پاکستانی عورت

کچھ ذکر دنیا کی سب سے پرانی تہذیب کی عورت کا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فریحہ حسین:

وقت گزر جاتا ہے مگر گزرتے ہوئے انسانی تہذیب پر دھول اڑا کر گزرتا ہے۔ اسی دھول میں انسانی تہذیب، مذہب، عصبیت، ریت رواج اور علم کےسہارے آگے بڑھتی ہے۔ گزر جانے والی نسلیں اپنے تجربات، ریت رواج کی شکل میں اگلی نسل کو منتقل نہ کرتیں تو ارتقاء کا عمل رک جاتا۔

وادی سندھ کے کنارے پر آباد ہونے والی دنیا کی پرانی ترین تہذیب کی عورت آج بھی اپنی حثیت منوانے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ عورت کی اس جدوجہد کی عمر غالباً بہت پرانی ہے۔ عورت کے حقوق کا علمبردار مغرب عورت کو ووٹ ڈالنے کا حق انیسویں صدی کے آغاز میں دیتا ہے یعنی تب تک ریاست اور معاشرے کو چلانے والی قوتوں کے انتخاب میں عورت کا کوٸی کردار ہی نہ تھا۔

اسلام دنیا کا پہلا مذہب جس نے عورت کی مسلمہ حثیت کو تسلیم کیا۔ عورت کو جاٸیدادمیں حصہ دے کے اس کے مقام کو مضبوط کیا۔ ماں کی حثیت سے اس کے مقام کو مزید بڑھایا مگر ہم پاکستانیوں کے اندرسےوہ روایات نہ نکل سکیں جو ہندئووں کے ساتھ صدیوں تک رہنے کی وجہ سے ہمارے معا شرے کا حصہ بنیں۔
وقت بدلا زمانہ بدلا اور ’میرا جسم میری مرضی‘ جیسا لغو نعرہ سامنے آیا۔ کوئی ذی ہوش اس نعرے کی حمایت نہیں کر سکتا۔ ہاں! شاید زینب کر سکتی تھی۔ یہ نعرہ جہاں سے بلند ہوا اور جیسے بلند ہوااس پر معاشرے کا احتجاج شاید ٹھیک تھا۔

اس سلسلے میں ایک اور بات غور طلب ہے کہ ہم عورتیں خود بھی مردوں سے زیادہ اپنے استحصال کی ذمہ دار ہیں۔ ایک ماں جب اپنے بیٹے کو سکھاتی ہے کہ بیوی کو جوتی کی نوک پر رکھنا، جب بیٹی کو یہ سکھاتی ہے کہ ساس کو ایک کی دس سنانا تو در حقیقت وہ عورت کااستحصال ہی کر رہی ہوتی ہے۔ ماں بیٹی کی تربیت کے لٸے تو بڑے جتن کرتی ہے مگر بیٹے کو کیوں نہیں سکھاتی کہ مرد اگر روتا نہیں تو رلاتا بھی نہیں۔

یاد رکھیں زندگی مرد کی بھی آسان نہیں ہے۔ عورت جس گھر کو جنت بنانے کے خواب دیکھتی ہے اس کے لۓمرد پتہ نہیں کہاں کہاں کی خاک چھانتا ہے۔ درحقیقت! عورت اور مرد دونوں ہمارے معا شرے کا محور ہیں۔
(مصنفہ لاہور کےایک مقامی کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں