محمدہ بخاری:
رات کی تاریکی میں کھلے آسمان تلے ہلکی سی چاند کی روشنی میں نظر آنے والے خیموں میں سے ایک خیمے سے سسکنے کی آوازآرہی تھی جیسےکوئی فریاد کر رہا ہو۔ نوجوان کا چہرہ مبارک جو ہمیشہ چودھویں کے چاند کی مانند چمکتا تھا آج سرخ تھا کسی واقعے کی آمد پر دل بے چین تھا . سکون کا واحد حل یہی لگا کہ اپنی بے بسی کا اظہار کرے صرف اس کے سامنے جو تھام لے، قرار دے ، مرہم رکهے، راستہ نکالے، کمزوری کو طاقت میں بدل دے۔
دعا مانگی جارہی تھی
اے اللہ! میں تیرے عہد اور تیرے وعدے کا واسطہ دے کر فریاد کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تو چاہے تو آج کے بعد تیری عبادت نہ کی جائے گی۔
ہانڈی کے ابال کی طرح سینے سے نکلتی آواز خاموشی کو توڑ رہی تھی . عاجزی و یقین کے ساتھ مانگی جانے والی دعا میں محسوس ہو رہا تھا کائنات کی تمام مخلوق شامل ہو گئی ہے، ہونٹ ہل رہے تھے، بے اختیار آنسو رخسار مبارک سے پھسل کر ڈاڑھی مبارک کو بھگو رہے تھے۔
فکر مندی تھی اپنے ساتھیوں کے لئے اگر یہ مٹھی بھر ہلاک ہو گئے تو اللہ ! تیرا نام کون لے گا؟
اپنے ساتھیوں کی کمزوری کا علم تھا تو دوسری طرف غیبی مدد کا یقین بھی۔
مشکل صورتحال سے واقفیت تھی ساتھ مستقبل کی فتح کی امید بھی۔
دشمن کے کثرت تعداد کا علم تھا تو اپنے زور بازو پر یقین بھی۔
اپنے رب سے حاجات کے دوران محمد عربی خود کو بھول گئے. کندهے کی چادر گر گئی مگر توجہ نہ بھٹکی. اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا: بس کیجئے اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے حضور میں دعا کی حد کر دی ہے۔
دعا قبول کر لی گئی دل کے اطمینان کے لئے خوشخبری سنائی جارہی تهی، نصرت کا وعدہ کیا گیا تین ہزار کی بجائے اب پانچ ہزار کا لشکر اتارا جائے گا.
آج فیصلہ کن رات تھی۔ ترازو رکھ دیا گیا تھا سب منتظر تھے کون سا پلڑا بھاری رہے گا؟
تین سو ساٹھ بت یا ایک خدا؟
دین مستقل کون سارہے گا؟
غالب لوگ کون ہوں گے؟
مغلوب کون ہوں گے؟
کثرت تعداد دنیا کا نقشہ بدل دینے والی ہے یا مٹھی بھر نوجوان؟
سامان دنیا بازی لیتا ہے یا صرف ایک خدا کی نصرت؟
خیمے میں داخل ہوتے ہی آدمی پوری قوت سے بولنے لگا: ”یہ مکہ بدلا ہوا کیوں محسوس ہو رہا ہے؟“ سامنے بیٹھے نوجوانوں نے اس کی طرف دیکھا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
بیٹھتے ہی پھر سے سوال کیا :”یہ تیاریاں کس لئے ہو رہی ہیں؟ کس نے مکہ پر چڑھائی کرکے اپنی موت کو آواز دے دی؟“
اب سامنے بیٹھے ہوئے نوجوانوں نے جواب دیا :”ابھی کسی میں اتنی ہمت نہیں، ہمارے ہوتے مکہ کو حاصل کر سکے ۔ ہم چڑھائی کرنے جارہے ہیں۔“
نوجوان پرسکون ہوا:” اچھا ۔۔۔۔۔ مگر کس پر چڑھائی کر رہے ہیں؟“
”محمد (ﷺ )پر اور اس کے چند ماننے والے غلاموں پر“ نوجوان کے لہجے میں نفرت تھی.
“محمد پر۔۔۔ “حیران ہوتے ہوئے” مگر وہ تو شر پسند بالکل بھی نہیں۔“
”آہ.. “سانس لیتے ہوئے” اُس نے ہماری زندگیوں کا سکون چھین لیا، تمہارے مکہ جانے کے کچھ دنوں بعد نیا دین لے آیا ہے۔“
”نیا دین؟؟ “ حیرانگی سے لفظ نکلا.
”آبائواجداد کے دین کو چھوڑ کر ایک خدا کی مانو۔“ اب دوسرے نوجوان نے مداخلت کی.
”کیا ایک خدا؟؟ اب کیا ہم تین سو ساٹھ خدائوں کو چھوڑ کرایک خدا کو مانیں“۔ قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
”بات یہاں ختم نہیں ہوتی محمد (ﷺ )کہتا ہے کہ تم لاالہ الا للہ کہو فلاح پا جائو گے“۔ دوست نے مزید وضاحت دی.
”ویسے کہنے میں کیا حرج ہے اس کی بھی مان لیتے ہیں، اپنی بھی“۔ آنکھ سے اشارہ کیا۔
”کیا ؟ اس کی مان لیں، اپنی سرداری چھوڑ دیں، حرب! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ مر جائیں گے مگر اس کی بات نہیں مانیں گے“ لہجے میں تیزی آچکی تھی۔
ہنستے ہوئے” میں تو مذاق کر رہا تھا۔ لعنت ہو مجھ پر اگر اپنے آبائو اجداد کے دین کو چھوڑ دوں۔ تم دیکھو گے میری موت اپنے آبائو اجداد کے دین پر ہو گی. اگر ایسا نہ ہوا تو کوے میری لاش کو نوچ کھائیں“.
اس کے ساتھی نے کندھا تھپتھپایا،
” اب کی مردوں والی بات“۔ خوش ہوتے ہوئے کہا.
سب مسکراتے ہوئے اپنے ہتھیار کو تیز کرنے میں لگ گئے.
توقف کے بعد پھر سے سوال کیا لڑائی کس جگہ ہونی ہے؟؟
بدر کے مقام پر، کنواں کے قریب اپنے خیمے لگائیں گے.اس کنویں کے کثیر پانی سے سیراب ہوں گے، پیاسے نہیں مریں گے ، ہمارے سارے تجارتی قافلے بھی اسی راستے سے آتے جاتے ہیں۔ مصروف شاہراہ ہے ہر طرف سے فائدے میں رہیں گے“۔
زبردست خوش ہوتے ہوئے اگلا سوال کیا :”حالات کیا بتاتے ہیں، فتح کس کے قدم چومے گی؟“
انتہائی فخر سے
”ہمارے قدم چومے گی، پورا مکہ ساتھ ہے ہمارے ،اس کے علاوہ باقی بہت سے قبیلے ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔ سب قبیلوں نے قسم کھائی ہےکہ اب ان بے دین لوگوں کو ایک زبردست حملے سے زیر زمین سلا دیں گے“.
”محمد اور اس کے ساتھی ہمارا مقابلہ تو ویسے ہی نہیں کر پائیں گے، چند غلام ہیں اس کے لشکر میں، سارے ہی بھوک زدہ ہیں . ہمارے پاس ہزار کا لشکر ہے ساتھ گھوڑے، اونٹ ، تلواریں سب سے بڑھ کر ہمارے جنگجو۔ کون ہے جو ان کو شکست دے؟
لہجے میں تفاخر تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم زرہ پہنے باہر تشریف لائے تو زبان مبارک پر آنے والی آیت آپ ﷺ کے ساتھیوں کے لئے تسلی تھی .
سیھزم الجمع و یولون الدبر۔ بل الساعۃ موعدھم والساعۃ ادھی و امر”جماعت ( مشرکین ) جلد ہی شکست کھا کر بھاگ جائے گی اور پیٹھ دکھانا اختیار کرے گی.
17 رمضان المبارک کو دو قافلے آمنے سامنے تھے۔
ایک لشکر سامان دنیا سے لبریز جن کے ذہن میں مخالف کو بآسانی شکست دینے کا غرور تھا۔
دوسری طرف وہ لشکر تھا
سامان دنیا 2 گھوڑے، 8 تلواریں، 10 اونٹ فقط
جسمانی حالت سوکھے گلے،ہونٹ خشک ، حالت صوم میں، دل کی دھڑکن نعرہ تکبیر سے تیز ہوتی جارہی تھی۔ آنکھوں میں خوف نہیں تھا، مدمقابل کی کثیر تعداد کو دیکھ کر ٹانگیں کانپ نہیں رہی تھیں.
