ڈاکٹر مسعوداختر شیخ، گورنمنٹ سید مٹھا ٹیچنگ ہسپتال لاہور کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سے کورونا وائرس کے حوالے سے خصوصی گفتگو
محمد بلال اکرم کشمیری:
ڈاکٹر مسعود اختر شیخ گورنمنٹ سید مٹھا ٹیچنگ ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے طور پر اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں،ڈاکٹر صاحب گنگا رام ہسپتال لاہور میں ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور بعد ازاں میوہسپتال لاہور میں ایڈیشنل میڈیکل سپرٹنڈنٹ کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں،ڈاکٹر صاحب کا یہ انٹرویو بادبان کے قارئین کے لیے پیش خدمت ہے:
کرونا وائرس کی واضح علامات کیا ہیں؟
ڈاکٹر مسعود:عموماً سردیوں میں نزلہ و زکام وغیر ہ ہو جاتا ہے۔ ا س بار سردیا ں طویل ہوگئی ہیں اس کی وجہ گلوبل کلائمنٹ چینج ہے،اسی وجہ سے نزلہ و زکام وغیرہ کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ سیزنل فلو میں درجنوں قسم کے وائرس ہوتے ہیں،اس میں اب ایک اور وائرس کا اضافہ ہوا ہے جو کہ کرونا یا کویڈ۔19 ہے۔
شاید موسم سرما میں طوالت کی وجہ سے یہ وائرسس زیادہ ایکٹیو ہو گئے۔ علامات میں گلہ خراب، بخار، کھانسی کا ہونا ہے لیکن یہ علامات ہر فلو کے ساتھ ہو تی ہیں،ان میں جو پریشانی والی علامات ہیں وہ یہ ہیں کہ اگر کھانسی شدت اختیار کر لے اور سانس لینے میں تکلیف ہو،بندے کا سانس اکھڑنا شروع ہو جائے،اور ساتھ میں دیگر علامات (نزلہ و زکام)بھی ہو ں،
اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی ٹریول ہسٹری ہونی چاہیے یعنی وہ کسی ایسے علاقے سے ہو کر آیا ہو جیسے چین،ایران وغیرہ پھر اس میں شک کی گنجائش بڑھ جاتی ہے کہ کہیں اس کو کرونا نہ ہو گیا ہو۔ ہر نزلہ و زکام کرونا نہیں ہو تا،اس لیے لوگوں کو ہسپتال نہیں آنا چاہیے لیکن اگر نزلہ و زکام کے ساتھ ساتھ سانس لینے میں دقت کا سامنا ہو تو پھرلازمی طور پر اس حوالے سے فکر مند ہو نا چاہیے کہ کہیں کرونا تو نہیں ہو گیا۔
یہ وائرس کن لوگوں پر حملہ کر سکتا ہے؟
ڈاکٹر مسعود: ایک چیز ہوتی ہے نیچر ل ہسٹری آف ڈیزیز۔جب بھی کوئی وائرس کسی جسم پر حملہ کرتا ہے،اگراس کا فوری علاج نہ کیا جائے تو اس کے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں؟اسے کہتے ہیں نیچرل ہسٹری آف ڈیزیز۔ اگر کرونا کا بھی حملہ ہو جائے،بندہ نارمل ہو،تندرست و توانا ہو،خوراک ٹھیک ہو ،پانی زیادہ پیتا ہو،سبزیوں کااستعمال کرتا ہو،نیند پوری لیتا ہو،کام کے ساتھ آرام بھی کرتا ہو،اس کا مطلب ہے کہ اس کا دفاعی نظام بہتر ہے
لیکن اگر وہ ان چیزوں پر عمل نہیں کرتا، بہت کم عمر ہے یا بہت زیادہ عمر کا ہے یا بہت سی ایسی ادویات لے رہا ہو جیسا کہ اگر اسے گردوں کا مسئلہ ہے،کچھ ہارٹ کی دوائیاں لے رہے ہوتے ہیں۔یا کسی کو کوئی بہت پرانا مرض ہوتا ہے،جیسے شوگر وغیرہ،ایسے لوگوں کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ان کا دفاعی نظام پہلے سے ہی کمزور ہے اور کمزور نظام کے ساتھ اگر اس قسم کا وائرس حملہ کرتا ہے تو ان میں جو نتائج ہیں وہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔
کیا صحت یاب ہونے والے مریض کو کرونا دوبارہ متاثر کر سکتا ہے؟
