تحریکِ آزادئ ہند اور مسلمان

تحریکِ آزادی ہند اور مسلمان

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مُسلمان اور غُلامی۔۔۔۔ یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔ مُسلمان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ غُلامی کی فِضا میں اپنے دِین کے تقاضوں کو پُورا کر سکے۔ اِسلام پر اُسی وقت پُوری طرح عمل ہو سکتا ہے، جب اِنسان ساری بندشوں کو توڑ کر صرف خُدا کا مطیع ہو جائے۔ اِسلام غلبہ اور حکمرانی کیلۓ آیا ہے، دوسروں کی چاکری اور باطِل نظاموں کے تحت جُزوی اِصلاحات کے لیے نہیں آیا۔
ھو الذی ارسل۔۔۔۔۔۔۔ کرہ المشرکون۔
الصف (9:61)
وہی ہے(ذات باری تعالٰی) جس نے بھیجا اپنا رسول(ﷺ) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ تاکہ اِس دین کو دُنیا کے تمام اَدیان پر غالب کر دے۔ خواہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔

اِسلام نے مسلمانوں کا مزاج یہ بنایا ہے کہ طاغوت کی حکومت، خواہ وہ کسی رنگ میں ہو، کُھل کر اُس کی مخالفت کی جائے، اُسے کبھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کیا جائے، اور خُدا کی حاکمیت کو سیاسی حیثیت سے عملاً قاٸم کرنے اور اُس کے قانون کو زندگی کے ہر شعبے میں جاری و ساری کرنے کی کوشش کی جاٸے، مسلمانوں کی پُوری تاریخ میں یہی کشمکش اور کوشش نظر آتی ہے۔

برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے سامنے یہ مسْلہ اٹھارہویں اور اُنیسویں صدی میں بہت نمایاں ہو کر اُبھرا۔ سلطنتِ مغلیہ کے ختم ہونے تک صورت حال یہ تھی کہ گو مجموعی طور پر مُلک کا نظامِ اجتماعی اِسلام کے مطابق نہ تھا، لیکن ایک طرف مُسلم معاشرہ میں ہماری ثقافت کی روایات بڑی مضبوطی سے جا گزیں تھیں، اور دوسری طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔ برطانوی سامراج کی آمد نے مسلمانوں کو ملی زندگی میں نظریاتی نقطہ نظر سے جو بگاڑ آ چکا تھا اس کو بڑھایا اور اسے اس کی انتہا تک پہنچا دیا، تاکہ مسلمان سیاسی، معاشی، ذہنی، اخلاقی، ثقافتی، غرض ہر حیثیت سے غُلام بن جاٸیں، اور اُن کا جُداگانہ وجود باقی نہ رہے۔

مسلمانوں نے اِس نٸی حیثیت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ مسلمان کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے تھے، محض ہندوستان میں بسنے والی ایک مخلوق کی حیثیت سے نہیں۔ اُنہوں نے آزادی کی کوشش کی۔ سیّد احمد شہیدؒ نے جہاد کا اعلان کیا اور تحریکِ مجاہدین نے آخری دم تک مقابلہ کیا جبکہ فراٸضی تحریک نے مشرقی ہند میں جہاد کا علَم بُلند کیا۔ 1857 کی جنگِ آزادی مسلمانوں ہی کے خُون سے سینچی گئی اور اِس طرح اپنی تمام خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود مسلمانوں نے اِسلام کے اس مزاج کا بار بار اظہار کیا کہ وہ غیر اللہ کی غُلامی کو قبول نہیں کر سکتا، اور طاغُوت کے ساتھ کوٸی سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔

بیسویں صدی کے شروع ہی سے حالات نے ایک ایسا رُخ اختیار کیا۔ نٸ تحریکات اُبھریں۔ سیاسی اسٹیج پر بڑی گہما گہمی ہوٸی۔ پُرانی دُوستیاں ٹوٹیں اور نٸ دُشمنیاں پیدا ہوٸیں۔ وقتی اور ہنگامی طور پر بڑے بڑے کارنامے بھی انجام دٸیے گٸے لیکن ابھی تک مسلمانوں کے سامنے وہ راہ واضح نہ ہوٸی تھی، جو ایک طرف اُنہیں غُلامی سے نجات دلاٸے، اور آزادی کے وسیع میدانوں کو اُن کے لیے مسخر کرے۔

*ان حالات میں مجدد مولانا سیّد ابوالاعلٰی مودودیؒ نے احیائے اِسلام کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ ایک طرف آپؒ نے اِسلام کی بُنیادی تعلیمات کو عقلی دلاٸل کے ساتھ پیش کیا اور ذہنوں سے شکوک کے اُن کانٹوں کو نکالا، جو الحاد، بے دینی اور اشتراکیت کی یلغار نے پیوست کر دٸیے تھے۔ پھر آپؒ نے ان تمدّنی، معاشرتی اور معاشی مساٸل کا حل بھی اِسلام کی روشنی میں بتایا جو سوچنے سمجھنے والے طبقات کو پریشان کیے ہوٸے تھے۔

الغرض اِس بُلند تصنیف کو چند الفاظ میں بیان کرنا مشکل نہیں ناممکن ہے البتہ دو حصّوں پر مشتمل، 830 صفحات، اصل قیمت 975 پر آپ بہ آسانی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ شاہکار تصنیف دراصل ایک تاریخی دستاویز ہے، جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ 1939 سے تقسیمِ ہند کے وقت تک ہندوستان کے مسلمانوں کو مُفکّرِ اِسلام مولانا سیّد ابوالاعلٰی مودودیؒ کیا سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔*

بلاشبہ اِس کتاب نے ایک نسل کو متاثر کیا، متحدہ قُومیّت کے طلسّم کو چاک کیا، اور ”اِسلامی قومیت“ کے احساس کو پُختہ کرکے اسے ایک سیاسی نصب العین کی شکل دی۔
کتاب حاصل کرنے کے لیے
واٹس ایپ 03139255704


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں