مولانا طارق جمیل خطاب کرتے ہوئے

مولانا ! یہ تو ہوگا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبیداللہ عابد:
حکمرانوں کے نزدیک ہونے کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ وہ حاصل بھی ہوتی ہے اور ادا بھی کرنا پڑتی ہے۔ علمائے کرام کو یہ قیمت کچھ زیادہ ہی ادا کرنا پڑتی ہے۔ حال ہی میں‌ یہ قیمت مولانا طارق جمیل کو ادا کرنا پڑی۔ عمران خان کے وزیراعظم بننے سے پہلے مولانا کے بارے میں تاثر تھا کہ وہ ایک غیرجانبدار شخصیت ہیں، انھیں سیاست دانوں‌سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ہاں! ہر نئی حکومت بننے پر وہ وزیراعظم کے پاس جاتے ہیں، انھیں‌سمجھاتے بجھاتے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہوئی تو مولانا طارق جمیل وزیراعظم نوازشریف سے بھی ملے۔ وزیراعظم نے انھیں‌کہا کہ وہ کابینہ کے اجلاس سے خطاب کریں۔ مولانا نے وفاقی وزرا کو تبلیغ کی، واضح لفظوں میں انھیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع وفرمانبردار بن کر فرائض منصبی سرانجام دینے کو کہا۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو وزیراعظم عمران خان اور مولانا کے درمیان رابطے قائم ہوئے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان ملاقاتوں میں اضافہ ہوا۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین کے لیے یہ ملاقاتیں قابل اعتراض نہ تھیں، تاہم ان کے ماتھے پر شکنیں تب پیدا ہوئیں جب مولانا طارق جمیل نے عمران خان کی حمایت میں‌واضح بیانات دینا شروع کردیے۔

انھوں نے سمجھا کہ جب مولانا کے نزدیک عمران خان ہی ”اکیلا دیانت دار“ ہے تو اس کا واضح مطلب ہے کہ باقی دیانت دار نہیں۔ اگر مولانا ”اکیلا“کا لفظ شامل نہ کرتے تو عمران خان کے سیاسی مخالفین کو یہ بات سوچنے کا موقع نہ ملتا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ مولانا نے تحریک انصاف کے قائد کے حق میں مزید کئی جملے بھی ارشاد فرمائے۔ نتیجتاً سوشل میڈیا پر ایسا شور بپا ہوا کہ تین چار دن تک تھمنے میں نہیں آرہا۔ توئٹر پرمولانا طارق جمیل کے نام کا ٹرینڈ ٹاپ ٹرینڈز میں رہا۔

میرا خیال ہے کہ مولانا طارق جمیل ایک دعوتی حکمت عملی کے تحت وزیراعظم عمران خان کے قریب ہوئے ہیں۔ وہ ہر حکمران کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ عمران خان پر اثرانداز ہوکر ملکی پالیسیاں ٹھیک کروانے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ شاید اسی بات کا خدشہ سیکولر اور لبرل طبقہ کو بھی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اندر موجود سیکولرز اور لبرلز طبقہ بھی مولانا طارق جمیل کے خلاف ہے، ان میں وفاقی وزیر شیریں مزاری پیش پیش ہیں۔ اسی طرح کچھ دیگر حکومتی ذمہ داران بھی۔ ان کا اعتراض‌ ہے کہ مولانا طارق جمیل نے اپنے خطاب کے دوران معاشرے میں پھیلتی مبینہ بےحیائی پر بات کیوں‌ کی اوراس کے لیے خواتین کے لباس کو مورد الزام کیوں ٹھہرایا۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے شیریں مزاری ایسی شخصیات کی مولانا کے خلاف ٹویٹس کو بھی خود تحریک انصاف کے لوگوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ سیکولرز اور لبرلز نے کورونا وائرس کو ”اللہ کا عذاب“ کہنے پر بھی مولانا طارق جمیل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

تحریک انصاف کے کارکنان بلا سوچے سمجھے پورے میڈیا کو لعن طعن کرتے ہیں جیسے وہ مولانا کا مخالف ہے۔عمران خان کے چاہنے والوں کی اکثریت غیرضروری طور پر جذباتی ہے۔ یقیناً بعض صحافیوں نے مولانا کو حکمران کا قرب اختیار کرنے ، اس کی تعریف و توصیف کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ دوسری طرف بعض صحافی مولانا طارق جمیل کے ساتھ بھی کھڑے ہیں، مثلا معروف تجزیہ نگار انصار عباسی کا کہنا ہے کہ

”مولانا طارق جمیل نے فحاشی و عریانیت کے متعلق جو بات کی وہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے عین مطابق ہے لیکن افسوس اس پر بھی اُن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے اور ایسا کرنے والوں میں میڈیا کے ساتھ ساتھ حکومتی ذمہ دار بھی شامل ہیں جو قابل افسوس ہے۔“

جہاں تک ’’ اکیلا عمران خان دیانت دار ہے“ والی بات ہے، یہ تو عمران خان کی کمر تھپتھپائی گئی ہے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ کیونکہ مولانا طارق جمیل اس سے پہلے والے حکمرانوں کی بھی اسی طرح کمر تھپتھپاتے رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ وہ نوازشریف اور ان کی ٹیم کے جس فرد سے بھی ملتے تھے، اسے ایماندار اور دیانت دار کہتے تھے۔ اس وقت ان کے بیانات زیادہ نمایاں نہیں ہوتے تھے اس لئے تحریک انصاف کے کم ہی لوگوں کی نظر سے گزرتے تھے اور کم ہی لوگ آتش زیرپا ہوتے تھے۔

عمران خان اپنی پالیسیوں کے سبب عدم مقبولیت کا شکار ہوئے، اس لیے ان کی حکومت کو معاشرے کی ایسی شخصیات کی طرف سے شاباش کی ضرورت تھی جن کی مقبولیت زیادہ ہو، مولانا طارق جمیل ایسے لوگوں کی فہرست میں چوٹی پر ہیں اسی لئے مولانا کو ٹیلی تھون تقریب میں بلایا گیا، جو شاباش انفرادی طور پر عمران خان کو ملتی تھی، وہ تقریب میں کھلے عام مل گئی۔ نتیجتاً جہاں انھیں تحریک انصاف کے کارکنان کی طرف سے تعریف و توصیف ملی، وہاں عمران خان کے مخالفین نے ان کی باتوں کو دل میں برا جانا یا پھر کھلے عام تنقید کی۔

مولانا طارق جمیل کو ایک حکمران کی کھلے عام تعریف کرنے کا بہرحال نقصان ہوا ہے، ایک بڑے حلقے نے ان کی اس بات کو ناپسند کیا ہے۔ یہ وہ قیمت ہے جو مولانا کو ادا کرنا پڑی ہے۔ بہرحال مولانا پر تنقید کرنے والوں کو سمجھنا چاہئے کہ بعض اوقات نفسیات اور تعلیم و تربیت کے اصولوں کے پیش نظر شاباش دے کر، پیٹھ تھپتھپا کر مخاطب سے کام لیے جاتے ہیں، ’شاباش‘ سرٹیفکیٹ نہیں ہوتا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “مولانا ! یہ تو ہوگا”

  1. معلمہ ریاضی Avatar
    معلمہ ریاضی

    بلا تبصرہ