ڈاکٹر مسعود: ویسے ابھی یہ نیا وائرس ہے،کرونا بنیادی طور پر ایک فیملی ہے۔ اس کے بہت سے ممبر ہیں ایک نئے ممبر کا اضافہ ہو ا ہے۔ فی الحال تو یہ کہنا کہ اس کو دوبارہ لانگ لائف میں کرونا کا حملہ دوبارہ نہیں ہو گا،قبل از وقت ہو گا۔لیکن عموماً ہم نے جو دیکھا ہے کہ کرونا کے جو باقی وائرس ہوتے ہیں،انہوں نے جب ایک بار حملہ کیا ہے جیسے سارس(Severe acute respiratory syndrome) (سارس یہ سانس کی بیماری ہے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ بیماری خاص قسم کی بلیوں سے نکلی ہے جو جنوبی چین میں کھائی جاتی ہیں۔ اس وائرس کا تعلق بھی چمگادڑوں سے ہے۔سارس کی ایک بڑی وبا 2004 اور 2002 میں پھیلی تھی۔ یہ وائرس کھانسی اور چھینک سے ہوا کے ذریعے پھیلتا ہے۔) 2002 میں آیا،ایم ای آر ایس(Middle East Respiratory Syndrome)(ایم ای آر ایس وائرس یہ بھی سارس کی قسم کے وائرس سے پھیلتی ہے اور یہ پہلی بار2012 ء میں سعودی عرب میں سامنے آئی تھی۔ اس وائرس سے متاثرہ35 فیصد افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ بیماری اونٹوں سے پھیلی تھی لیکن انسانوں میں یہ کیسے پہنچی؟ ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا)۔ یہ بھی اسی فیملی کا ایک ممبر ہے تو اگر کرونا کے پرانے وائرسز کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو وہ دنیا کو ایک بار ہلاتے ہیں اس کے بعد ان کیسز کی تعداد بہت تھوڑی ہو جاتی ہے کہ انسانوں کا مدافعتی نظام طاقتور ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس لیول پر جاکر حملہ نہیں کرتے تو اس لیے پرانی تاریخ کی روشنی میں یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ شایدیہ وائرس دوبارہ جس کے مدافعتی نظام میں ایک مرتبہ آگیا ہو اور وہ ٹھیک ہو گیا ہو اس پر دوبارہ حملہ نہ کرے۔
مریض کے لیے جو 14دن کا ٹائم فریم دیا گیا ہے اس سے کیا مراد ہے؟ کیااس میں مریض ٹھیک ہو جاتا ہے؟ یا اس میں وائر س ایکٹیو ہوتا ہے؟ یا پھراس میں وائرس ختم ہو جاتا ہے؟
ڈاکٹر مسعود:جب کوئی وائرس کسی کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے تو کم و بیش 14روز کے اندر وہ مرض اس میں ظاہر ہو جاتا ہے۔ایک بندہ جو بالکل نارمل نظر آرہا ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی علامات نہیں ہیں،لیکن اگر اس میں وائر س موجود ہوگا تو 14دنوں کے اندر اندر اس کے اندر علامات ظاہر ہوجائیں گی۔ اس سے یہ ہو گا کہ 14دنوں کے اندر اندر صحت مند اور متاثرہ افراد الگ الگ ہو جائیں گے۔10سے 14دن کے اندر اندر اس نے اپنی علامات ظاہر کرنی ہوتی ہیں یا تو مریض ٹھیک ہو جاتا ہے یا پھر مریض کے اندر کمپلیکیشن آجاتی ہیں۔
یہ وائرس جسم میں کتنی مدت تک قیام کر سکتا ہے؟
ڈاکٹر مسعود: کم و بیش یہ وائرس جسم میں ایک مہینہ ٹھہر سکتا ہے۔
اگر معمولی نزلہ زکام بھی تو ہسپتال میں چیک اپ کرانا چاہیے؟
ڈاکٹر مسعود: کیونکہ آج کل خوف کی وجہ سے لوگوں کو اگر کوئی نزلہ بھی ہو جاتا ہے تو وہ ہسپتال کا رخ کر لیتے ہیں کہ کہیں کرونا تو نہیں ہو گیا،لیکن ابھی تک تو پاکستان میں کام اس لیول پر نہیں آیا۔ اگلے 13،14دن بہت اہم ہیں اگر ہم نے ان کو یہ پیغام دے دیا،آپ اپنے گھروں میں رہیں،غیر ضروری باہر نہ نکلیں،اگربوجہ ضرورت آپ کو نکلنا پڑے تو ایک مناسب فاصلہ رکھیں،تاکہ یہ بیماری ایک سے دوسرے کو منتقل نہ ہو۔ہاں البتہ اگر بخار بہت تیز ہو جائے،ساتھ میں کھانسی میں بھی شدت ہو،پورے جسم میں شدید درد ہو تو پھر فکر کرنے کی ضرورت ہے اور ہسپتال چیک کرانا چاہیے۔
آپ اپنے دیگر مریضوں کو کس طرح ٹریٹ کرتے ہیں؟ اس سلسلے میں کیا انتظامات کیے گے ہیں آپ کی جانب سے۔اور خاص طور پر دیگر امراض کے جو مریض آپ کے ہسپتال میں داخل ہیں ان کے لیے آپ نے کیا حفاظتی انتظامات کیے ہیں؟
ڈاکٹر مسعود:ہم نے کوشش کی ہے کہ وزیٹرز کو کم کر دیا جا ئے، اپنے عملے کو حفاظتی گاؤن اور گلفز وغیرہ دیئے جائیں،اورایسے مریض جن کو کھانسی وغیرہ کی شکایت ہے ان کے لیے علیحد ہ سکیشن بنادیا گیا تاکہ وہ وہی سے آئیں اور اپنا علاج کرائیں اور چلے جائیں تاکہ ہسپتال میں موجود داخل مریض ان سے محفوظ رہیں۔چونکہ ہمارا سینٹر چھوٹا ہے اور زیادہ کیسز بڑے ہسپتالوں کا رخ کررہے ہیں،جن میں سروسز ہسپتال اور میو ہسپتال سر فہرست ہیں۔
ڈاکٹر صاحب! ایسے مریض جو پہلے سے اگر کسی عارضے میں مبتلا ہیں اور وہ اپنی روز مرہ کی ادویات استعمال کر رہے ہیں تو اگر خدانخواستہ وہ کرونا سے متاثر ہوتے ہیں تو کیا ان کو اپنی ادویات جاری رکھنی چاہیے یا چھوڑ دینی چاہئیں؟
ڈاکٹر مسعود: شوگر اور دل کے عارضے میں مبتلا مریض ہیں اور وہ ادویات استعمال کر رہے ہیں،وہ ادویات کا استعمال جاری رکھیں اور کرونا وائرس کے حملے کی صورت میں اپنے متعلقہ ڈاکٹر سے رابطہ کریں اور ان سے مشاورت کے بعد ہی ادویات کا استعمال کریں۔
اگر کرونا کاکوئی ایسا مریض جو ابھی گھر میں ہے اور سٹیج ون پر ہے تو کیا وہ کسی قسم کی کوئی دوائی لے سکتا ہے۔
ڈاکٹر مسعود:جب تک ٹیسٹ نہ ہوجائے صرف علامات کی بنیاد پر تو کوئی دوائی استعمال نہیں کی جا سکتی۔
ابھی فوری طور پر کیا کرونا کے مریضوں کو کچھ ادویات دی جا رہی ہیں؟
ڈاکٹر مسعود:جب کروناکی تشخیص ہو جاتی ہے تو بڑے ہسپتالوں میں ا س کا ارینج کیا گیا ہے۔اگر سانس میں زیادہ مسئلہ ہوتو آکسیجن وغیرہ دی جاتی ہے۔بخار کی ادویات دی جاتی ہیں،اور سانس ٹھیک کرنے والی ادویات دی جاتی ہیں،کچھ اینٹی وائرل بھی ہیں جو سرکاری طورپر انھیں ملتی ہیں۔ پھر کچھ ایسی ادویات بھی ہیں جن کے بارے میں یہ سمجھا جا تا ہے کہ اس کا اس بیماری کی شدت میں کم کرنے میں مثبت اثر ہو سکتا ہے تو ان کا ایک پیکیج بنایا جا تا ہے۔
مشاہد ہ ہے کہ اس وائرس سے مردوں کی نسبت خواتین کم متاثر ہوتی ہیں؟
ڈاکٹر مسعود:خواتین میں کرونا کے چانسز نسبتاً کم ہیں،شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آدمی چونکہ باہر پبلک میں جاتے ہیں،کھانا کھا رہے ہیں، مارکیٹوں میں جارہے ہیں،سوشل گیدرنگ میں لوگ زیادہ جاتے ہیں،جبکہ ہماری خواتین زیادہ تر وقت گھر پر ہی گزارتی ہیں۔
حاملہ اور ایستھیما کے مریضو ں کو کس حد تک احتیاط کرنی چاہیے؟
ڈاکٹر مسعود:چونکہ حمل میں عورت کی دفاعی صلاحیت کم ہوجاتی ہے،حاملہ خاتون کی حفاظت کی جائے تو بہتر ہے۔کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کو ایستھیما بھی ہوتا ہے،تو ان کی سانس کی نالیاں پہلے سے ہی تنگ ہوتی ہیں،اور کبھی کبھی ان پر اٹیک بھی ہوتے ہیں،ایسے افراد جو سانس کے کسی عارضے میں مبتلا ہیں،چاہے وہ ایستھیما ہو یا سی او پی ڈی(Chronic Obstruktive Pulmonary Disease)اس میں بھی سانس کی نالیاں مستقل بنیادوں پر تنگ ہو جاتی ہیں،اس صورت حال میں کرونا ان کو زیادہ متاثر کر سکتا ہے۔کچھ لوگوں میں الرجی ہوتی ہے،کسی کو ڈسٹ،کسی کو پرفیوم سے وغیرہ سے تو جو ایستھیما،سی او پی ڈی یا الرجی ہوتو انہیں احتیاط کرنی چاہیے۔