ایمان مغازی الشرقاوی
ترجمہ: ڈاکٹرمیمونہ حمزہ
پہلے یہ پڑھیے:
راہزن!! (رمضان المبارک کے حوالے سے خصوصی سلسلہ ، پہلی قسط)
راہزن!! ابلیس(رمضان المبارک کے حوالے سے خصوصی سلسلہ،قسط دوم)
راہزن!! ’’جاذب نظر‘‘ دنیا:(رمضان المبارک کے حوالے سے خصوصی سلسلہ،تیسری قسط )
راہزن:ھوائے نفس کی پیروی(خاص برائے رمضان المبارک،چوتھی قسط )
کیا آپ نے تجربہ کیا کہ آپ ساری رات جاگ کر گزارتے ہیں، اور سارا دن مشقت اٹھاتے ہیں، مگر کیوں؟
تاکہ ہر دن اور رات کے بدلے آپ کو چند روپے مل جائیں، جن سے آپ اپنی کمر سیدھی کر سکیں، اپنے نفس کا بچاؤ کر سکیں، اور اپنے بال بچوں کی ضروریات پوری کر سکیں؟ آپ نے اتنی محنت اور مشقت کے بعد کامیابی کی مٹھاس کو بھی چکھا ہو گا، اور اتنا امتیاز اور تفوق حاصل کرنے کے بعد، عزت افزائی اور تکریم کی لذت کو بھی محسوس کیا ہو گا، اور اہل ِ خانہ اور دوستوں نے بڑا پر تپاک استقبال کیا ہو گا؟
آپ نے محسوس کیا کہ مشقت کے بعد راحت میں مزا ہے، اور محنت کا ثمر کام ختم ہونے کے بعد ملتا ہے؟ کیا آپ نے کبھی کسان کو نہیں دیکھا کہ وہ بیج بوتا ہے، اور اس سے کونپل نکلتی ہے، اور وہ پورا سال اس کی دیکھ بھال کرتا رہتا ہے، وہ اسے آفات اور کیڑوں مکوڑوں سے بچاتا ہے، اور ہر وقت اسی کے لئے محنت اور مشقت میں لگا رہتا ہے، حتی کہ اس کا باغ سرسبز و شاداب اور تروتازہ ہو جاتا ہے، اور وہ اسے مختلف پھل پیش کرتا ہے؟
کیا آپ نے کبھی شہد کی مکھی کو غور سے دیکھا ہے، اور اس سے سبق حاصل کیا ہے؟ وہ کس طرح ایک شاخ سے دوسری، اور ایک پھول سے دوسرے پھول کی طرف سفر کرتی ہے، وہ اس کی خوشبو سونگھتی ہے اور اچھے پھولوں ہی پر بیٹھتی ہے، اور ﷲ کی سکھائی ہوئی راہوں پر چلتی رہتی ہے، اور اپنے سفر کے اختتام پر صاف ستھرے مشروب ’’شہد‘‘ کا تحفہ دیتی ہے، جس کی لذت مختلف ہوتی ہے، اور اس میں شفاء ہے۔
آپ نے کبھی چیونٹی کو دیکھا ہے، اور غذا کے بوجھل حصّے اٹھا کر گرم دوپہر میں چلتی ہے لیکن یہ بوجھ اس کی مشقت کم کر دیتا ہے، اور اس کا اثر زائل ہو جاتا ہے، اور اس کی پریشانی ہلکی ہو جاتی ہے، جب وہ اس کا پھل پاتی ہے، اور وہ سردی کے موسم میں اپنے خزانے کو مزے لے لیکر کھاتی ہے؟
یہ سب صورتیں بہت مختلف ہیں، ان کا باہم مقابلہ بھی مشکل ہے لیکن یہ تمام مثالیں بڑی عاجزی سے ہمیں رمضان کے مہینے میں روزے داروں کے میدان میں لے جاتی ہیں، جہاں وہ اپنے روزے مکمل کر چکے ہیں، اور یہ مہینہ کوچ کر رہا ہے، وہ اس مہینے میں اپنے دشمنوں پر غالب آچکے ہیں، اور نماز، روزے، قرأت، قیام، نیکی اور احسان، سے ﷲ کے طریقے کو پا گئے ہیں،
انہیں قرآن کا ادب کرنا بھی آگیا ہے، اور اس سے اپنی محفلوں کو زینت دینا بھی، پس ان کے آنسو بہتے ہیں، ان کی آہیں بلند ہوتی ہیں، ان کے ہاتھ ﷲ رب العزت کے سامنے پھیلتے ہیں، خوف اور رغبت کے ساتھ، وہ اس کی رحمت کے امیدوار ہیں، اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں، ﷲ ان کی سعی و کوشش ہرگز رائیگاں نہ جانے دے گا، اور نہ ان کے اعمال ضائع کرے گا، بلکہ وہ انہیں ان کی کارگزاری کا بہترین اجر عطا فرمائے گا، اور اس مہربان مہینے کے اختتام پر انہیں خدمت کا بہترین بدلہ دے گا، اور انہیں درجہ ممتاز بلکہ اے پلس سے نوازے گا۔
وہ کتنے طویل دنوں میں اس کے آگے سرجھکائے تمام دن کھڑے رہے، اور رات کی تاریکی میں اس کے آگے سجدہ ریز رہے،
{تتجافی جنوبھم ھن المضاجع یدعون ربھم خوفاً وطمعاً ومما رزقناھم ینفقون۔ فلا تعلم نفس ما أخفی لھم من قرۃ أعین جزاء بما کانوا یعملون} (السجدۃ، ۱۶۔۱۷)
{ان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، وہ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں، اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لئے چھپا کر رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے۔}
مغفرت کا تحفہ
واہ، اس تحفے کا کیا کہنا، جو کامیاب و کامران ہونے والوں کو ان کے رب کی جانب سے بھیجا گیا ہے، جنہوں نے اس عظیم مہینے میں اپنی ھوی اور شہوات پر غلبہ حاصل کیا، ﷲ تعالی نے اس کے حاصل کرنے کی شرائط وضاحت سے بیان فرمائی ہیں، اور اس کے حق داروں کے بارے میں تفصیل سے بتایا ہے، تاکہ بندہ اسے پانے کے لئے تیاری کرے، اور اپنے آپ کو اس کا مصداق بنانے کے لئے چوکس رہے، تاکہ وہ ان لوگوں میں شامل ہو جائے،
{وما یلقا ھا الا الذین صبروا و ما یلقاھا الا ذو حظ عظیم} (حم السجدۃ، فصلت، ۳۵)
{یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔}
رمضان کے امتحان کے مکمل ہونے کے بعد، اور جدو جہد کے معرکے میں کامیابی کے بعد، ایک اور معرکہ درپیش رہے گا، اور وہ ہے انسان کے ہمیشہ سے منتظر دشمن۔ ابلیس اور اس کی ذریت، جاذب نظر دنیا اور برائی پر اکسانے والے نفس ِ امارہ اور ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت سے روکنے والی ھوی (خواہش ِ نفس)اور ان کے علاوہ کئی راہزن جو اس دنیا کے طول پر پھیلے، انسان کا شکار کرنے کے منتظر ہیں۔
یہ رمضان کی راتوں کی آخری رات ہے، نبی اکرم ﷺ نے تاکیداً فرمایا: اور وہ انہیں آخری رات میں معاف فرما دیتا ہے‘‘۔ پوچھا گیا: یا رسول ﷲ ﷺ! کیا یہ لیلۃ القدر ہے؟
فرمایا: ’’نہیں، بلکہ اس میں کام کرنے والے کو مزدوری دی جاتی ہے، جب وہ کام مکمل کر لیتا ہے‘‘ (اسے احمد نے روایت کیا)۔
اور یہ اجر کتنا بڑا ہے،اور اس انعام کا کیا کہنا!! یہ انعام ہر اس روزہ دار کے لئے ہے، جس نے روزے کی حکمت جان کر اسے اپنے اوپر لازم کر لیا، اور اس کے دل نے اس کے پیٹ سے بھی پہلے روزہ رکھا، اور اس کی زبان نے اس کے دانتوں سے پہلے، اور اس کے اعضاء میں سے آنکھیں، ہاتھ اور پاؤں، کان، عقل اور دل ، سب روزے میں شریک رہے، اور آخرت کے لئے زادِ راہ اکٹھا کیا،
اور وہ رمضان سے اپنی روح پاک کر کے نکلا، ایک نئے پاک اور نادر نفس کے ساتھ، اور قوی اور شدید عزم کے ساتھ، گویا اس کا روزہ اس کا قلعہ اور اس کے لئے بچاؤ بن گیا، اور ہدایت کی راہوں کا مدد گار، اور کامیابی پانے کا راستہ۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
’’روزہ ڈھال ہے، اور وہ مومن کے قلعوں میں سے ایک قلعہ ہے‘‘ (اسے طبرانی نے بیان کیا، اور سیوطی نے اسے صحیخ قرار دیا)۔
غفور وشکور
ﷲ سبحانہ وتعالی بہت سی برائیوں کو بخش دیتا ہے، اور آسان نیکیوں کی بھی بہت قدر دانی فرماتا ہے، اور یہ نعمت بھی ہم سے بہت شکر گزاری اور طویل سجدوں کا مطالبہ کرتی ہے، اس کے سوا کون ذات ہے جو گناہ گاروں کو معاف کر سکتی ہو، اور توبہ کرنے والے قصور واروں کی عزت افزائی کرتی ہو، اور اپنا پردہ عطا کر کے ان کی سترپوشی کرتی ہو؟
وہ ﷲ ہی ہے الغفار، الغفور والشکور، جو تھوڑے سے عمل پر ڈھیروں اجر عطا فرماتا ہے، جو اپنے اطاعت گزار بندوں کی خود تعریف کرتا ہے، اور وہ سبحانہ وتعالی ہم سے فرماتا ہے:
اے بندو! تم دن رات خطائیں کرتے ہو، اور میں تمام گناہ معاف فرما دیتا ہوں، پس مجھ سے مغفرت مانگو، میں تمہیں معاف کر دوں گا۔ اے میرے بندو! تم میرے نقصان پر قادر نہیں ہو کہ مجھے کوئی نقصان پہنچا سکو، اور نہ میرے نفع پر کہ مجھے کچھ نفع پہنچا سکو۔
اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور پچھلے اور تمہارے انس اور جن سب سے متقی دل والے بن جائیں، تو یہ میری بادشاہت میں کچھ بھی اضافہ نہ کرے گی۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے تمام پہلے اور پچھلے، اور تمہارے انسان اور جن سب سے فاجر دل والے شخص جیسے ہو جائیں، تو یہ میری بادشاہت میں کچھ بھی کمی نہ کرے گی‘‘ (مسلم نے روایت کیا)،
اور اس کے ساتھ وہ سبحانہ وتعالی ہمیں یہ مغفرت حاصل کرنے کی جانب بلاتا ہے، اور اپنے قرب کی لذت سے آشنا کرتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں: جب رات کا تین چوتھائی حصّہ باقی رہ جاتا ہے، ہمارا رب ہر رات آسمان ِ دنیا پر آتا ہے، اور پکارتا ہے، کون ہے جومجھ سے دعا مانگے اور میں اسے قبول کروں، کون ہے جو مجھے پکارے اور میں اس کو عطا کروں، کون ہے جو مجھ سے بخشش چاہے اور میں اسے بخش دوں (اسے ابو داود نے روایت کیا)۔
رمضان قرب کا مہینہ اور مغفرت کا مہینہ ہے، جس میں عمل کرنے والے مجاہدہ کرتے ہیں، اور مخلصین اس کے لئے کوشاں رہتے ہیں، اور اس بے پرواہ بادشاہ سے درجہ قرب حاصل کرنے کے لئے وہ ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں، پس وہ قیامت کے روز وہ اپنی عظیم تمنا کو مجسم دیکھیں گے، اور وہ انہیں ڈھانپے ہوئے ہوگی، اور یہ مغفرت کی آرزو ہے، جب وہ قدر دان آقا ان کو بخش دے گا، اور وہ سبحانہ وتعالی صرف بخش ہی نہ دے گا بلکہ وہ انہیں اپنی وہ نعمت عطا فرمائے گا، جس کو بیان بھی نہیں کیاجا سکتا، جو نہ عمل سے حاصل کی جا سکتی ہے نہ شکر سے، اسی لئے وہ پکار اٹھیں گے:
{وقالوا الحمد ﷲ الذی أذھب عنا الحزن ان ربنا لغفور شکور۰ الذی احل لنا دار المقامۃ من فضلہ لا یمسنا فیھانصب ولا یمسنا فیھا لغوب} (فاطر، ۲۴۔۲۵)
{اور وہ کہیں گے کہ ’’شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم سے غم دور کر دیا، یقیناً ہمارا رب معاف کرنے والا اور قدر فرمانے والا ہے، جس نے ہمیں اپنے فضل سے ابدی قیام کی جگہ ٹھیرا دیا، اب یہاں نہ ہمیں کوئی مشقت پیش آتی ہے اور نہ تکان لاحق ہوتی ہے‘‘۔}
دو فرحتیں
یہ اطاعت کی فرحت ہے، اورﷲ سے امید کی فرحت، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’روزے دار کے لئے دو فرحتیں ہیں، جو اسے خوش رکھتی ہیں، جب روزہ کھولتا ہے تو افطار کی فرحت ہوتی ہے، اور جب اپنے رب سے ملے گا، اپنے روزے پر خوش ہوگا‘‘ (نسائی نے اسے اسے روایت کیا، اور البانی نے صحیح قرار دیا)۔
رمضان مبارک کا مہینہ ہمارے لئے بہترین تحفے اور عظیم انعام چھوڑ کر رخصت ہوتا ہے، کیونکہ ﷲ تعالی مخلص روزہ داروں کو بخش دیتا ہے، اور روزہ دار کے بارے میں فرماتا ہے:
’’اس نے اپنا کھانا پینا اور شہوت کو میرے لئے چھوڑ دیا‘‘ (اسے بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے)، گویا کہ مغفرت اس ثواب کا جزء ہے، جسے ﷲ نے اس کے لئے مخصوص کیا ہے، جب وہ فرماتا ہے: ’’روزہ میرے لئے ہے، اور میں اس کی جزا دوں گا‘‘ (اسے احمد نے روایت کیا ہے)، کیونکہ یہ عبادات کا مجموعہ ہے جو صبر اور شکر کے گرد گھومتا ہے، اور یہی دو اس کے حاصل ہیں۔
اور ہاں یہ مسلمان ہی ہیں، ان کی اکثریت روزہ رکھتی ہے، اور ان کے روزے میں ﷲ سبحانہ وتعالی کے احکامات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، ان کی سیری کی نعمت کو یاد کیجئے، اور وہ کس طرح ھوائے نفس کی پیروی کے لئے تیار رہتے تھے، اور حق کی موفقت اس کی مخالفت کر کے کرتے تھے، اور اس کی محبوب چیزوں کو ترک کرتے تھے،
اور اس نفس کی ریاضت مالوف و پسندیدہ چیزوں کو ترک کرنے میں ہے، اور شہوات کو چھوڑنے میں، اور اعضاء کی حفاظت کرنے میں، اور جب افطار کا وقت آتا ہے تو’’ ان کے لئے دو فرحتیں ہیں، ایک فرحت افطار کے وقت کی، اور ایک رب سے ملاقات کے وقت کی‘‘ (ترمذی کی روایت، البانی نے اسے صحیح قرار دیا)،
قرطبی نے فرمایا: اس کے معنی ہیں، جب اس کے لئے افطار جائز ہو گیا، اور اس کی بھوک اور پیاس زائل ہو گئی، تو اسے فرحت ملی، اور یہ فطری خوشی ہے، اور پہلے مفہوم کے مطابق ہے، اور کہا جاتا ہے: یہ اس کے افطار کی فرحت ہے، کیونکہ اس نے روزہ مکمل کیا، اور اپنی عبادت کا اختتام کیا، یہ رب کی جانب سے تخفیف اور اس کے آئندہ روزے کے لئے مدد ہے۔
علماء کہتے ہیں: رب سے ملاقات کے وقت کی فرحت کا سبب وہ جزا بھی ہے جو وہ دیکھتا ہے، اور رب کی اس نعمت کو یاد کرتا ہے کہ اس نے اسے توفیق عطا کی، اور روزے کے اختتام پر عبادت کے پورا ہونے اور اس کے مفسدات سے محفوظ رہنے کی خوشی ہے، اور اس ثواب کی جس کا وہ امیدوار ہے۔ پس! جس نے خلوص سے عبادات اور دوسرے اعمال بجا لائے، اور وہ ریا یا شہرت کے لئے نہیں بلکہ ﷲ کی رضامندی کے لئے سب اعمال بجا لا رہا تھا؛ اسے ﷲ دنیا اور آخرت میں پورا بدلہ عطا کرے گا۔
آؤ مغفرت کی طرف
ﷲ اپنے سب بندوں کو مغفرت کے لئے پکارتا ہے، وہ فرماتا ہے: {وسارعوا الی مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضھا السماوات والارض اعدت للمتقین } (آل عمران، ۱۳۳)
{دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمان جیسی ہے، اور وہ خدا ترس انسانوں کے لئے مہیا کی گئی ہے}،
{سابقوا الی مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضھا کعرض السماء والارض}(الحدید، ۲۱)
{دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے۔}،
پس مغفرت جنت کی طرف جانے کا راستہ ہے، تو کیا ہم میں سے ہر ایک اس مغفرت کی طرف جانے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں؟ رمضان اس کا سبب بھی ہے اور اس کی طرف جانے کا طریقہ بھی، پس رمضان کا درمیانی حصّہ مغفرت ہے، اور اس کی آخری راتوں میں مغفرت ہے، وہ پورا ماہ دن بھی اور رات بھی اپنا توشہ تیار کرتا رہتا ہے، تو رمضان کے بعد ہم ﷲ سے مغفرت کیسے مانگیں گے؟
ﷲ تعالی اپنی کتاب ِ کریم میں فرماتا ہے، اور وہ جانتا ہے کہ ہم خطاکار بندے ہیں، اور پھسل جاتے ہیں، خواہ ہم ایمان کے کسی درجے پر پہنچ جائیں، اور اس کی حرارت ہمارے دلوں کو کتنا بھی گرما دے، ہم کبھی درست کرتے ہیں اور کبھی خطا، اسی لئے ﷲ اس جانب ہماری رہنمائی فرماتا ہے، اور وہ اس جانب خوشخبری دیتے ہوئے فرماتا ہے:
{وانی لغفار لمن تاب وآمن وعمل صالحاً ثم اھتدی} (طہ، ۸۲)
{البتہ جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے اس کے لئے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں۔}
پس مغفرت توبہ کرنے والوں کو نصیب ہوتی ہے، جس نے توبہ کی اور جس کفر یا شرک یا معصیت یا نفاق میں وہ تھا اس سے لوٹ آیا، ،واہ اس کے گناہ کتنے بھی زیادہ ہو جائیں اور بڑھ جائیں، وہ دل سے ایمان لے آئے، نیک عمل کرے، اور رب کے فرائض ادا کرے، جو اس پر لازم کئے گئے ہیں، اور معصیت سے اجتناب کرے، ’’پھر ہدایت کو اختیار کرلے‘‘، یعنی اس کو خود پر لازم کر لے، اور ان میں سے کسی عمل کو ضائع نہ کرے، اور سنت اور جماعت کے ساتھ رہے، اور اسلام پر مرتے دم تک قائم رہے،
اور جان لے کہ یہی ثواب اور نیک عمل ہے؛ مغفرت اس کا انعام ہے، اور جنت اس کا ٹھکانا ہے، اور وہ بہترین لوگوں میں سے ہے، جیسا کہ رسول ِاکرم ﷺ نے فرمایا: میری امت کے بہترین لوگ وہ ہیں جنہوں نے خطاؤں کے بعد استغفار کر لیا، اور جب انہوں نے نیکیاں کیں، انہیں خوشخبری ملی‘‘ (اسے طبرانی نے روایت کیا، اور سیوطی نے اسے حسن قرار دیا)۔
ظاہری سبق:
آپ نبی کریم ﷺ کی مغفرت کی رات والی حدیث میں دیکھیں گے: اور وہ انہیں آخری رات بخش دیتا ہے‘‘، پوچھا گیا: کیا یہ لیلۃ القدر ہے؟ فرمایا: ’’نہیں، وہ مزدور کو کام مکمل ہونے پر پورا اجر عطا فرماتا ہے‘‘ (احمد)، ان تھوڑے سے الفاظ سے بھی آپ وہ سبق نکال سکتے ہیں، جو آپ کی باقی زندگی کے لئے ایک طریقہ وضع کر دیتا ہے۔
اور اس کے کئی فوائد ہیں: عمل کی اہمیت سے آگاہی، عمل کرنے والے (مزدور) کی فضیلت، اور اس کے اجر کا بیان، اور اس میں پختگی اور زیادتی کے اثرات، اور اس میں مجرد مزدور کی مزدوری ہی اس کے عمل میں انتہائی افزائش کر دیتی ہے، خواہ وہ خادم ہو یا معلم یا مزدور، جب تک اس قبلے کے لئے وہ عمل کرتا رہے گا، اور اور معاہدے کے مطابق دیے گئے کام پر کاربند رہے گا، خواہ وہ افراد کی سطح پر یہ کام کرے یا جماعت کی؛ جیسے کمپنی، ایسوسی ایشن، کمیٹی یا حکومت کی سطح پر،
نبی اکرم ﷺ کا فرمان سب کے لئے رہنما ہے:’’مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو‘‘ (البانی، صحیح ابن ِ ماجہ)، تو کیا ہم بھی سوچتے ہیں کہ وہ اپنے خادم اور اجیر کو پوری اجرت دیں، اس میں ذرہ برابر بھی کمی نہ کریں، نہ اسے ٹالیں نہ لمبی تاریخیں دیں؟ اور کبھی ہم نے کوشش کی کہ ہم اس اجر کو سخاوت اور کرم سے بڑھا دیں؟ اور کیا ہم میں بھی کبھی خواہش پیدا ہوئی کہ ہم اس کی اجرت بغیر احسان چڑھائے اور اذیت دیے اسے اس وقت ادا کر دیں جب اس کی پیشانی پر پسینہ خشک نہ ہوا ہو؟
اور ایک اہم سبق، ان لوگوں سے درگزر کرنے کے معاملے میں جو آپ کے حق میں برائی کرے، اور اسے اﷲ کی خاطر معاف کر دینا، اس کی پردہ پوشی بھی کرنا، اور ان کو ڈھانپ دینا، آپ اسے معاف کرتے رہیں حتی کہ آپ کو ﷲ معاف فرما دے، اور آپ کو اس جنس کا بدلہ بھی دیا جائے۔ ﷲ تعالی فرماتا ہے: {ولیصفحوا الا تحبون ان یغفرلکم وﷲ غفور رحیم} (النور، ۲۲)، پس اگر تو اسے معاف کر دیتا ہے جو تیرے ساتھ زیادتی کرے، تو ﷲ تجھے معاف کرے گا، اور جب تو درگزر کرے گا تو تجھ سے درگزر کیا جائے گا، اور جس طرح تو پسند کرتا ہے کہ ﷲ تیرے گناہوں سے درگزر کرے، اسی طرح تو بھی دوسروں کو معاف کر دے۔
اور اسی طرح تیرے لئے درست نہیں کہ تو اپنے بھائی کو چھوڑ دے، یا تو اس کے لئے اپنے دل میں بغض اور کینہ رکھے، کیونکہ یہ تجھ سے عفو کو ختم کردے گا، اگرچہ تو گمان کرے اور اس کی موجودگی کا دعویٰ کرے، نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
’’مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین راتوں سے زائد کے لئے چھوڑ دے، وہ دونوں ملتے ہیں تو ایک اس جانب مڑ جاتا ہے اور دوسرا اس جانب، ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کی ابتدا کرے‘‘ (مسلم) رمضان ناراض دلوں کے لئے اصلاح کا موقع ہے،اور لوگوں کی دشمنیوں کی برف پگھلانے کا وقت ہے۔
اور جس طرح اجر اور ثواب حاصل کرنے کے لئے رمضان کے مکمل روزے رکھنا ضروری ہے، اسی طرح اعمال کی بہتری اور پختگی کا موقع بھی ہے، تاکہ آپ اس اجر کے اہل اور مستحق بن جائیں، ورنہ آپ اپنے مالک کو مزدوری کا محض دھوکہ دے رہے ہیں، اور اپنی امانتوں میں خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں، پھر ہر عمل کے مکمل ہونے پرﷲ عزوجل کے سامنے استغفار بھی کریں، اور اپنے قصوروں کی خواہ وہ عمداً سرزد ہوئے ہوں یاسہواً معافی مانگ لیں {واستغفروا ﷲ ان ﷲ غفور رحیم} (المزمل، ۲۰) {ﷲ سے مغفرت مانگتے رہو، بے شک ﷲ بڑا غفور رحیم ہے۔}
ﷲ کے غضب سے ڈریے:
اور آخری بات، رمضان کے بعد فخر کے دھوکے سے ڈریے، آپ یہ نہ کہیں: ﷲ نے مجھے معاف کر دیا ہے، اور اس کے بعد جو چاہیں کرنا شروع کر دیں، یا تو آپ اعمال میں کمی کا مظاہرہ شروع کر دیں، یا رب کی نافرمانی کرنے لگیں، یا عبادت کو بوجھ سمجھنے لگ جائیں، یا اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرنا شروع کر دیں، بلکہ آپ کوشش کریں کہ اب سے دائما آپ رب کی مغفرت میں رہیں، اور ﷲ کے غضب اور اس کی ناراضی سے ڈرتے رہیں، ﷲ سبحانہ وتعالی ہم سے فرماتا ہے: {اعلموا ان ﷲ شدید العقاب وان ﷲ غفور رحیم} (المائدہ، ۹۸)
{رسول پر تو صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے، آگے تمہارے کھلے اور چھپے سب حالات کا جاننے والا ﷲ ہے۔}
اور یہ بھی : {غافر الذنب وقابل التوب شدید العقاب ذی الطول} (غافر، ۳) {گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے، سخت سزا دینے والا اور بڑا صاحب ِ فضل ہے۔} اور اس نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا: {نبیء عبادی انی انا الغفور الرحیم۰ وان عذابی ھو العذاب الالیم} (الحجر، ۴۹ ۔ ۵۰) {اے نبیؐ، میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت درگزر کرنے والا اور رحیم ہوں، مگر اس کے ساتھ میرا عذاب بھی نہایت دردناک عذاب ہے۔}
٭٭٭
المجتمع، العدد۱۹۶۷، ۲۷ رمضان ۱۴۳۲ہ، ۲۷ ۔۸۔۲۰۱۱ء
مراجع (قطاع الطریق کی تمام اقساط کے لئے)
۱۔ تفسیر القرآن الکریم (ابن ِ کثیر، قرطبی، طبری، جلالین)۔
۲۔ جامع العلوم والحکم، ابن ِ رجب۔
۳۔ وقایۃ الانسان من الجن والشیطان، وحید عبد السلام بالی۔
۴۔ السیاسۃ الشرعیۃ، ڈاکٹر یوسف قرضاوی۔
۵۔ تزکیۃ النفوس وتربیتھا کما یقررہ علماء سلف، جمع و ترتیب، ڈاکٹر احمد فرید۔
۶۔ وصایا الرسولﷺ ، طہ عبد ﷲ عفیفی، ج۱ ، الوصیۃ السابعۃ والعشرون ’’الزھد‘‘۔
۷۔ صحیح مسلم بشرح النووی، حدیث الاسلام۰کام۔
۸۔ موسوعۃ ڈاکٹر النابلسی للعلوم الاسلامیۃ، اسماء ﷲ الحسنی: الغفار، نابلسی۰کام
۹۔ موقع الاسلامدوت کوم۔ قرآن الاسلام۰کوم
۱۰۔ موقع الدرر السیئۃ۔
۱۱۔ موقع المحدث