ایمان مغازی الشرقاوی،
ترجمہ/ میمونہ حمزہ:
یہ اس دنیا کی زندگی کا سب سے بڑا راہزن ہے؛ بلکہ وہ اس طویل راستے پرراہ زنوں کا لیڈر اور ان کا رہنما ہے،اور اس نے اس پر قسم کھائی ہے، اور بار بار کوشش کی ہے، بلکہ وہ اب تک ہر بنی آدم کے لئے اس کی کوشش کر رہا ہے، خواہ ان کا کوئی بھی رنگ، شکل، زبان اور طبقہ ہو؛ تاکہ وہ ان کے دلوں میں محفوظ ایمان چرا لے، وہ ان کی پہلی پیدائش کے دن سے ان کی پہلی فطرت چرانے کے لئے کوشاں ہے۔
وہ چاہتا ہے کہ ان کی اس فطرت کو مسخ کر ڈالے، تاکہ اس کا وجود تک باقی نہ رہے، یا وہ اس کی جگہ کچھ اور طریقہ اپنا لیں، یاوہ اسے بدل ڈالے، تاکہ وہ اور بنی آدم ایک ساتھ برابر ہو جائیں، وہ ان کے بھلائی کے راستے کو کاٹتا ہے، جو سیدھا مالک الملک تک پہنچتا ہے، اس کی کوشش کچھ لوگوں کے ساتھ کامیاب ہو جاتی ہے اور کچھ کے مقابلے میں ناکام، لیکن وہ خود اس سفر کے اختتام پر پریشان حال اور مغلوب ہو گا، اس پر لعنت چسپاں ہو گی، اور وہ کھلے نقصان میں گھرا ہوا ہو گا، کیونکہ اس کے اندر تکبر تھا، اور ٹیڑھ اور گمراہی تھی اور وہ دھوکے باز تھا۔
تو کیا ہم پسند کریں گے کہ یہ ملعون ہمارا راستہ کاٹے، جبکہ ہم دنیا کی اس زندگی میں اﷲ عزوجل کی جانب چل رہے ہوں؟ اور کیا ہم اس راستے پر بلا کسی حفاظت اور بلا اسلحہ نکل کھڑے ہوں گے؟!
وہ جن لوگوں کا اغواء کرتا ہے، اس کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کرتا، اور جواب دہی کے احساس سے نکلنا چاہتا ہے، اس کی اس گفتگو کو قرآن نے بھی بیان کیا ہے:
{وقال الشیطن لما قضی الامر ان اﷲ وعدکم وعد الحق ووعدتکم فاخلفتکم وما کان الا ان دعوتکم فاستجبکم لی فلا تلومونی ولوموا انفسکم ما انا بمصرخکم وما انتم بمصرخی انی کفرت بما اشرکتمونی من قبل ان الظالمین لھم عذاب الیم} (ابراہیم، ۲۲)
اور تمہارا کیا حال ہو گا اے انسان جب تمہارے گھر کے راستے میں تمہیں ایک مکاردشمن مل جائے، اور تمہارے گھر جانے کا ہر راستہ بند کر دے، اور تمہارے لئے انتہائی سرکش اور عنادی اور لڑاکا دشمن بن جائے، اس کی ظاہری اور خفیہ فوج کا اتنا بڑا لشکر ہو کہ شمار بھی نہ ہو سکے، اور اس کے پاس دل کی تباہی کا ہر نوع اور ہر شکل کا اسلحہ ہو، اس کا لشکر طویل جنگ سے اکتاتا اور گھبراتا بھی نہ ہو، اور مسلسل استعمال کے باوجود اس کا اسلحہ کند نہ ہوتا ہو،
اسے آپ سے پہلے موت بھی نہ آئے گی، کہ آپ کو اس سے سکون مل جائے۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ نصیحت اس پر اثر نہیں کرتی، اور نہ ہی وہ تعریف سے متاثر ہوتا ہے، نہ آپ کرم سے اسے مسحور کر سکتے ہیں، اور نہ باتوں سے نرم کر سکتے ہیں، نہ ملامت سے اسے جھکا سکتے ہیں، نہ صلح پر مجبور کر سکتے ہیں۔ کیا آپ کسی کشمکش کے بغیر ہی اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے، یا بڑے چوکنا ہو کر اس کی بات سنیں گے؟؟
اور کیا ہو گا اگر اس نے آپ کو آپ کے گھر ہی میں داخل ہونے سے روک دیا، اور آپ کو اس سے روکنے کے لئے مکمل اصرار کیا، ایسے میں کیا آپ کے لئے مناسب نہ ہو گا کہ بادشاہوں کے بادشاہ سے مدد حاصل کر لیں، اور اس پر کامیابی حاصل کرنے کے لئے اس کی پناہ میں آجائیں، پھر پوری قوت اور پورا زور لگا دیں اور طویل کشمکش کے بعد بھی اپنے گھر میں داخل ہو جائیں، خواہ اس کو روکنے میں کتنی ہی مشقت اور محنت کیوں نہ لگانی پڑے، آپ نے صبر بھی کیا اور جمے بھی رہے، جہد ِ مسلسل جاری رکھی، آپ کے پائے استقلال میں لغزش نہ پیدا ہوئی، آپ نے اپنے جہاد پر پوری توجہ مرکوز رکھی، حتی کہ آپ نے اپنی مراد پا لی۔
اور اس ساری قوت کے باوجود، آپ جب تک مومن ہیں وہ آپ کے سامنے کمزور ہے، جب تک آپ مجاہدہ کرتے رہتے ہیں وہ آپ سے ڈرتا رہتا ہے، اور جب تک اس جنگ میں آپ اﷲ سے مدد حاصل کرتے رہتے ہیں وہ شکست خوردہ رہتا ہے، کیونکہ اس نے اس بادشاہ ِ عظیم کی نافرمانی کی ہے، اور اس قوی اور غالب عزوجل کے اطاعت سے فاسقانہ انداز میں نکل گیا ہے۔
اس کی چالیں کمزور ہیں:
اے انسان تو اس سے لڑائی میں متردد مت ہونا، اس کے سامنے تن کر کھڑا ہو جا، اور اس کی طاقت سے خوفزدہ نہ ہونا، وہ جتنی مرضی طاقت حاصل کر لے، حقیقت میں وہ کمزور ہی رہے گا، جتنا مرضی بلند ہو جائے، نامراد ہی رہے گا، اور کامیاب بھی ہو جائے تو شکست خوردہ ہی رہے گا۔ کیونکہ یہ قوت اس کے مقرب دوستوں کی طرف نہیں پلٹتی، جو اس کی سچی بادشاہت سے نکل گئے ہیں، اور اس کے حکم سے باہر ہیں، اور اس دشمن کی حکمرانی تو صرف ان دلوں پر ہے، جن کو وہ دھوکہ دیتا ہے، اور وہ اسے اﷲ کو چھوڑ کر اپنا ولی بنا لیتے ہیں، اور اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ان کے لئے خائن ہی ہے،
اگرچہ وہ ان پر اپنی خیرخواہی اور ذہانت ثابت کرتا رہتا ہے، اور جب بھی اپنی محبت اور دوستی کا اظہار کرتا ہے تو فراڈ ہی کرتا ہے، کیونکہ اس کی قوت بھی دھوکہ ہے، اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، اور اس کے اولیاء اور دوستوں پر جب بھی اس کی قلعی کھلتی ہے وہ جان لیتے ہیں کہ وہ ان کے حق میں کتنی خیانت کرتا رہا، تو وہ اس سے دور ہٹ جاتے ہیں، وہ نہ اس کے احکام کی پابندی کرتے ہیں اور نہ اس کی نصیحت قبول کرتے ہیں، اور وہ اسی لمحے رشد اور صواب کی جانب پلٹ جاتے ہیں، اور اپنا معاملہ اپنے آقا اور اپنی زندگیوں کے مالک سے درست کر لیتے ہیں، جو ان کا حقیقی مالک اور رب ذو الجلال والاکرام ہے؛ تاکہ وہ اس کی حفاظت میں عزت اور امن کی زندگی بسر کریں۔
