فریحہ حسین:
انسان زمین پر اللہ کا نائب بنا کر اتارا گیا مگر انسان کو زمین برتنے کاسلیقہ ہے نہ طریقہ۔ اللہ کے اس نائب نے زمین کو تاٸب کر دیاتھا۔ انسان کے فضائی سفر نےنیلےآسمان کی نیلاہٹ کو مدھم کر دیا تھا ۔ ہمارےاس سفر نے فضا میں دھویں کے بادل اکٹھےکردیے۔ ہمارے سمندری سفروں نے سمندر کی آب و تاب کو گہنا دیا۔ پرندوں کی آوازیں کہیں گھٹ گئی تھیں۔ ہمارے بےجا سفر کےشوق سے زمین کے جانور سہم گئےتھے۔ انسان کے بغیر سوچےسمجھے منصوبوں کی وجہ سے موسموں کے تغیر نے زمین کو چکرا دیا تھا۔
چاند کی فسوں خیز روشنی آلودگی میں کھو گئی تھی۔ فلک بوس پہاڑوں پر انسان کے قدموں کے نشان پرا گندگی چھوڑنے لگے تھے۔ سمندر پر جمی تیل کی دبیز لہر سے زندہ سمندری حیات بھی مرنے کوتھی اور جھیلوں کی آنکھوں میں آنسو بھر گئے تھے۔ کیا کوئی ذی ہوش اپنے ہی گھر کے ساتھ ایسا کر سکتا ھے۔ انسان نے ایسا ہی کیا۔
اس قرنطینہ نے زمین کو سانس لینے کا موقع دیاہے۔ نیلے آسمان کی نیلاہٹ واپس لوٹ رہی ہے۔ سمندر اپنی آب و تاب سے چمکنے لگا ہے۔ پرندوں کی آوازوں سے فضا گونجنے لگی ہے۔ جانوروں کو زمین پھر سے اپنا گھر لگنے لگی ہے۔ موسموں کا تغیر شاید ٹھیک ہو رہا ہے۔ چاند کی روشنی فسوں خیز لگنے لگی ہے۔ سمندر پر جمی تیل کی دبیز لہر سے مرنے کو سمندری حیات زندگی کی طرف لوٹنے لگی ہے۔ جھیلوں کی آنکھوں میں خواب چمکنے لگے ہیں۔
جی ہاں! اس قرنطینہ نے زمین کو زندہ کر دیا ہے مگر انسانیت نے اس کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ انسانی ترقی کی معراج کو چھو کے بھی ہم کورونا کے حوالے سے بہت سے سوالوں کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ ہماری ترقی وقتی طور پر ہمارے منہ پر مار دی گئی ہے۔
ہمیں یہاں رک کے بہت کچھ سوچنا ہوگا۔ بحیثیت مسلمان اپنے کردار و اعمال کا جائزہ لینا ہوگا۔ ایک اللہ کو ماننےکے باوجود اس کے راستے سے گمراہ ہو کے ہم اپنی کون سی خدمت کر رہے ہیں۔ اللہ کا راستہ ہماری بقا کا راستہ ہے۔ اس کے ضابطہ اخلاق سے بھٹک کر ہم بقا کے راستے سے ہٹ رہے ہیں اور دیگر مذاہب کی بات کی جائے تو کچھ ضابطہ اخلاق تو وہاں بھی موجود ہے مگر ہم انسانوں نے ہر ضابطے کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
سائنس، سائنس کا مقصد اگر انسانیت کی خدمت نہیں تو ہمیں سوچنا ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں اور یقیناً ہم پر بھی سائنس کے استعمال کے حوالے سےبھی بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ موجودہ حا لات کے بعد بھی کیا ہم امیگریشن اور انسانی آمدورفت میں کچھ نئے قوانین اور طریقوں کی امید نہ رکھیں۔ اب ازحد ضروری ہے کہ ہم کارخانوں کو استعمال کرتے ہوئے ان کے زمین پر اثرات کا از سرنو جائزہ لیں۔
ضروری ہے کہ انسانی رہائش کے دائرہ کار کو بے ہنگم انداز میں آگے بڑھانے کی بجائے کچھ اصول طے کر لیں۔ تیزی سے بڑھتی انسانی آبادی کے تناظر میں چادر دیکھ کے پائوں پھیلانے کی ضرورت جتنی آج ہے شاید کبھی نہ ہو۔ کلچرل تفاوت کو برقرار رہنے دیں، یہ کسی نعمت سے کم نہیں۔ ریاستوں کو اپنے بجٹ کو بناتے ہوئے کچھ بنیادی اصول پھر سے طے کرنا ہوں گے۔
اسلحہ کےانبار نے انسان کی کیا خدمت کی ہے جنگ زدہ علاقوں میں رہنے والوں سے پوچھا جائے۔ ریاستیں جب اپنے دائرہ سے باہر نکل کےاپنے مفادات کو محفوظ بنانے کی کو شش کرتی ہیں تو در حقیقت بھیانک راستے پر چل رہی ہوتی ہیں۔ حلال اور حرام کا خیال اپنے کھانے کی میز پر بھی رکھنا ہوگا، معاشی اور اقتصادی تسکین معاشرے کے ہر طبقے کا حق ہے۔ اس سوچ کو معا شرے کی بنیاد بنانا ہوگا۔ صفائی نصف ایمان ہے، یہ اصول اب ہماری ذاتیات کا حصہ ہونا چاہیے۔ جنگ زدہ ماحول میں زندہ اقوام کی نفسیاتی کیفیت اب ہم سب کی سمجھ میں آ گئی ہوگی۔
کورونا کا براہ راست تعلق شاید ان سب سے جوڑنا عجیب ہو مگر غور کریں تو موجودہ حالات کہیں نہ کہیں ان سب سے جڑے ہیں۔ یہ یاد کرنے سے پہلے کہ لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے ۔
یاد رکھیں کہ خدا سراپائے محبت ہے ہمیں اکیلا نہیں چھوڑے گا۔
(مصنفہ ایک کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)