قدموں میں ثباتی آرہی تھی۔ دل و زبان ذکر میں لگ چکے تھے۔
مکہ سے لاالہ الاللہ کہنے پر نکال دینے والوں کے لئے تو آج انتقام کا دن بھی تھا ، خون کھول رہا تھا مگرآج انتقام نہیں وفاداری نبھانی تھی۔ اس دعوے کو پورا کرنا تھا جو جنگ سے قبل اپنے ساتھی کے پکارنے پر کیا گیا تھا ۔
مہاجر ساتھیوں نے اپنا وعدہ کیا
لبیک یا رسول اللہ فداک امی و ابی
لن نقول مثل بنی اسرائیل ،اذھب أنت وربك فقاتل ان ھھنا قاعدون
بل اذھب انت و ربک فقاتل نحن معک مقاتلون۔
آپ آگے بڑھیں ہم آگے بڑھیں گے آپ دائیں مڑیں ہم دائیں مڑیں گے
آپ بائیں مڑیں ہم بائیں مڑئیں گے آپ پیچھے ہٹیں ہم پیچھے ہٹیں گے آپ کے
آگے قربان ہوں گے آپ کے پیچھے قربان ہوں گے۔ہماری لاشوں سے گزر کا کوئی
آپ تک پہنچ پائے گا۔
انصاری ساتھیوں کے بھی جذبات بھڑک اٹھے اور اپنے وفا داری کا یقین دلایا
یا رسول اللہ
ہم نے آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا، آپ پر ایمان لائے، آسمان سے جو آپ ہمیں سنا رہے ہیں وہ حق ہے یا رسول اللہ ہم مکہ والوں سے پیچھے نہیں ہیں۔
آپ لڑیں جس سے لڑنا ہے ہم لڑیں گے۔آپ ہاتھ ملائیں جس سے ملانا ہے ہم
ملائیں گے۔آپ ہمیں آگے کریں ہم آگے لڑیں گے۔ آپ ہمیں حکم دیں آگ میں کود
جانے کا مدینہ کا ایک بچہ بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔آپ فرمائیں سمندر میں
چھلانگ لگا دو، سارا مدینہ غرق ہو جائے گا مگر کوئی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھے
گا۔آپ فرمائیں کہ یمن تک اونٹنیاں دوڑاتے چلے جائو خدا کی قسم ! پیچھے مڑ کر
نہ دیکھیں گے ہمارے بچوں کا کیا ہوا ہے۔
یہی وہ لشکر ہے جن کے جسم میں دوڑتے خون کا ہر قطر اس بات پر گواہی دیتا ہے
نحن الذین بایعوا محمدا
علی الجھاد ما بقینا ابدا
اللہ اکبر آج وعدوں کو عملاً ثابت کرنے کا دن ہے.
میدان سج گیا. بڑے بڑے جنگجو مدمقابل آئے ۔
ایک طرف سے عتبہ ،شیبہ ،ابوسفیان ،ابوجہل تھے دوسری طرف علی رضی اللہ عنہ، ابوبکر رضی اللہ عنہ،مقداد رضی اللہ عنہ ،حمزہ رضی اللہ عنہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں اشارے کے منتظر تھے۔ ادهر نعرہ تکبیر بلند ہوا، تلواریں میانوں سے نکلیں، سروں کو جسم سے جدا کرتی چلی گئیں.
منظر بدل گیا تھا ۔ شان و شوکت سے آئے قافلے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ ہر جابر وقت کی لاش زمین پر گرتے ہی سینہ پیٹا جانے لگا.مدد کے لئے پکارا جانے لگا مگر آج دیوتا بے بس تھے ان کی چالیں ناکام ہو چکی تھیں۔ اگر کسی کی چال کامیاب ہو رہی تھی تو ایک خدا کی.
مقابلے کو اب کوئی ماں کا لال تیار نہ تها سب پیٹھ پھیر کر بھاگے. ہر کسی کو اپنی جان بچانے کی فکر تھی .غرور خاک میں مل گیاتها.
دوسری طرف بظاہر کمزور نظر آنے والے پہاڑ معلوم ہوئے، ان پہاڑوں کو گرانا خود کو ہلاکت میں ڈالنے جیسا تھا. قوت ایمانی سے بجلی بن کر دشمن پر گرے کہ ان کو ہلنے کا موقع ہی نہ ملا .
ہر تلوار کا وار پیغام دے رہا تھا اب انسانی غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئیں بس وحدہ لاشریک کی غلامی باقی رہنے والی ہے. جسم سے علیحدہ ہوتا ہر عضو گواہی دے رہا تھا ہر باطل پرست کا انجام یہی ہوتا ہے. مہیب تاریکی یکایک نور میں بدل گئی.
جاء الحق وزهق الباطل ان الباطل کان زهوقا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جبرائیل الامین سوال کرتے ہیں:
یا رسول اللہ آپ اپنے درمیان بدری صحابہ کو کس درجے میں شمار کرتے ہیں؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں میں افضل.
جبرائیل الامین نے فرمایا اسی طرح فرشتوں میں سے وہ فرشتے افضل ہیں جو بدر میں شریک ہوئے تھے. سبحان اللہ.
دین اجنبی تها، دین کے غلبے اور اس کی صداقت و برکات کو ہر گھر تک پہنچانے کے لئے ایک قلیل جماعت کھڑی ہوئی جس کے پاس مادی وسائل کم تھے مگر ان کے اخلاص ،مقصد کی لگن ،ان اللہ معنا کے یقین، نے ان سے شاندار تاریخ رقم کروائی.
آج پهر سے دین اجنبی ہے.ابو جہل و بولہب اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر صف آراء ہیں. ہمیں اپنا لشکر منتخب کرنا ہے.
قلیل گروہ یا کثیر؟؟
دین حق یا ادیان باطلہ؟؟
آزمائش یا آسانیاں؟؟
سامان دنیا یا رضائے رب؟؟
اسی اجنبیت میں دین کو تھامنے والے یا غلبہ دین کے بعد فوج در فوج داخل ہونے والے؟؟