ایک بزرگ شخص

بھوک کا وائرس

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر امتیاز عبد القادر، بارہمولہ:

کل میرے ایک دوست کو اپنے ہمسایہ کا فون آیا۔ عزت نفس کو از خود مجبوراً ’روند‘ کر ، عاجزی و انکساری کا ہیولہ بن کر اُس نے اپنے گھر کی بپتا سُنائی۔ لاک ڈاؤن نے ان کے گھر اناج، سبزی و دیگر اشیاء ضروریہ کی آمد پر بھی پابندی لگادی تھی۔ موصوف کے اہلِ خانہ نے کل مرچیں کھا کر افطار کیا ہے. جب سے سنا اک عجیب سا اضطرار ہے. ہر حسّاس طبیعت کو ہونا ہی چاہیے. آخر ہم نے کل روزمحشر اللہ کو منہ دکھانا ہے.
کیا معلوم کہ وہ ہماری طرف دیکھیں گے بھی یا نہیں۔

یہ صرف قصبہ بارہمولہ کی کہانی نہیں بلکہ ہر محلے، گام و شہر کی کہانی ہے۔آسودہ حالوں کی ’منڈی‘ میں ’کفن‘ کا انتظام نہ کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہوتی۔ بھوک انسان کو مجبور کرتی ہے. جب پیٹ میں اندھیرا ہو تو ذہن کے دھندلکوں میں خیال آتا ہے کہ بھوک بہت سفاک ہوتی ہے..!!

تڑپتی آنت میں جب بھوک کا شعلہ بھڑکتا ہے، تو وہ تہذیب کے بے رنگ کاغذ کو، تمدن کی سبھی جھوٹی دلیلوں کو جلا کر راکھ کرتا ہے۔ نظر بھوکی ہو تو پھر چودھویں کا چاند بھی روٹی سا لگتا ہے۔خودی کا فلسفہ ہو یا شرافت کا سبق، سب بکواس لگتی ہیں۔ بھوک بڑی بدذات ہوتی ہے۔ اس کا مذہب ہے نہ کوئی فرقہ۔ حال ہی میں ایک سکھ کنبے کا بارے میں ہمیں اطلاع ملی کہ وہ بھی نانِ شبینہ کو ترس رہے ہیں۔

بھوک بھی متعدی ’وائرس‘ ہی ہوتا ہے۔ باپ سے اولاد کو اور شوہر سے بیوی کو لگنے والا ’وائرس‘۔ یہ ’امیر‘ کو بھی لگتا ہے اور ’غریب‘ کو بھی۔ فرق بس اتنا ہے کہ امیر اس ’وائرس‘ کو جلد قابو کرلیتا ہے لیکن غریب، بسا اوقات ’خاک نشیں‘ ہوکر منوں مٹی سے پیٹ کی آگ ’بھجادیتا‘ ہے۔

دنیا میں ایک یہی وہ ’وائرس‘ ہے جو انسان سے ہر کام کروا لیتا ہے۔ انہوں نے تو بس ’مرچیں‘ ہی کھائیں، سُنا ہے ویتنام میں لوگ کتے ”روسٹ“ کر کے کھاتے ہیں۔ آخر ذمہ دار کون؟

ہر سماج میں امیر و غریب کا تفاوت ایک امتحان ہے۔ وہ معاشرہ قابلِ ’رحم‘ ہے جہاں ان ضرورت مندوں کا خیال نہ رکھا جائے. انہیں بھی عزت سے جینا کا حق ہے اور وہ تب ممکن ہے جب ان کا حق جوکہ اللہ نے ہر صاحب ثروت کے پاس امانت رکھا ہے ، بے کم و کاست ان تک پہنچایا جائے۔

اسلام کا حُسن یہ ہے کہ یہ غریبوں کو رسوا نہیں کرتا بلکہ صدقات دینے والے کو حکم دیتا ہے کہ خفیہ طور خود نکل کر ایسے ضرورت مندوں کو تلاشیے اور ان کے عزت نفس کا خیال رکھ کر انہیں ’ اُن‘ کا مال دے آئیں۔

زکوٰۃ و صدقات کوئی احسان نہیں بلکہ مستحقین کا ’حق‘ ہے. ذمہ دار فرد ہونے کا ثبوت دیں اور اللہ کو’قرض‘ دیں، رب کعبہ کی قسم سُود مند سودا ہے۔ اپنی آخرت برباد نہ کریں، اِن کی دنیا بنائیں۔ آخرت بنانے کی گارنٹی اللہ کی!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں