شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ کی ہلاکت کی خبریں ایک بار پھر سوشل میڈیا پر پورے زوروشور سے گردش کررہی ہیں۔ امریکی صحافی ایڈم ہوسلے نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کی ہلاکت سے متعلق خبر ٹوئٹ کی جس کے بعد کم جونگ ان کی ہلاکت سے متعلق دو ٹرینڈ ٹاپ پر آگئے جن میں سے ایک #KIMJONGUNDEAD ہے اور دوسرا #NorthKorea۔
’کم جونگ ان‘ کی صحت کی خرابی کے حوالے سے خبریں گزشتہ کئی روز سے زیرگردش تھیں جن کے مطابق وہ دماغ کی ایک سنگین بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں، بعض دیگر رپورٹس کے مطابق وہ دل کے عارضہ کے شکار ہیں اور ان کی حالت تشویش ناک ہے۔ اب جو اطلاعات آرہی ہیں، ان کے مطابق وہ انتقال کرچکے ہیں،اور امورمملکت ان کی بہن ’کم یو جونگ‘ نے سنبھال لیے ہیں۔
امریکی صحافی نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ’’ (ایچ کے ایس ٹی وی) ہانگ کانگ سیٹیلائٹ ٹیلی ویژن کے مطابق شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان ہلاک ہوچکے ہیں۔ خبر کے مطابق ان کے دل کا آپریشن ہوا جو کامیاب نہیں ہوسکا۔ لیکن امریکا نے اس حوالے سے اب تک کسی قسم کا رد عمل نہیں دیا۔ البتہ امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ میرے دوست کی موت کے بارے میں اطلاعات غلط ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا اپنے دوست سے رابطہ ہوا ہے؟ انھوں نے اس سوال کا جواب نہیں دیا۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق نہ صرف امریکا بلکہ خود شمالی کوریا کے سرکاری ذرائع نے اس حوالے سے اب تک مکمل خاموشی اختیار کررکھی ہے تاہم امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ زندہ ہیں۔
’کم جونگ ان‘ کی ہلاکت کی خبریں اس لیے زور پکڑ گئی ہیں کہ وہ 11 اپریل کے بعد سے غائب ہیں۔ وہ 15 اپریل کو کوریا کے بانی، اپنے دادا کی سالگرہ کے موقع پر بھی منظرعام پر نہیں آئے۔ اسی طرح انھوں نے 25 اپریل کو ’ملٹری فائونڈیشن ڈے‘ کی تقریب میں بھی شرکت نہیں کی۔
اس وقت ’کم جونگ ان‘کے زندہ یا مردہ ہونے کا سوال اہم ترین بن چکا ہے۔ امریکی ادارے اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ پینٹاگان ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ سیٹلائٹ کے ذریعے شملی کوریا بالخصوص کم جون ان کی رہائش گاہ اور اردگرد علاقے پر مکمل نظر رکھے ہوئے ہیں تاہم ابھی تک ایسی کوئی سرگرمی نظر نہیں آئی جس سے اندازہ لگایا جاسکے کہ شمالی کوریا کے سربراہ زندہ ہیں یا نہیں۔
شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا نے کم جونگ ان کی آخری سرگرمی 11 اپریل کو دکھائی تھی جب وہ ایک اجلاس کی صدارت کررہے تھے لیکن اس کے بعد سے وہ مسلسل غائب ہیں۔ چندروز پہلے سرکاری میڈیا کے ذریعے یہ ضرور بتایا گیا کہ کم جونگ مسلسل سرکاری امور سرانجام دے رہے ہیں تاہم ان کی موجودگی کا کوئی اتاپتہ نہیں دیا گیا۔
جمعہ کے روز خبررساں ادارے ’ رائٹرز‘ نے بتایا کہ چینی ڈاکٹروں اور دیگر ماہرین کی ایک ٹیم شمالی کوریا پہنچی ہے۔ اغلب امکان ہے کہ وہ کم جونگ ان کے علاج کے لیے شمالی کوریا آئی ہے۔ دوسری طرف چند روز پہلے جنوبی کوریا کے اخبار”کوریا ٹائمز“ نے جنوبی کوریا کی قومی اسمبلی ایک رکن جی سیونگ ہو کا ایک بیان شائع کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کے سربراہ اس وقت شدید بیمار ہیں، ان کے زندہ بچنے کی امید کم ہے۔ اس وقت ان کے ممکنہ جانشینوں کے درمیان کشمکش جاری ہے۔