نیرتاباں:
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر کیے گئے تھے تا کہ تم متقی بنو
گویا رمضان المبارک کا مقصد اللہ نے یہ بتایا کہ ایمان والے متقی بن سکیں۔ متقی یعنی بچنے والے۔ گناہوں سے، نفس کے شر سے، شیاطین کے وسوسوں سے، اور اللہ کی ناراضگی سے۔ یہ ٹریننگ ہے اگلے گیارہ ماہ کے لئے۔ جیسے نیو ایئر ریزولوشن کی بات ہوتی ہے،
میں رمضان ریزولوشن کی بابت سوچتی ہوں۔ جب اندر سے نیکی کا جذبہ ابھرتا ہو، شیطان کو اللہ نے ایک ماہ کے لئے بند کر رکھا ہو، نیکی کرنا اور اس کی عادت ڈالنا قدرے آسان ہو تب اپنی بُری عادات سے چھٹکارا پانے کا بہترین وقت ہے۔
یہی گول رکھنا ہے ان شا اللہ۔ پانچ منٹ تنہائی میں بیٹھ کر سوچنا ہے کہ کیا میری نمازیں پوری ہیں، ان کے اوقات کا خیال رکھتے ہیں، کیا غیبت اور گاسپ میں مشغول تو نہیں رہتے، کیا سچ بولنے کے چکر میں کھری کھری سنا کر لوگوں کا دل تو نہیں دکھاتے پھرتے، کیا لوگ میرے ہاتھ اور زبان کے شر سے محفوظ ہیں؟
کیا پیسہ بے جا لٹاتا ہوں؟ کیا نیکی کے کاموں میں سُستی تو آڑے نہیں آ جاتی؟ کیا غص بصر یاد رکھتا ہوں، آس پاس کی خواتین کے حوالے سے بھی، اور سکرین پر کچھ ایسا نہیں دیکھتا جو کسی کو بتانے میں شرمندگی کا باعث ہو۔۔۔۔
سوچیں! اللہ اس آیت میں ایمان والوں کو مخاطب کر رہے ہیں یعنی مجھے، اور آپ کو۔ بہتر ہے چند لمحے رک کر اللہ تعالی کو ‘جی! میں آپکی بات سن رہی/رہا ہوں۔ میں خیال رکھوں گا۔’ کا سگنل دیں اور تقوی کے حصول کی طرف متوجہ ہوں۔
اگر میری طرح آپ بھی کسی متقی انسان کا ذکر کریں تو ہمہ وقت تسبیح ہاتھوں میں رولتے ایک بابا جی ذہن میں آتے ہیں، یا بڑی سی چادر میں لپٹی روشن چہرے والی ایک بزرگ سی خاتون جو سارا دن اپنے کمرے میں بیٹھی نوافل ادا کرتی رہتی ہیں تو متقی کے لفظ پر پھر غور کرنا ہو گا۔
آیت میں ہر ایمان والے کو مخاطب کیا گیا ہے، جس میں الحمد للّٰہ آپ اور میں بھی شامل ہیں۔ہم سبھی پر روزے فرض ہیں۔ اور ہم سبھی سے تقوی بھی ڈیمانڈ کیا گیا ہے۔ بار بار پلٹ کر روزے کی نیت چیک کرنی ہے (جی! ڈائیٹنگ روزے رکھنے کا ایک ثانوی فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن اسکو بنیادی نیت نہیں بنانا) ہمیں اپنی روز مرہ روٹین میں رہتے ہوئے،
دنیا کے سب معاملات نبھاتے ہوئے دین کو بیچ میں مکمل طور پر ایڈجسٹ کرنا ہے۔ ہر آپشن موجود ہوتے ہوئے بھی غلط آپشن سے بچنا ہے۔ یہی تقوی ہے۔ یہی مطلوب ہے۔