اعزازسید:
31مارچ 2020 کو وزیراعظم سیکرٹریٹ اسلام آباد کو ایف آئی اے کی ایک رپورٹ موصول ہوئی۔
وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو بتایا گیا کہ یہ چینی اور آٹے کے بحران کے دوران فائدہ اٹھانے والوں سے متعلق ابتدائی رپورٹ ہے۔
یکم اپریل کو دن تقریباً گیارہ بجے وزیراعظم سیکرٹریٹ اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان سے ان کے معاونِ خصوصی برائے داخلہ و احتساب امور بیرسٹر شہزاد اکبر کی ملاقات طے ہو گئی۔
ملاقات کا ایجنڈا ایف آئی اے رپورٹ پر وزیراعظم کو بریفنگ دینا تھا۔ شہزاد اکبر وزیراعظم کے ساتھ کام کرنے والے اُن مشیروں میں شامل ہیں جن کے بارے میں ماضی قریب کے برعکس آج کل اتنا شور و غوغا نہیں ہورہا۔
بریفنگ کا آغاز ہوا تو رپورٹ کے حوالے سے شہزاد اکبر نے وزیراعظم کو تین بنیادی آپشن فراہم کیے۔
اول: آٹا، چینی چوری کی ایف آئی اے رپورٹ کو کورونا وائرس بحران کے پیشِ نظر عوام میں جاری نہ کیا جائے، اِسے کور اَپ کیا جائے۔ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ یہ کور کسی وقت ختم بھی ہو سکتا ہے۔ دوم: رپورٹ عوام میں جاری کردی جائے مگر اس کا سیاسی نقصان بھی ہوگا۔
یہ بھی پڑھیے:
جہانگیرترین: اب وہ کسی کام کا نہیں رہا
”نائب وزیراعظم“ کی چھٹی،کیا وزیراعظم سے بیوفائی کا نتیجہ ہے؟
سب بوجھ ہٹانے کا فیصلہ،عمران خان کا آپریشن کلین اپ شروع
جہانگیر ترین سمیت کچھ قریبی سیاسی ساتھیوں کی قربانی دینا ہوگی۔ کابینہ میں بھی تبدیلیاں لانا پڑیں گی۔
قربتیں دوریوں میں بدلیں گی لہٰذا حکومت کو کسی بھی موقع پر بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سوم: رپورٹ جاری کرنے کے بجائے بڑے ناموں کے بغیر اس کی غیر متنازع سمری جاری کر دی جائے۔
اس ملاقات میں بیرسٹر شہزاد اکبر نے وزیراعظم کو رپورٹ جاری نہ کرنے کا مشورہ دیا مگر عمران خان اس خیال کے برعکس رپورٹ کے اجرا کے حامی تھے۔
شہزاد اکبر نے مشورہ دیا کہ اس حوالے سے کچھ دیگر لوگوں سے بھی مشاورت کرلی جائے تو بہتر ہوگا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب چینی اور آٹے کے بارے میں ایف آئی اے اپنی تحقیقات کررہی تھی تو اس دوران چینی مافیا کے ایک بڑے پرزے کی طرف سے ایف آئی اے کے ایک افسر کو مبینہ طور پر وٹس ایپ میسج کے ذریعے پیغام دیا گیا تھا کہ وہ اپنے کام سے باز رہیں ورنہ ملک میں چینی کا بحران پیدا ہو جائے گا۔
مطلب یہ کہ مصنوعی بحران پیدا کرنے کی واضح دھمکی دی گئی جو بیرسٹر شہزاد اکبر کے ذریعے پہلے ہی وزیراعظم کے گوش گزار کی جا چکی تھی۔
دوسری طرف وزیراعظم کو ان کے اپنے ایک دوست کے ذریعے چینی مل مالکان کے خلاف محتاط رہنے کے پیغامات اور مشورے بھی دیے گئے تھے۔
بیرسٹر شہزاد اکبر وزیراعظم سیکرٹریٹ سے نکل گئے تو وزیراعظم نے اپنے کچھ خاص لوگوں سے مشورہ کیا اور اگلے دن یعنی 2اپریل 2020کو وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر اُن کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے رپورٹ عام کرنے یا میڈیا کو جاری کرنے کا تحریری حکم نامہ وزارتِ داخلہ میں شہزاد اکبر کو ارسال کردیا۔
شہزاد اکبر کی طرف سے ایف آئی اے رپورٹ پانچ کے قریب میڈیا مالکان اور ٹی وی اینکرز کو ایک مخصوص وقت پر جاری کرنے کی درخواست کی گئی تو ایک ٹی وی اینکر نے سب سے پہلے خبر کی دوڑ میں آگے نکل کر باقیوں سے پہلے خبر ٹی وی پر نشر کردی۔
مجھ سمیت اکثر لوگ اس تاثر کا شکار رہے کہ دراصل یہ رپورٹ وزیراعظم کی ہدایت پر نہیں بلکہ کسی طاقتور حلقے کی جانب سے جان بوجھ کر لیک کروائی گئی ہے۔ تاثر کی وجہ صاف ظاہر تھی کہ چینی مافیا ہر دور میں ملک کے منتخب و غیرمنتخب حکمرانوں کی آنکھ کا تارا رہا ہے۔ کوئی حکمران ان سے جھگڑا مول نہیں لیتا۔
اس رپورٹ میں شامل جہانگیر ترین اورچوہدری پرویزالٰہی کے بیٹے مونس الٰہی کو دیکھ لیں، وہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کے دائیں بائیں موجود تھے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں اومنی گروپ یعنی عبدالغنی مجید اور غنی مجید شوگر ملز مالکان کا راج تھا۔
ن لیگ کے دور میں شوگر مل مالک چوہدری منیر طاقت اور اثرورسوخ کی بلندیوں پر رہے۔ ایک طرف ان کی شریف برادران سے رشتہ داری تھی تو دوسری طرف گجرات کے چوہدری برادران سے کاروباری شراکت داری۔
شریف برادران اور آصف علی زرداری خود بھی شوگر ملز اور اس سے متعلق کاروبار سے جڑے رہے ہیں لہٰذا مشترکہ کاروباری مفادات نے شوگر مل مالکان کو ہر دور میں ناقابلِ تسخیر ہی بنائے رکھا۔
ہمیشہ باہمی سیاسی رقابت مشترکہ کاروباری مفادات کے زیر اثر رہی۔ یہ بھی سچ ہے کہ عام طور پر اسطرح کی انکوائریاں کروائی جاتی ہیں نہ رپورٹس کا اجرا ہوتا ہے لیکن اس ابتدائی رپورٹ کی تیاری میں اصل کمال تو دو پولیس افسران یعنی ڈی جی اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب محمد گوہر نفیس اور انٹیلی جنس بیورو کے افسر احمد کمال نے کیا ہے جن کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
اب ذرا وزیراعظم عمران خان کی طرف آئیں۔ عمران خان کے وزیراعظم بننے تک کی سیاست عملی طور پر تین ستونوں پر کھڑی ہے۔
پہلا ستون ملک کا طاقتور ترین طبقہ یا اسٹیبلشمنٹ، دوسرا ستون جہانگیر ترین جیسے دولتمند اور بااثر لوگ جبکہ تیسرا ستون میڈیا ہے۔
انہوں نے یہ رپورٹ جاری کرکے خود کو اقتدار میں لانے والے ایک ستون کو گرایا نہیں تو ہلایا ضرور ہے۔ دوسرا ستون فی الحال ان کے ساتھ ہے مگر ناخوش بھی۔
وقت پڑنے پر پہلے اور دوسرے ستون کے کردار آپس میں مل جائیں گے۔ ایسے میں تیسرا ستون یعنی میڈیا ان کے کام آئے گا لیکن اس وقت حکومت میڈیا کے ساتھ بھی مخاصمت کے راستے پر گامزن ہے۔
اسے اپنے اس چلن پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ جلد ہی ان کے اقتدار کی وجہ بننے والے باقی کردار کچھ اور سوچنے اور کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ایسے میں اُن کے ساتھ صرف میڈیا ہی کھڑا ہوگا جو آج کل خود حکومت کے غیظ و غضب کا شکار ہے۔