اور اس دشمن کی قوت اس لحاظ سے بھی کمزور ہے کیونکہ انسانوں ہی کی ایک صنف قلبی طور پر اس سے زیادہ قوی ہے، وہ اس سے بڑے جنگجو ہیں، اس کے چالیں ان پر اثر نہیں کرتیں، وہ نہ اس کی ترغیبات سے متاثر ہوتے ہیں نہ اس کی مکاریوں کے جال میں پھنستے ہیں، بلکہ اس کی مکاریوں کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں، اور اس کی چالوں کا بھید کھول دیتے ہیں، اور اس کی ٹیڑھ کا اظہار کر دیتے ہیں، اور دوسرے لوگوں کے سامنے اس کے جھوٹ اور مکر کا پول کھول دیتے ہیں۔
ﷲ تعالی نے ہمیں شیطان مردود سے بچنے کی تعلیم دی ہے، اور قرآن پاک میں کئی جگہ اس کا ذکر اس کی تعظیم کے لئے نہیں کیا، بلکہ اس سے چوکنا کرنے کے لئے کیا ہے، پس ابلیس کا ذکر (۱۱) گیارہ مقامات پر کیا گیا، اور شیطان (واحد) کا ذکر (۶۳) تریسٹھ مرتبہ کیا، اور شیاطین (جمع) کا ذکر (۱۳) تیرہ مرتبہ کیا۔ اور یہ انسان اور اس کے اس دشمن کے تعلقات کی اہمیت کی دلیل ہے ، جو انسان کی پیدائش سے لیکر اس کی زندگی کے آخری لمحے یعنی موت تک مسلسل اس سے دشمنی کرتا ہے، اور اسے اﷲ کے راستے سے روکنے کے لئے سرگرم رہتا ہے۔
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: بنی آدم کا جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے اس کی پیدائش کے ساتھ ہی شیطان اسے چھو لیتا ہے، پس وہ شیطان کے چھونے سے چلانے لگتا ہے، سوائے مریم اور ان کے بیٹے کے‘‘ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے)۔ اور مزید فرمایا: ’’شیطان کہتا ہے: اے رب تیری عزت کی قسم، میں تیرے بندوں کو اس وقت تک گمراہ کرتا رہوں گا، جب تک ان کے جسموں میں روحیں موجود ہیں۔ ‘‘۔(اسے احمد نے روایت کیا، اور سیوطی نے اسے درست کیا)۔ اور حسن بصری سے سوال کیا گیا: کیا ابلیس سوتا بھی ہے؟ انہوں نے فرمایا: اگر سوتا تو ہمیں راحت مل جاتی۔
ہمارے اور شیطان کے درمیان معرکے کی ابتدا اس وقت ہوئی جب ہمارے باپ آدم ؑکو تخلیق کیا گیا، اور ابلیس نے ان سے جنگ کا اعلان کیا، اور اسے فیصلے کے دن تک بلا توقف ہرقیمت پر مستقل جاری رکھنے پر اصرار کیا، اور اسے ذرا حیا نہ آئی جب اس نے اپنے عزوجل رب کی نافرمانی کی، اور انکار اور تکبر کیا، اور اس کے حکم سے روگردانی کی۔ اور وہیں اﷲ نے اپنے بندے آدم کو اس دشمن سے چوکنا کر دیا تھا، اور اس سے فرمایا تھا: {فقلنا یا آدم ان ھذا عدو لک ولزوجک فلا یخرجنکما من الجنۃ فتشقی} (طہ، ۱۱۷)
لیکن یہ دشمن دھوکے، بددیانتی، جھوٹ اور غلط بیانی سے لیس ہو کر آدم کے سامنے آیا، اور ان سے مکاری کی، حتی کہ انہیں اور ان کی بیوی کو جنت سے نکلوا دیا، اور ان کے ساتھ ہی نیچے اترا، اور اولاد ِ آدم کے ساتھ اس کا قبیح کردار شروع ہو گیا، تاکہ قیمت کی گھڑی کے آنے تک ان کو تختہء مشق بناتا رہے، وہ مسلسل اپنے مشن پر رہتا ہے اگرچہ اس کے اغوا اور دھوکے کے انداز بدلتے رہتے ہیں، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ابتلاء اور امتحان کے طریقے بدل گئے ہیں۔ پس ہمیں ایمان کی حقیقی زرہ پہن لینی چاہیے، اور اطاعت کو بھی دوگنا کر دینا چاہیے، اور دائمی عبادات سے قوت حاصل کرنی چاہیے تاکہ اﷲشروع میں ہی اس کی چال کو اسی پر لوٹا دے، اور اس کا راستہ بند ہو جائے۔
اقدامات اور مراتب:
شیطان انسان کے پیچھے پڑا رہتا ہے، اور اس وقت تک سائے کی طرح اس کا تعاقب کرتا رہتا ہے جب تک وہ اس کی پارٹی میں شامل نہ ہو جائے، اور اس کا طریقہ بڑا آسان ہے، وہ ایک ایک قدم آگے بڑھتا چلا جاتا ہے، حتی کہ اس کا ہدف پورا ہو جائے۔ اس کو امام غزالی اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’شیطان ابن ِ آدم کے پاس اس کے گناہوں کی جانب سے آتا ہے، پھر اگر وہ رک جائے تو وہ خیرخواہی کی جانب سے اس کے پاس آتا ہے، اور اسے بدعت میں ڈال دیتا ہے، اگر وہ اس سے بھی انکار کردے تو وہ اسے رکنے کا حکم دے دیتا ہے تاکہ وہ پوری شدت سے ان چیزوں کو حرام بنا لے جو حرام نہیں ہیں، اگر وہ اس سے بھی انکار کر دے تو وہ اسے اس کے وضو اور نماز میں شک میں مبتلا کر دیتا ہے تاکہ وہ علم سے نکل جائے، اگر وہ اس سے بھی انکار کر دے تو وہ اس کے لئے نیکیاں کرنا آسان کر دیتا ہے تاکہ لوگ اسے دیکھیں کہ وہ کتنا صابر اور بچنے والا ہے، پس وہ بھی لوگوں کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے، اور اسے خود بھی (اپنے یہ اعمال) اچھے لگتے ہیں، اور وہ انہیں کے ذریعے اسے ہلاک کر دیتا ہے‘‘۔
اور شیطان مختلف مراتب میں ایک کے بعد دوسرا وار کر کے (انسانوں کا) اغوا کرتا ہے، اگر انسان اسے کسی ایک میں عاجز کر دے تو وہ اس سے نچلے پر آجاتا ہے، اور ابن ِ القیم ۔ رحمہ اﷲ ۔نے اسے چھ مراتب میں تقسیم کیا ہے:
پہلا : کفر اور شرک اور اﷲ اور اس کے رسول کی برابری۔
دوسرا: بدعت، اور یہ اسے فسق اور معاصی سے بھی زیادہ پسند ہے؛ کیونکہ اس کا دین کو ایسا ہی نقصان ہے جیسا کسی چھوتی مرض سے ہوتا ہے۔
تیسرا: ہر طرح کے کبائر۔
چوتھا: صغیرہ گناہ جو اگر جمع ہو جائیں تو ان کا ارتکاب کرنے والا ہلاکت میں پڑ سکتا ہے۔
پانچواں: بندے کا ایسے مباح کاموں میں مشغول رہنا جن میں نہ کوئی سزا ہے نہ جزا، بلکہ انجام کار ثواب کا ضیاع ہے جو وہ کسی اور کام میں مشغول ہو کر حاصل کر سکتا تھا۔
چھٹا: یہ کہ اسے بڑے درجے کی نیکی سے ہٹا کر کم فضیلت کی نیکی میں لگا دے۔
اور اگر وہ انسان کو ان چھ مراتب میں بھٹکانے سے عاجز آجائے تو وہ اس پر جن و انس کے شیطانی گروہ مسلط کر دیتا ہے، جو اسے مختلف اذیت میں مبتلا کرتے ہیں، اور اس کی تکفیر اور تضلیل کرتے ہیں۔
اﷲ تعالی نے ہمیں ان سب سے ڈرایا ہے، پس فرمایا: {یا ایھا الذین آمنوا لا تتبعوا خطوات الشیطان فانہ یامر بالفحشاء والمنکر ولو لا فضل اﷲ علیکم ورحمتہ ما زکی منکم من احد ابداً ولکن اﷲ یزکی من یشاء واﷲ سمیع علیم} (النور، ۲۱)
اور اﷲ کی ہر نافرمانی شیطان کی پیروی سے عبارت ہے، جو وہ شہوات اور شبہات سے بھرے راستے پر قدم اٹھاتا ہے تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے، اور یہ اس کے اقدامات کی طرح متنوع اور کثرت سے ہیں، ان میں بعض یہ ہیں:
نافرمانوں کی نگاہوں میں باطل کو مزین بنا کر پیش کرنا: وہ اﷲ عزوجل سے کہتاہے: {قال رب بما اغویتنی لازینن لھم فی الارض ولاغوینھم اجمعین} (الحجر، ۳۹)یعنی پہلے (برے اعمال کو) زینت دینا، پھر اغوائ۔
بچاؤ کے منصوبے:
حدیث ِ قدسی میں آیا ہے: ’’۔۔ اور میں نے اپنے تمام بندوں کو یکسو پیدا کیا تھا، شیاطین ان کے پاس آتے ہیں اور انہیں ان کے دین کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیتے ہیں، اور جو میں نے ان کے لئے حلال کیا ہے اسے حرام ٹھہرا دیتے ہیں، اور انہیں حکم دیتے ہیں کہ وہ میرے ساتھ ان کو شریک ٹھہرائیں، جن کے بارے میں میں نے کوئی سند نازل نہیں کی‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)۔
جب آپ کو معلوم ہو گیا کہ شیطان آپ کا اولین دشمن ہے، جب سے آپ کے باپ آدم کی تخلیق ہوئی، اور وہ عمل کرنے والے انسانوں کا راہزنی کا لیڈر ہے، تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کے مقابلے سے فرار مت حاصل کریں، آپ پر لازم ہے کہ آپ اس کے منصوبوں سے آگاہ ہوں، تاکہ اس کے منصوبے چوپٹ کر سکیں، اور اس کے داخل ہونے کے دروازوں سے آگاہ ہوں تاکہ وہ آپ کے دل کی دیوار میں شگاف نہ ڈال سکے، اور نہ آپ کی روح کی دیوار کو پاٹ سکے، اس لئے بندگی کا پہلے سے علم ہونا چاہیے، اور اس پر توجہ مرکوز ہونی چاہیے۔
پھر جب آپ جانتے ہیں کہ وہ آپ کے راستے میں کھڑا ہو کر آپ کا راستہ کاٹے گا، اور جہالت کے دروازے سے آپ تک پہنچے گا تو آپ بلا تردد اسے علم کے دروازے سے بند کر دیں، اور تمام راہ گزر پر آپ اسی طرح اس کے لئے ایک ایک دروازہ بند کرتے چلے جائیں، تو اس کے لئے تمام داخلی دروازے بند ہو جائیں گے، اور آپ ان سے اس کے برعکس چیزوں کا دفاع کریں گے؛ پس آپ غصّے کام دفاع تحمل اور اس کے اسباب سے کیجئے، اور تکبر کا دفاع عاجزی اور کندھے جھکا کر کیجئے،
