حمنہ عمر
عمرکوٹ سندھ:
فی الوقت ہم جن مسائل سے دو چار ہیں، ان میں سے کچھ اپنے پیدا کردہ ہیں اور کچھ غیروں کے۔ یوں بھی لگتا ہے جیسے قدرت نے جو لمبی ڈھیل دے رکھی تھی، اس میں ایک وارننگ بھیجی ہے۔
ہم جانتے ہیں ہماری حکومتوں کے خزانے عوام کے لئے تو سدا سے ہی خالی ہیں۔ ایسے وقت میں بھی جب ہم سب شدید بحران اور مسائل کا شکار ہیں، ہماری حکومت کے سارے مطالبات بھی ہم ہی سے ہیں۔
جس کسی نے دکان یا گھر کرائے پہ دے رکھا ہے، اسے انسانیت کے ناتے سب فرائض یاد دلائے جا رہے ہیں کہ کرایہ معاف کر دیا جائے، یہ نہیں بتایا جا رہا ہے کہ جن کو اس نے آگے کیش دینا تھا وہ تو معاف کرنے والے نہیں۔
دیہاڑی دار افراد کو راشن تو عوام دے رہی ہے۔ حکومت کے احساس پروگرام تک تو ڈیلی ویجر کی رسائی نہیں ہو سکی ابھی تک۔ کہتے ہیں کہ پہلے بینظیر اور دیگر پروگرامات میں شامل افراد کو نمٹایا جائے گا پھر دیہاڑی دار کا نمبر آئے گا،
اسی طریقے سے سیلیریز سے زکوٰة کی کٹوتی بھی رمضان سے قبل ہی کر لی گئی ہے، اسکولوں میں بچوں کی فیسوں میں بیس فیصد رعایت سے اسکول مالکان پریشان ہیں کیونکہ اکثر سکولز کے پاس ان کی ذاتی بلڈنگ نہیں اور والدین 80 فیصد جمع کروانے بھی نہیں آ رہے۔ عمارت کا کرایہ، یوٙٹیلیٹی بلز، سٹاف، ٹیچرز کی تنخواہیں بھی بچوں کی فیسوں ہی سے دی جاتی تھیں اور آج 13 اپریل ہو گئی ہے اور ابھی تک ایک بھی فیس جمع نہیں ہوئی۔ والدین بھی کہاں سے دیں کہ لاک ڈائون میں کاروبار بند کر کے گھر میں بیٹھے ہیں۔ اسکول مالکان نے اپنے سٹاف اور ٹیچرز کو بھی کچھ نہیں دیا۔ اس بارے میں حکومت نے کوئی اعلان نہیں کیا۔ پرائیویٹ ٹیچرز بہت پریشان ہیں۔ ان کو بھی کم از کم 12000 ہی دے دیتے۔ اس سارے عمل کا فائدہ ایک خاص طبقے کو ہے، عوام کو بالکل بھی نہیں ہے۔
ہمارے وزیرِ اعظم عصر سے مغرب جب میڈیا کے سامنے آتے ہیں تو کوئی سولڈ پیکج کے ساتھ آئیں نا۔ پریشانی کا اظہار بھی کر دیتے ہیں اور حل بھی نہیں نکالتے۔ کہتے ہیں کہ عوام فیصلہ کریں، اے آر وائی اور دیگر چینلز پر خود وزیراعظم نے بیٹھ کر بھاشن دیئے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان حالات کا سامنا عوام کو ہی کرنا پڑ رہا ہے ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ عوام سے کرونا فنڈ بھی مانگا جا رہا ہے اور مزدور طبقے حتیٰ کہ پولیس والوں کی تنخواہوں سے کٹوتی بھی کی جا رہی ہے۔
لگتا یوں ہے کہ حکومت کے پاس فی الوقت کوئی وِژن نہیں ہے۔ حالانکہ اس وقت وزرائے اعلیٰ کے ساتھ منظم حکمت عملی کا مظاہرہ درکار ہے مگر یہاں تو سارا کریڈٹ ہی ہمارے ہینڈسم وزیراعظم کو لینا ہے۔ ابھی تک آل پارٹیز کانفرنس نہیں رکھی گئی کہ سب کو اکٹھا کر کے مشاورت نہیں ہو سکتی۔ دراصل اپنی سیاست اور حکومت بچانا مقصود ہے کیونکہ اس کے بعد تو حکومت گھر جاتی نظر آرہی ہے، یہ APS پشاور اسکول کے حادثے سے زیادہ کڑا وقت ہے۔ عمران خان صاحب! پشاور حادثہ کے بعد آپ کنٹینر سے نیچے اتر آئے تھے اور دھرنا ختم کرنے کو اس سے بہتر بہانہ اور کوئی ملنا نہیں تھا۔
عوام سے نہ مانگیں بلکہ عوام کو دینے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ گورنر ہائوسز اور ایوان صدر و وزیراعظم کو یونیورسٹیز نہ سہی قرنطینہ اور ہسپتال ہی بنا دیں۔ انجنیئرنگ کونسل کی مدد سے لوکل وینٹی لیٹرز کی پراڈکشنز ہی شروع کر لیں۔ ورلڈ بنک نے 200 کروڑ ڈالرز دیئے ہیں، ان کا ایماندار لوگوں کو دیکر کام شروع کروائیں نا۔ ڈاکٹرز نرسز مر رہے ہیں ان کو PPE دیں۔
اور عوام کے ثاقب نثار کو بلا کر کام پر لگائیں۔ الخدمت میں عبدالشکور کے ماتحت ہی کسی شعبے میں لگا دیں۔ اور ہاں ڈیم فنڈ والے پیسے کو اور لوٹی کی دولت کی بازیابی سے جو سرمایہ اکٹھا ہوا ہے، اسے کرونا قباحت کے خاتمہ پر لگا دیں۔ سندھ کی ایک بیٹی آپ کو مشورہ دیتی ہے، پکارتی ہے۔