بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کے قتل میں ملوث ایک سابق فوجی کیپٹن عبدالماجد کو سزا سنائے جانے کے 25؍ سال کے بعد پھانسی دیدی گئی۔ انھیں ڈھاکہ کے نزدیک کیرانی گنج کی جیل میں پھانسی دی گئی۔عبدالماجد کو 1998ء میں دیگر 12فوجی افسران کے ساتھ قتل کے جرم میں سزائیں سنائی گئی تھیں۔
عبدالماجد کو گزشتہ منگل کے روز 9 اپریل کو ڈھاکہ میں ایک رکشہ پر سفر کرتے ہوئے گرفتار کیاگیا تھا۔ بنگلہ دیش کے وزیرداخلہ اسدالزمان خان نے اس گرفتاری کو سال کا بہترین تحفہ قراردیا تھا۔ عبدالماجد نے سرعام شیخ مجیب الرحمن کے قتل میںملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا، جس کے بعد وہ کئی برس تک بھارت میں روپوش رہا۔ وہ بنگلہ دیش میں کب واپس آیا، اس کا کسی کو پتہ نہیں چل سکا۔
یادرہے کہ شیخ مجیب الرحمن اور ان کے کئی رشتہ دار جونئیر فوجیوں کے جتھے کے ہاتھوں 15 اگست 1975 کو اپنی رہائش گاہ کے باہر قتل کردئیے گئے تھے۔ صرف بیٹی حسینہ واجد (موجودہ بنگلہ دیشی وزیراعظم) زندہ بچی تھی۔ وہ ان دنوں جرمنی میں بغرض تعلیم مقیم تھیں۔
شیخ مجیب الرحمن کے قتل کے بعد اقتدار سنبھالنے والے جنرل ضیاالرحمن نے شیخ مجیب کے قاتلوں کو اہم عہدوں پر فائز کیا۔ عبدالماجد کو 1980 میں سینی گال میں بنگلہ دیش کا سفیر متعین کیا گیا۔ بعدازاں وہ بنگلہ دیش میں سول بیوروکریسی میں ڈپٹی سیکرٹری، پھر سیکرٹری کے طور پر کام کرتا رہا۔ 1997 میں شیخ حسینہ واجد اقتدار میں آئیں تو عبدالماجد نے ملک چھوڑ دیا۔
بنگلہ دیش کی ایک ٹرائل کورٹ نے 1998 میں شیخ مجیب کے قاتلوں کو سزائے موت سنائی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کی گئی۔ 2009 میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے سزائے موت برقرار رکھی۔ 2010 میں پانچ قاتلوں کو پھانسی دیدی گئی، ایک قاتل کا زمبابوے میں انتقال ہوگیا۔ باقی چھ مفرور تھے جن میں سے ایک عبدالماجد بھی تھا۔ بنگلہ دیشی حکام کا کہنا ہے کہ ایک قاتل کینیڈا اور دوسرا امریکا میں روپوش ہے۔