ببرک کارمل:
بچوں کا ادب انتہائی مشکل اور سبق آموز ہیں ۔ بچوں کیلئے لکھنے سے پہلے بچہ بننا ضروری ہوتا ہے۔ بچوں کے ادب میں قدم رکھنا آسان ہے مگر بچوں کے ادب کے لئے مسلسل لکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔کچھ لوگ بچوں کے ادب کو ایک مشغلہ سمجھتے ہیں مگر اصل میں مشغلہ بالکل نہیں ہے ۔ وہ خود مشغلہ ہے۔ جس طرح سرکس میں شیر لوگوں کا دل بہلاتا ہے اسی طرح ہے۔ بچوں کیلئے دو چار کہانیاں لکھ کر بچوں کے ادب کے کاروان بننے والے اپنے گھر کے بھی کاروان نہیں ہوتے ہیں ۔
اصل میں یہی لوگ بچوں کے ادب کے ٹھیکیدار بن بیٹھے ہیں اور بچوں کے ادب کو این جی او کے ذریعے کوڑیوں کے داموں میں فروخت کرنے میں لگے ہوئے ہیں جو افسوس ناک عمل ہے اور ناممکن عمل ہے بچوں کا ادب ایک بارش کا قطرہ ہے اس قطرے سے فائدہ اٹھا تے کم لوگ ہے انہی بارش کے قطروں کو ملا کے گلاب بنایا جاتا یہی گلاب ادب میں پھر چھا جاتے ہیں۔
جی ہاں! میں یہاں جس کتاب پہ لکھنا چاہتا ہوں وہ ایک بہت اچھی اور سیر نہیں بلکہ سوا سیر کتاب ہے یہ کتاب ایک ایسے شخص نے لکھی ہیں جو ایک پولیس انسپکٹر ہیں۔ احمد عدنان طارق کسی تعارف کے محتاج نہیں ہے، بہت اچھے لکھاری اور بہت اچھے انسان ہیں۔ ان کے تراجم شدہ تحاریر ملک اور بیرون ممالک میں بہت مشہور ہیں۔ میرا ان سے رابطہ پہلی مرتبہ فیس بک کے ذریعے ہوا اور پھر آہستہ آہستہ دوستی ہونے لگی تو انہوں نے دوستی کا پہلا تحفہ اپنی کتاب ”بارش اور گلاب“ روانہ کیا جسے پڑھنے کے بعد اس پہ تبصرہ تو بنتا ہے۔
میری ایک بہت پرانی عادت ہیں کہ میں کتاب پہ اس وقت تبصرہ کرتا ہوں جب وہ بہت پسند آئے۔ جس طرح میں فیس بک پہ کمنٹ بہت کم کرتا ہوں اسی طرح بک پہ تبصرہ کم کرتا ہوں۔ اس کتاب میں تمام تحریریں بہت اچھی ہیں، خاص کر کے بارش اور گلاب، آزان، سرکس، سونے کا تاج، برائی کا انجام،عجیب لڑکی، دوستی دشمنی، وہ کون تھی اور لباس مجھے بہت پسند آئیں۔ ان تحریروں میں ایسا انداز بیان تھا جیسے مصنف نے ایک تاج محل تعمیر کیا ہں جس میں مزدوری بھی خود کی اور مستری بھی خود مصنف ہے۔
یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کو بار بار پڑھنے کو دل کرتاہے،اس کتاب میں جو کچھ مجھے پڑھنے کو ملا جو آج سے پہلے نہ ملا۔ جبکہ اس کتاب پہ پہلا تبصرہ جدون ادیب کا ہے اس سے بہتر تبصرہ حسن عباس اور حافظ مظفر محسن کا تھا جو کم الفاظ میں بہت کچھ تھا جبکہ اس کتاب میں چار چاند عطاءالحق قاسمی کے چند الفاظ نے لگا دیئے۔
خوبصورت سرورق سے لے کر خوبصورت چھتیس اسکیچز رابعہ شیخ کی اس کتاب کی جان ہیں میں اس کتاب کی اشاعت پہ پولیس انسپکٹر احمد عدنان طارق کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتاہوں اور امیدکرتا ہوں وہ اسی جذبے لگن اور ولولے سے اپنا سفر جاری رکھیں گے اور ان این جی او کے کاروان سے دور بھاگتے رہیں گے جن کی منزل ہی پیٹھ ہے اور پیٹھ پہ وار کرکے چلے جاتے اور جن ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا تو بلاک بلاک کھیلتے ہیں۔ یہ ہے بچوں کے ادب کا کاروان۔ اب اس کاروان کو رکنا چاہیے اور اپنی دوکان دوبارہ کھولنی چاہیے تاکہ بچوں کا ادب دوبارہ پروان چڑھے اور اپنی اصل منزل طے کریں۔
میں تو ہمیشہ اس چیز کا قائل ہوں۔اچھا ادب لکھا جائے اور اچھا ادب پڑھا جائے۔ بچوں کے لئے تفریح ہو تربیت ہو، کرداری سازی ہو، جو لکھا جائے، جیسا لکھا جائے، اس کا خیر مقدم کیا جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ترجمہ شدہ تحاریر کو شائع کرنے سے پہلے ان کی جانچ پڑتال کی جائے نہ کہ شائع ہونے کے بعد ایڈیٹر اپنی اس بات کی وضاحت کریں کہ آپ نے یہ تحریر کہاں سے لی ہے،
اس جدید دور میں فون نمبر فیس بک اور کتنی سہولیات موجود ہے، ان سے ایڈیٹر کو فائدہ اٹھانا چاہیے نہ کہ شائع ہونے کے بعد تنقید کرنا چاہئے۔ اگر شائع ہونے کے بعد تنقید ایڈیٹر کریں تو وہ ایڈیٹر نہیں بلکہ کسی کا روح رواں ہے حتی کہ یہ بات ان ایڈیٹروں کےلئے باعث شرم اور باعث عبرت ہے جو بعد میں اداریہ بھی اسی حوالے سے شائع کرتے ہیں۔
آج کے اس دور میں جسے چار پیسے ملے اسی این جی او کے کہنے پہ تنقید کی جاتی ہے افسوسناک عمل ہے۔ ان این جی او کو اب بچوں کے ادب کو تباہ کرنے نہیں دیا جائے گا۔ اب انھیں اپنی دوکاندای بند کرنی ہوگی۔ خدارا ! اب بچوں کے ادب کو خیر باد کہو اور جائو اپنی الگ دوکان کھولو ۔اب ہم سب ادیب آپ کے سامنے دیوار چین بن جائیں گے۔ ایک پروگرام کرکے بچوں کے ادب کو فروخت اب نہیں کیا جاسکتا۔ اب ہم سب ادیبوں کو ایک ہونا چاہیے تاکہ وہ لوگ بچوں کے ادب کو خیر باد کہہ دیں۔
ایک تبصرہ برائے “”بارش اور گلاب“۔۔۔۔۔۔۔ اور بچوں کا ادب”
کتاب پر تبصرہ پڑھ کر کتاب پڑھنے کو دل چاہ رہا ہے ۔ اچھا ھوتا اگر آپ پبلشر کا نام بھی لکھ دیتے یا بذریعہ ڈاک منگوانے کا ایڈریس بھی دے دیتے۔