیادہ مطمئن ہوں گے۔ اور کئی ایسے بھی ہوں گے جن کا مرض کو رونا نہیں ہو گا اور انہیں بھی علاج کی ضرورت ہوگی، ان میں سے کچھ کی زندگی کا سفر بھی انہیں دنیا میں ختم ہوا ہو گا۔
اقتصادی اور معاشی نقصان کا تخمینہ لگ بھی رہا ہے اور لگے گا بھی، لیکن نفسیاتی نقصان کا تخمینہ کب اور کیسے لگایا جائے گا۔