افشاں نوید:
رمضان تو آتا ہی گویا اباجی کے لئےتھا۔ایسے جوش وخروش سے استقبال کرتے جیسے بچھڑا ہوا بیٹا امریکہ سے کئی برس بعد آ رہا ہو۔ رمضان کو احترام سےھمیشہ ”رمضان شریف“کہتے تھے۔
وہ رمضان میں رچ بس جاتے تھے اور رمضان ان میں۔
سب بچوں کی سات برس کی عمر میں روزہ کشائی کروائی۔کبھی روزہ رکھوانے پر اصرار نہ کرتے البتہ نماز نہ پڑھنے والے پر جو عذاب نازل ہوں گے وہ ہمیں نانی اور اباجی نے اتنی بار بتائےکہ زبانی یاد کرادئیے۔
اباجی کے سامنے تو گہرے بادل آتے یا بادل و بجلی کی گرج چمک ہوتی تو اس طرح آسمان کی طرف دیکھ کر با آواز بلنداستغفار کرتے جیسے اللہ کا غضب صرف انہی پر آیا ہو۔
تیز آندھی آتی تو گھبرا کر تیز تیز قدموں مسجد کا رخ کرتے۔
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ زور کی بارش ہو یا سیلاب کی پیشگوئی اور گھر میں ریڈیو بج جائے،ٹی وی کھل جائے، حتی کہ ہم آپس میں ہنس بول کر بات بھی کر لیں۔
بس! استغفار کی تلقین کہ اللہ ہم سے ناراض ہو گیا ہے۔
یہ تو ہمیں بہت بعد کی زندگی میں پتہ چلا کہ بارش انجوائے کرنے کی چیز ہے اور گرج چمک میں سکھیاں سہلیاں ساون کے گیت بھی گاتی ہیں۔
اباجی نڈھال کرتی گرمی میں برابر دوزخ کا ذکر کرتے رہتے کہ ہم سے اتنی سی گرمی نہیں برداشت ہوتی تو وہاں کی آگ کیسے برداشت ہوگی؟
اس وقت تو متوسط طبقے کے گھروں میں اے سی کا کوئی تصور نہ تھا۔ شام پانچ بجنے کا ہم بے چینی سے انتظار کرتے کہ دھوپ ڈھلے تو کھلی چھت پر جاسکیں۔
ایک خوفزدہ دل بھی کیا چیز ہے؟کووڈ 19 نے اچھی طرح سمجھا دیا۔
ہمارے بچپن کا خوف کتنا مختلف تھا۔اگر اباجی نےکچن میں باسی روٹی یا بچا سالن پلیٹ میں پڑا دیکھ لیا تو سمجھو قیامت آگئی۔
اسراف ہے یہ,رزق کا حساب کتاب کیسے دو گے؟
آگر غلطی سے نل کھلا رہ گیا، پانی بہتا دیکھ لیا۔ پانی اتنی بڑی نعمت اس کا حساب بہت سخت ہوگا۔ بچوں کا اجتماعی محاسبہ ہوجاتا۔
اباجی کے دنیا سے رخصت ہونے کے تیس برس بعد آج سوچ رہی ہوں کہ اگر ان کے سامنے کرونا آتا تو ان کے رمضان کیسے گزرتے؟ان کی گھبراہٹ کا کیا عالم ہوتا جو آسمان سرخ دیکھ کر ڈر جاتے تھے اور کہتے جاتے کہ قوموں پر عذاب اسی طرح آتے ہیں۔
بادل کڑکنے کی آواز جس زور سے آسمان سے زمین کی طرف آتی اسی شدت سے ان کے نالے زمین سے آسمان کی طرف جاتے کہ دل دہل جاتا۔
ایک بار غلطی سے رمضان میں روزے کے دوران پانی پی لیا۔ ساٹھ روزے کفارے کے رکھے۔
شدید گرمی آب زمزم کی چھوٹی سی بوتل اور دو چھوارے جیب میں رکھ کر دفتر جاتے کہ دیر سویر ہوتو راستہ میں ہی افطار کرلیں۔
اپنوں نے مشورہ دیا کہ شدید گرمی کا موسم گزر جانے دیں سرد موسم میں کفارے کے روزے رکھ لیں۔
انھوں نے بلاناغہ ساٹھ روزے پورے کیے۔ بولے: اگر سردی سے قبل مرگیا تو میرا حساب کون دے گا؟
تو ایسا آدمی اگر کرونا دیکھ لیتا تو۔۔۔
یقیناً اباجی ہم سے سے امت مسلمہ کی روش کی بات نہ کرتے، مسلم حکمرانوں کی بے حسی پر نوحے نہ پڑھتے، میڈیا کی رپورٹوں پر رات دن بحث کرتے نہ حکومتی زعماء کے بیان پر رائے زنی کرتے۔
وہ ہمیں یہ بتاتے کہ ہمارے گھر میں فلاں فجر کی نماز میں سستی کرتا ہے اس لیے یہ عذاب آیا ہے۔
کیونکہ ہمارے بچے قرآن سے دور ہیں اس لیے اللہ میاں ناراض ہو گئے ہیں۔
ہم رزق ضائع کرتے ہیں، پانی کی قدر نہیں کرتے اس لئے ہماری ڈور کھینچی گئی ہے۔
کیونکہ ہم ساری رات غافلوں کی طرح خراٹے لیتے ہیں اس لیے غضب خداوندی جوش میں آیا ہے۔
ہم اپنی ماں کی بات نہیں مانتے،انھیں تنگ کرتے ہیں اس لئے اللہ ناراض ہے ہم سے۔
اس وقت گلوبل ولیج کا تصور تھا نہ دنیا سمٹ کر ہاتھ کی ہتھیلی اور انگلیوں کے پوروں پر آئی تھی۔
”سماجی رابطوں“ کی دنیا محلے کی چند گلیوں سے آگے نہ تھی ،اس لئے گھروں میں اسی طرح کی گفتگو ہوتی ہوگی۔
اب ہمارے بچے گلوبل ولیج کا حصہ ہیں۔ بچے بچے کو نیو یارک کے گلی محلوں کی خبر،اٹلی کی سڑکوں پر لاشوں کی تعداد،آسٹریلوی حکومت کے حفاظتی اقدامات، چین کی لیبارٹریز میں ویکسین کے تجربات کی کام یابی یا ناکامی، عالمی نشریاتی ادارے، میگزین کرونا سازشی تھیوریوں کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ سب معلوم ہے۔
ہر منٹ معلومات کے ٹینکر کے ٹینکر سوشل میڈیا پر انڈیلے جارہے ہیں۔ یوٹیوب پر ہر لمحہ بے حساب ویڈیوز اپلوڈ کی جا رہی ہیں۔
سوچوں کا دائرہ وسیع ہو گیا۔اب بچے ان باتوں سے نہیں ڈریں گے جن سے ہم ڈر جاتے تھے۔
اب معلومات کے سمندر میں سب غوطے کھا رہے ہیں۔
کسی کے پاس چپو والی کشتی ہے کوئی ماہر تیراکی، کوئی ہماری طرح ہاتھ پاؤں مار کر جان بچانے کی فکر میں ہے۔
کرونا وبا کو اللہ میاں کی ناراضگی کے اس پیراڈائم میں نہیں دیکھا جائے گا کہ
میری نماز، میری رفتار میری گفتار، میرا کردار بھی اللہ کے عذاب کا سبب بن سکتا ہے!!!
قومیں افراد سے بنتی ہیں.انفرادی گناہ ہی تو اکھٹے ہو کر اجتماعی عذاب کو دعوت دیتے ہیں۔
اصل میں آج سے چار پانچ دہائی پہلے کا تصور خدا اور تصور دنیا بہت مختلف تھا۔
اب انسان اس خوف سے نکل آیا جس خوف میں کبھی ہماری نسل مبتلا تھی۔
ہمارے اباجی اور نانی دجال کا ایسے ذکر کرتے جیسے وہ ہماری چھت پر بیٹھا ہوا ہے۔
اباجی تو دو ٹرینوں کے ٹکرانے پر اتنا پریشان ہو جاتے جیسے ہمارے ہی عزیز اس ٹرین میں سوار ہوں۔ سارا دن استغفار کرتے اور گھر میں بہت اداس فضا ہو جاتی۔
خاندان کے کسی گھر میں موت ہوجاتی۔ اس دن ہمارے گھر یہ سوال نہیں ہوسکتا تھا کہ آج کیا پکے گا؟امی کہتیں خامشی سے جو ہے پکالو اباجی ناراض ہو جائیں گے کہ موت کو بھول کر ہم کھانے پینے میں پڑے ہوئے ہیں۔
شاہ فیصل کو جب شہید کیا گیا اب تک میری یاداشت میں ہے کہ یوں لگا کہ ان کا سوئم ہمارے ہی گھر میں ہوا ہو۔ ہر ایک کے ہاتھ میں سپارہ، اباجی کا رنگ بدلا رہا کہ ایسے آدمی کا یوں اٹھنا قرب قیامت کی علامت ہے۔
اب قیامت ہم سے دور ہوگئی ہے شائد، اس وقت تو ہر علامت قرب قیامت کی علامت گردانی جاتی، ہر فتنہ دجال کی یاد دلاتا تھا۔
بات لمبی ہوگئی مگر ہم نے چوتھائی صدی جس ہستی کی قربت میں گزاری ہو ان یادوں کی پٹاری کھلتی ہے تو کیسے جھونکے ہوتے ہیں باد نسیم کے!!
وہ تو شکر ہے اباجی کے سامنے کرونا نہیں آیا۔ وہ اتنا خوفزدہ ہو جاتے کہ نہ گھر میں رنگ برنگے افطار کے دسترخوان لگنے دیتے، نہ راتوں کو سوتے(وہ معمولاً بھی شب بھر عبادت میں مصروف رہتے تھے)،ان کا گریہ سب کو آزردہ رکھتا، دنیا کی ویرانی ان کے دل کی ویرانی بن جاتی، نہ عید کی خریداریوں کا ذکر وہ سنتے کہ جب اللہ غضب ناک ہے اس نے مسجد کے دروازوں پر روک دیا ہے تو قیامت کے دن کا کیا انتظار ؟؟
اللہ ہمیں اپنے والدین کا صدقۀ جاریہ بنادے۔آمین