اور حب ِ دنیا کا زہد، قناعت سے، لمبی آرزؤوں کا موت کی یاد سے، حرص کا عطا اور بخشش سے، بخل کا انفاق اور کرم سے، ریا کا اخلاص سے، جزع اور بے صبری کا صبر سے اور اسی طرح دوسرے تمام احوال کا دفاع ان کے برعکس سے کیجئے۔ اور یہ کام آپ سے شدید حفاظت، مکمل بیداری اور اﷲ سے استعانت کا مطالبہ کرتے ہیں: {وقل رب اعوذبک من ھمزات الشیاطین ۰ واعوذبک رب ان یحضرون ۰}(المومنون، ۹۷۔۹۸)
قرآن ِکریم کی تنبیہات:
قرآن کریم میں شیطان کے کئی اخلاق اور اعمال کا ذکر ہے، جیسا کہ فرمایا:
۔کبر، حسد، خوش پسندی اور جھوٹ ۔۔
{قال انا خیر منہ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین} (ص، ۶۷)
{یعدھم ویمنیھم وما یعدھم الشیطان الا غروراً} (النسائ، ۱۲۰)
۔ انسان دشمنی اور اسکی گمراہی ۔۔
{ان الشیطان لکم عدو مبین} (یوسف، ۵)
{ویرید الشیطان ان یضلھم ضلالا بعیداً} (النسائ، ۶۰)
۔خوف دلانا اور معصیت کا حکم دینا ۔۔
{انما ذلکم الشیطان یخوف اولیاء ہ فلا تخافوھم وخافون ان کنتم مومنین} (آل عمران، ۱۷۵)
{الشیطان یعدکم الفقر ویامرکم بالفحشاء واﷲ یعدکم مغفرۃ منہ وفضلاً واﷲ واسع علیم} (البقرۃ، ۲۶۸)
۔ دشمنی بھڑکانا ۔۔
{وقل لعبادی یقولوا التی ھی احسن ان الشیطان کان للانسان عدواً مبیناً} (الاسرائ، ۵۳)
۔ ستر پر حملہ ۔۔
{یا بنی آدم لا یفتننکم الشیطان کما اخرج ابویکم من الجنۃ ینزع عنھما لباسھما لیریھما سوء اتھما} (الاعراف، ۲۷)
۔ اﷲ کی تخلیق میں تغییر کا حکم ۔۔
{ولاضلنھم ولامنینھم ولآمرنھم فلیبتکن آذان الانعام ولآمرنھم فلیغیرن خلق اﷲ ومن یتخذ الشیطان ولیاً من دون اﷲ فقد خسر خسراناً مبیناً} (النسائ، ۱۱۹)
۔ اﷲ کے ذکر سے روکنا ۔۔
{انما یرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والمیسر ویصدکم عن ذکر اﷲ وعن الصلاۃ فھل انتم منتہون} (المائدہ، ۹۱)
نبی اکرم ﷺ کی تحذیرات:
’’شیطان ابنِ آدم (کے جسم) میں خون کی طرح گردش کرتا ہے‘‘ (متفق علیہ)۔ ’’غصّہ شیطان سے ہے‘‘ (اسے احمد نے روایت کیا، اور سیوطی نے اسے حسن قرار دیا)۔ ’’بے شک شیطان اس بات سے مایوس ہو گیا ہے کہ کہ نمازی اس کی بندگی کریں، لیکن انہیں ایک دوسرے کے خلاف لڑانے سے (مایوس نہیں ہوا)‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا)۔ ’’شیطان ابن ِ آدم سے مستعار لیتا ہے، اور بادشاہت سے مستعار لیتا ہے، پس شیطان جو کچھ مستعار لیتا ہے، اس کے ذریعے شر سے دھمکاتا ہے، اور حق کی تکذیب کرتا ہے‘‘ (ترمذی نے اسے روایت کیا، اور سیوطی نے اسے صحیح قرار دیا)۔
’’شیطان اکیلے اور دو کو قلق میں مبتلا کرتا ہے، اور جب وہ تین ہوں تو انہیں قلق میں مبتلا نہیں کر سکتا‘‘ (اسے براز نے روایت کیا، اور سیوطی نے صحیح قرار دیا)۔ ’’شیطان انسان کا بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کا بھیڑیا ہوتا ہے، وہ دور رہنے والی اور کنارہ اختیار کرنے والی بھیڑ کا شکار کر لیتا ہے، پس بچو اور گروہ میں رہو، اور تم پر لازم ہے جماعت اختیار کرنا، عام لوگوں میں رہنا اور مسجد (میں جانا)‘‘ (اسے احمد نے روایت کیا، اور سیوطی نے اسے حسن قرار دیا)۔
’’شیطان تم میں سے ہر ایک کے پاس ہر چیز کے وقت موجود ہوتا ہے، حتی کہ وہ اس کے کھانے کے وقت بھی اس کے پاس ہوتا ہے‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)۔ ’’شیطان تم میں سے کسی کے پاس نماز میں موجود ہوتا ہے، تو وہ اسے شک میں ڈال دیتا ہے، حتی کہ وہ نہیں جانتا کہ اس نے کتنی (رکعتیں) پڑھی ہیں‘‘ (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے، اور سیوطی نے اسے حسن قرار دیا ہے)۔
شیطان سے بچاؤ:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’کہو: اللھم فاطر السموات والارض، عالم الغیب والشھادۃ، رب کل شیء وملیکہ، اشھد ان لا الہ الاانت، اعوذبک من شر نفسی، ومن شر الشیطان، وشرکہ، قلھا اذا اصبحت، واذا امسیت، واذا اخذت مضجعک‘‘ (احمد نے اسے روایت کیا، اور سیوطی نے اسے صحیح قرار دیا)۔(اے اﷲ آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، غیب اور موجود کے جاننے والے، ہر چیز کے رب اور مالک، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں اپنے نفس کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں، اور شیطان کے شر سے، اور اس کے شریکوں کے، اسے پڑھو صبح کے وقت اور شام کے وقت، اور اس وقت جب تم اپنے بستر پر لیٹو)۔
اور فرمایا: ’’جس نے کہا: لا الہ الا اﷲ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد، وھو علی کل شیء قدیر فی یوم مئۃ مرۃ ، کانت لہ عدل عشر رقاب، وکتبت لہ مئۃ حسنۃ، ومحیت عنہ مائۃ سیئۃ، وکانت لہ حرزاً من الشیطان یومہ ذلک حتی یمسی، ولم یأت احد بافضل مما جاء بہ الا رجل عمل اکثر منہ‘‘ (اسے بخاری نے روایت کیا)۔ (اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اسکا کوئی شریک نہیں، اسی کے لئے بادشاہت ہے، اور حمد اسی کے لئے ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے،
جس نے یہ ایک دن میں سو مرتبہ پڑھا ، اسے دس گردنیں چھڑانے کے برابر اجر ملے گا، اور اس کے لئے سو نیکیاں لکھی جائیں گی، اور اس کی سو برائیاں مٹا دی جائیں گی، اور وہ اس دن اسے شیطان سے بچانے کے لئے کافی ہو جائے گا، چتی کہ شام ہو جائے، اور اس سے افضل کوئی چیز نہیں جو آدمی کو اس سے زیادہ دلا سکے‘‘ (اسے بخاری نے روایت کیا)۔
٭٭٭
المجتمع، العدد۱۹۶۴، ۶ رمضان۱۴۳۲ہ، ۶۔ ۸۔ ۲۰۱۱ء
یہ بھی پڑھیے:
راہزن!! (رمضان المبارک کے حوالے سے خصوصی سلسلہ ، پہلی قسط)